اخبرنا محمد بن بکر، انا ابن جریج، اخبرنی الحسن بن مسلم عن طاؤوس قال: قال رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم حق علٰی کل مسلم بلغ الحلم، ان یتطهر للٰه فی کل سبعة ایام یوما، وان لم یکن جنبا، یغسل رأسه وجلده یوم الجمعة.اَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ، اَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ، اَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ طَاؤُوْسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ بَلَغَ الْحَلْمَ، اَنْ یَّتَطَهَّرَ لِلّٰهِ فِی کُلِّ سَبْعَةِ اَیَّامٍ یَوْمًا، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ جُنُبًا، یَغْسِلُ رَأْسَهٗ وَجِلْدَهٗ یَوْمُ الْجُمُعَةِ.
طاؤس رحمہ اللہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بالغ شخص پر حق ہے کہ وہ ہر سات دن میں سے ایک دن اللہ کی خاطر خوب صفائی کرے، اگرچہ وہ جنبی نہ ہو، وہ جمعہ کے دن اپنا سر اور اپنا جسم دھوئے گا۔“
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 219
فوائد: جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے غسل کرنا مسنون ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں ہے ہر بالغ مسلمان پر سات دنوں میں ایک دن غسل کرنا حق ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ: ((غُسْلُ یَوْمُ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُحْتَلِمٍ۔))(بخاري، رقم: 858) .... ”ہر بالغ شخص پر جمعہ کے دن غسل کرنا واجب ہے۔“ روایات سے ثابت ہے کہ مشکل حالات کی وجہ سے صحابہ کرام موسم گرما میں اونی لباس پہنتے تھے جس کی وجہ سے پسینہ آتا اور مسجد میں ان کے پسینے کی بدبو پھیل جاتی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ((لَوْ اَنَّکُمْ تَطَهَّرْتُمْ لِیَوْمِکُمْ هٰذَا۔))(بخاري، رقم: 903۔ مسلم، رقم: 847)”اگر تم اس دن غسل کرلیا کرو (تو بہتر ہے۔)“ ان روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے فقہاء میں اختلاف ہے کیا غسل جمعہ واجب ہے یا کہ نہیں؟ علامہ ابن حجر اور ابن حزم ; کا موقف ہے کہ غسل جمعہ فرض ہے۔ (فتح الباري: 3؍ 13۔ المحلی بالآثار: 1؍ 255) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف ہے: غسل جمعہ مستحب ہے، البتہ جس میں پسینے کی وجہ سے بدبو ہو اور نمازی اور فرشتے اس سے تکلیف محسوس کرسکتے ہوں، اس پر واجب ہے۔ (التعلیق علی سبل السلام للشیخ عبدالله بسام: 1؍ 186)