اخبرنا يونس بن بكير، انا محمد بن إسحاق، عن يعقوب بن عتبة، عن ابي غطفان، عن ابي هريرة رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((التسبيح للرجال في الصلاة، والتصفيق للنساء، ومن اشار في صلاته إشارة تفهم فليعد لها الصلاة)) آخر احاديث ابي هريرة رضي الله عنه.أَخْبَرَنَا يُونُسَ بْنُ بُكَيْرٍ، أنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي غَطَفَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ فِي الصَّلَاةِ، وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ، وَمَنْ أَشَارَ فِي صَلَاتِهَ إِشَارَةً تُفْهِمُ فَلْيُعِدْ لَهَا الصَّلَاةَ)) آخِرُ أَحَادِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز میں (امام کو بھول جانے، غلطی کرنے پر متنبہ کرنے کے لیے) مردوں کے لیے سبحان اللہ کہنا اور عورتوں کے لیے تالی بجانا ہے، اور جو شخص اپنی نماز میں کوئی ایسا اشارہ کرے جو سمجھا جائے تو وہ اس کے لیے نماز دہرائے۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی آخری حدیث ہے۔
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الصلاة، باب التصفيق للنساء، رقم: 1203. مسلم، كتاب الصلاة، باب تسبيح الرجل وتصفيق المراة الخ، رقم: 422. سنن ابوداود، رقم: 939. سنن نسائي، رقم: 1207. سنن ابن ماجه، رقم: 1034. مسند احمد: 241/2. صحيح ابن حبان، رقم: 2262. صحيح ابن خزيمه، رقم: 894.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 182 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 182
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دوران نماز امام کو غلطی لگ جائے تو اسے متنبہ کرنے کے لیے مرد سبحان اللہ کہیں گے اور عورتیں تالی بجا کر امام کو متنبہ کر سکتی ہیں۔ یعنی ایک ہاتھ کی پشت پر دوسرا ہاتھ مارکر۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ عورت کی بلا ضرورت مردوں کو آواز نہ سنائی دے۔ اگر ضرورت پیش آجائے تو پھر اس کا جواز ملتا ہے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر امہات المومنین سے آکر مسائل دریافت کرتے اور وہ بتایا کرتی تھیں، لیکن اس صورت میں عورت کو نرم انداز اپنانے کی اجازت نہیں۔ روایت کے آخر کے الفاظ ”مَنْ اَشَارَ فِیْ صَلَاتِهٖ“ یہ صحیح ثابت نہیں ہیں۔ (سنن ابی داود، رقم: 944۔ سلسلة الضعیفة، رقم: 1104)