وعن ابن عباس رضي الله عنهما ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم سال اهل قباء فقال: «إن الله يثني عليكم» فقالوا: إنا نتبع الحجارة الماء. رواه البزار بسند ضعيف. واصله في ابي داود، وصححه ابن خزيمة من حديث ابي هريرة رضي الله عنه، بدون ذكر الحجارة.وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم سأل أهل قباء فقال: «إن الله يثني عليكم» فقالوا: إنا نتبع الحجارة الماء. رواه البزار بسند ضعيف. وأصله في أبي داود، وصححه ابن خزيمة من حديث أبي هريرة رضي الله عنه، بدون ذكر الحجارة.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قباء سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری (پاکیزگی کے بارے میں) بڑی تعریف فرمائی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم ڈھیلوں کے استعمال کے بعد مزید طہارت کے لیے پانی بھی استعمال کرتے ہیں۔ اسے ضعیف سند کے ساتھ بزار نے روایت کیا ہے۔ اس کی اصل ابوداؤد اور ترمذی میں موجود ہے (اسی سلسلے میں) ابن خزیمہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے البتہ اس میں ڈھیلوں کا ذکر نہیں ہے۔
हज़रत इब्न अब्बास रज़ि अल्लाहु अन्हुमा रिवायत करते हैं कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने क़बा के रहने वालों से सवाल किया कि अल्लाह तआला ने तुम्हारी (पवित्रता के बारे में) बड़ी ताअरीफ़ करी है, इस की वजह क्या है ? उन्हों ने कहा कि हम ढेलों के उपयोग के बाद और अधिक पवित्रता के लिए पानी भी इस्तेमाल करते हैं। इसे ज़ईफ़ सनद के साथ बज़ार ने रिवायत किया है। इस की असल अबू दाऊद और त्रिमीज़ी में मौजूद है। (इस बारे में) इब्न ख़ुज़ैमा ने अबु हुरैरा रज़ि अल्लाहु अन्ह की रिवायत को सहीह ठहराया है लेकिन इस में ढेलों की बात नहीं है।
تخریج الحدیث: «أخرجه البزار(كشف الأستار):1 /130، 131، حديث:247، فيه محمد بن عبدالعزيز بن عمر وهو منكر الحديث، وحديث أبي هريرة أخرجه أبوداود، الطهارة، حديث:44، والترمذي، تفسير القرآن، حديث:3100، بغير هذا اللفظ، وهو حسن بالشواهد(انظرمسند أحمد:6 /6،حديث:23723 وسنده حسن قوي) وابن خزيمة من حديث أبي هريرة.»
Narrated Ibn ‘Abbas (ﷺ): The Prophet (ﷺ) asked the residents of Quba that what had earned them the Praise of Allah and they replied, “We use water after (cleaning ourselves with) stones.” [Reported by Al-Bazzar with Da’if chain of narrators]. and its Asl (original source) is in Abu Da’ud and At-Tirmidhi and Ibn Khuzaima graded it Sahih (sound) through Abu Huraira (rad) without mentioning the “stones”.]
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 93
� لغوی تشریح: «أَهْلَ قُبَآءٍ» «سَأَلَ» فعل کا مفعول ہے اور «قُبَاء»”قاف“ کے ضمہ اور آخر میں الف ممدودہ اور ”با“ کی تخفیف کے ساتھ ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مذکر ہے اور منصرف ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ مؤنث غیر منصرف ہے۔ مدینہ کے جنوب میں تین میل کے فاصلے پر ایک مشہور مقام کا نام ہے۔ «يُثْنِي عَلَيْكُمْ» یعنی اللہ رب العزت نے اپنے اس قول کے ساتھ تمہاری تعریف کی ہے: «فِيْهِ رِجَالٌ يُحِبُّوْنَ أَنْ يَّتَطَهَّرُوْا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ»[التوبة 9: 108]”ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جو طہارت کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ «نُتْبِعُ الْحِجَارَةَ الْمَاءَ» یعنی پہلے ہم پتھروں سے استنجا کرتے ہیں، پھر اس کے بعد پانی سے صفائی کرتے ہیں اور «نُتْبِعُ» باب افعال سے ہے۔ «اَلْحِجَارَةَ» اس کا مفعول اوّل ہے اور «اَلْمَاءَ» مفعول ثانی ہے۔ «بِسَنَدٍ ضَعِيْفٍ» یہ اس لیے ضعیف ہے کہ امام زہری سے محمد بن عبدالعزیز نے روایت کیا ہے اور وہ ضعیف ہے۔ اسی طرح اس سند میں عبداللہ بن شبیب بھی ضعیف راوی ہے، تاہم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ جس میں صرف پانی سے استنجاء کرنے کا ذکر ہے، وہ صحیح ہے، اس لیے ترجمۃ الباب کے تحت مذکور روایت پتھروں کے ذکر کے سوا اس روایت کی تائید کی بنا پر حسن بن جاتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 93
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 44
´پانی سے استنجاء کرنے کا بیان` «. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي أَهْلِ قُبَاءٍ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا . . .» ”. . . نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فيه رجال يحبون أن يتطهروا» اہل قباء کی شان میں نازل ہوئی ہے، وہ لوگ پانی سے استنجاء کرتے تھے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 44]
فوائد و مسائل: ➊ پانی سے استنجاء کرنا افضل ہے۔ ڈھیلے اور پانی دونوں کو جمع کرنا اور زیادہ افضل ہے۔ ➋ نوعمر بچوں سے خدمت لی جا سکتی ہے۔ ➌ طہارت اللہ کو بہت پسند ہے اور طاہر لوگ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔ ➍ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لے ظاہر ی و باطنی طہارت کا التزام کرنا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 44
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث357
´پانی سے استنجاء کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ آیت کریمہ اہل قباء کے بارے میں نازل ہوئی: «فيه رجال يحبون أن يتطهروا والله يحب المطهرين»”اس میں کچھ لوگ ہیں جو پاکی کو پسند کرتے ہیں، اور اللہ پاکی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے“(سورة التوبة: 108)، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ پانی سے استنجاء کرتے تھے تو ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 357]
اردو حاشہ: صحیح مسلم میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تو نبی ﷺ نے مسجد نبوی کو اس آیت کے مصداق قرار دیا ہے: دیکھیے: (صحیح مسلم، الحج، باب بیان ان المسجد الذی اسس علی التقوی ھو مسجد النبی ﷺ بالمدینہ، حدیث: 1398) تاہم مسجد قباء کی بنیاد بھی خود رسول اللہ ﷺ نے رکھی ہے اس لیے اسے بھی تقوٰی کی بنیاد پر تعمیر شدہ ﴿لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَي التَّقْوٰي﴾ پاک لوگوں کی مسجد قرار دیا جا سکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 357
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3100
´سورۃ التوبہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آیت «فيه رجال يحبون أن يتطهروا والله يحب المطهرين»”اس میں (قباء میں) وہ لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک رہیں اور اللہ پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہے“(التوبہ: ۱۰۸)، اہل قباء کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان کی عادت تھی کہ وہ استنجاء پانی سے کرتے تھے، تو ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی۔“[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3100]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: قبا میں وہ لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک رہیں اور اللہ پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہے (التوبة: 108)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3100