تخریج: «أخرجه مسلم، الطلاق، باب طلاق الثلاث، حديث:1472.»
تشریح:
یہ روایت دلیل ہے کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تنہا اپنی رائے تھی جبکہ حدیث اس پر دلالت کر رہی ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں تو ایک ہی واقع ہوتی ہے۔
اس مسئلے میں علماء کے چار قول ہیں۔
جمہور‘جس میں ائمۂ اربعہ اور ان کے متبعین بھی شامل ہیں‘ کی رائے یہ ہے کہ اکٹھی دی گئی تین طلاقیں‘ تین ہی واقع ہوں گی اور خاوند کے لیے رجوع کا موقع اب باقی نہیں رہے گا۔
اور ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ ایک ہی وقت و مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق واقع ہو گی۔
عہد نبوی اور خلافت صدیقی میں یہی حکم نافذ و جاری تھا تاآنکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے طور پر اجتہاد کر کے محض لوگوں کو سزا دینے کے لیے تین کو تین ہی نافذ کر دیا۔
ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے ایک ہی طلاق واقع ہونے کا فتویٰ ابن عباس‘ زبیر بن عوام‘ عبدالرحمن بن عوف‘ علی‘ ابن مسعود رضی اللہ عنہم ‘ عکرمہ‘ طاؤس رحمہما اللہ وغیرہم سے بھی منقول ہے اور بعض مالکی علماء‘ کچھ حنفی علماء اور بعض حنبلی اصحاب نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے اور یہی مذہب امام محمد بن اسحق رحمہ اللہ کا ہے۔
مشائخ قرطبہ میں سے محمد بن بقی بن مخلد اور محمد بن عبدالسلام اخشنی جیسے بہت سے حضرات کا یہی موقف ہے۔
فقہا ئے طلیطلہ کی ایک جماعت سے بھی یہی حکایت کیا گیا ہے اور اسی موقف کی تائیدعلامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد رشید علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے کی ہے‘ نیز صحیح اور راجح بھی یہی ہے‘ اس پر یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے اور آگے آنے والی رُکانہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی اس کی دلیل ہے۔
دورحاضر میں اکثر اسلامی ممالک اسی پر عمل پیرا ہیں۔
اس مسئلے میں تیسرا مذہب یہ بھی ہے کہ مطلقہ سے اگر صحبت ہو چکی ہو تو تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی اور اگر صحبت نہ ہوئی ہو تو ایک ہی واقع ہو گی۔
لیکن اس کے حق میں ایسی کوئی دلیل نہیں جس کی طرف التفات کیا جا سکے۔
اور چوتھا مذہب یہ ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں دینے سے ایک بھی واقع نہیں ہو گی‘ اس لیے کہ یہ بدعت اور حرام ہے‘ لہٰذا اس کے ساتھ حکم شرعی کا کوئی تعلق ہی نہیں ہوگا‘ حالانکہ یہ تمام مذاہب سے کمزور ترین مذہب ہے اور باعتبار دلیل کے سب سے بے کار ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(ایک مجلس میں تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل از حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ‘ طبع دارالسلام)