وعن علقمة بن وائل عن ابيه: ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم اقطعه ارضا بحضرموت. رواه ابو داود والترمذي وصححه ابن حبان.وعن علقمة بن وائل عن أبيه: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أقطعه أرضا بحضرموت. رواه أبو داود والترمذي وصححه ابن حبان.
سیدنا علقمہ بن وائل نے اپنے باپ وائل رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حضرموت میں زمین بطور جاگیر عطا فرمائی۔ اسے ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
हज़रत अलक़मह बिन वायल ने अपने पिता वाइल रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत बयान की है कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने उन को हज़रमोत में ज़मीन इनामके रूप में दी। इसे अबू दाऊद और त्रिमीज़ी ने रिवायत किया है और इब्न हब्बान ने इसे सहीह ठहराया है।
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الخراج، باب في إقطاع الأرضين، حديث:3058، والترمذي، الأحكام، حديث:1381، وابن حبان(الإحسان):9 /166، 167.»
Narrated 'Alqama bin Wa'il from his father (RA):
"The Prophet (ﷺ) assigned him land in Hadramout." [Reported by Abu Dawud and at-Tirmidhi. Ibn Hibban graded it Sahih (authentic)].
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 782
تخریج: «أخرجه أبوداود، الخراج، باب في إقطاع الأرضين، حديث:3058، والترمذي، الأحكام، حديث:1381، وابن حبان(الإحسان):9 /166، 167.»
تشریح: راوئ حدیث: «حضرت علقمہ بن وائل بن حجر کندی حضرمی کوفی رحمہ اللہ» صدوق راوی ہے۔ ابن حبان نے اسے ثقہ کہا ہے۔ اپنے باپ حضرت وائل اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 782
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3058
´زمین جاگیر میں دینے کا بیان۔` وائل رضی اللہ عنہ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حضر موت ۱؎ میں زمین کا ٹکڑا جاگیر میں دیا ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3058]
فوائد ومسائل: امام المسلمین یا خلیفہ غیر مملوکہ غیر آباد زمینوں میں سے کوئی قطعہ کسی کو ادا کردے۔ تو اس زمین کوآباد کرنے کا استحقاق اس شخص کو دوسروں سے زیاد ہ ہوگا۔ اس کا یہ بھی مفہوم لیا گیا ہے۔ کہ کوئی قطعہ زمین ایک خاص مدت تک کے لئے کسی کو عطا کردیا جائے۔ کہ وہ اس کی آمدنی حاصل کرسکے۔ امام شافعی کے نزدیک صرف بنجر زمین ہی میں سے کوئی قطعہ کسی کو دیا جاسکتا ہے۔ (فتح الباری۔ کتاب المساقاۃ باب القطایع۔ 60/5) یہ ایک طرح سے آباد کار ی کا پروگرام ہے۔ جس میں ان لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جن کی کوئی خاص خدمات ہوں۔ جس طرح انصار کورسول اللہ ﷺ نے بحرین کی زمین دینی چاہیے۔ اس پرانصار نے کہا کہ اتنی ہی زمین اگران کے بھائی مہاجرین کو بھی دی جائے۔ تو وہ بحرین کے قطعات قبول کریں گے۔ یہ جذبہ ایثار دیکھ کر ر سول اللہ ﷺ نے فرمایا کچھ عرصہ بعد تم یہ دیکھوگے کہ لوگ اپنے آپ کودوسروں پر ترجیح دے رہے ہوں گے تو تم اس پر صبرکرنا یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے ملو (صحیح بخاری کتاب المساقاۃ۔ باب القطائع۔ حدیث 2376)(اثرۃ)اپنے لئے چننا اور (ایثار)دوسروں کے لئے چننا ہے۔ بعض اوقات کسی مستحق کو کوئی قطعہ زمین عطا کیا جاتا تھا۔ ان کی مذید مثالیں سنن ابو دائود کی آئندہ احادیث میں سامنے آیئں گی۔ یہ بعد کے جاگیرداری نظام سے مختلف ہے۔ جس میں اچھی اورآباد زمین لوگوں کی فرمابنرداریاں خریدنے کےلئے دی جاتی تھیں۔ اورجاگیروں کے ساتھ اس علاقے میں رہنے والے انسانوں کو بھی جاگیردارون کامملوک اور غلام بنادیا جاتا تھا۔ اسلام میں اس غرض سے جاگیریں دینے کا بھی کوئی تصور موجود نہیں۔ کہ ان کے آمدنی کے ذریعے سے لشکر کھڑے کئے جاییں۔ اورعند الطلب بادشاہ وغیرہ کو پیش کیے جایئں۔ کیونکہ اسلامی فوج بنیادی طور پر فریضہ جہاد کی ادایئگی کےلئے منظم ہوتی ہے۔ البتہ غنائم کے طور پر جو زمینیں حاصل ہوں۔ انہیں خمس نکالنے کے بعد تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اس سے جاگیرداری نظام وجود میں نہیں آتا۔ کیونکہ یہ سب کے حصے میں آتی ہیں۔ اور چھوٹے چھوٹے قطعوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اس تقسیم میں سپہ سالار اور تمام سپاہی مساوی ہوتے ہیں۔ کسی سالار کواس کی خدمات کے عوض بڑی بڑی جاگیر بھی دینے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اموی بادشاہت میں جاگیریں دی جانے لگیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی آبائی جاگیر سمیت ایسی سب جاگیریں منسوخ کردیں۔ بعد میں یہ خرابی پھر سے شروع ہوگئی۔ لیکن اسلامی احکام پرعمل کرنے والے حکمران اس سے دور رہے ایسے حکمرانوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی کانام بھی شامل ہے۔ جو محض معمولی سی تنخواہ پر گزارہ کرنے کی وجہ سے ہمیشہ مقروض رہتے تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3058