وعن جابر رضي الله عنه قال: رمى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم الجمرة يوم النحر ضحى واما بعد ذلك فإذا زالت الشمس. رواه مسلم.وعن جابر رضي الله عنه قال: رمى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم الجمرة يوم النحر ضحى وأما بعد ذلك فإذا زالت الشمس. رواه مسلم.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کو قربانی کے روز چاشت کے وقت کنکریاں ماریں اور اس روز کے بعد آفتاب ڈھلنے کے بعد۔ (مسلم)
हज़रत जाबिर रज़िअल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने जमरह को क़ुरबानी के दिन चाश्त के समय कंकरियां मारीं और उस दिन के बाद सूरज ढलने के बाद । (मुस्लिम)
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحج، باب بيان وقت استحباب الرمي، حديث:1299.»
Jabir bin 'Abdullah (RAA) narrated, ‘The Messenger of Allah (ﷺ) threw Jamrat—ul 'Aqabah on the Day of Sacrifice (the 9th of Dhul Hijjah) in the forenoon. On the following days he threw them when the sun had passed its meridian.’ Related by Muslim.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 628
628 فوائد و مسائل: ➊ پہلے روز زوال آفتاب سے پہلے کنکریاں مارنی چاہییں اور باقی ایام میں زوال آفتاب کے بعد۔ ➋ اگر دس تاریخ کو زوال آفتاب سے پہلے کنکریاں نہ مار سکے تو پھر اسی روز زوال آفتاب کے بعد مارنی چاہییں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 628
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3065
´یوم النحر (قربانی کے دن) جمرہ عقبہ کی رمی کے وقت کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کو دسویں ذی الحجہ کو چاشت کے وقت کنکریاں ماریں، اور دسویں تاریخ کے بعد (یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ کو) سورج ڈھل جانے کے بعد۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3065]
اردو حاشہ: (1)”یوم نحر“ 10 ذوالحجہ کو کہا جاتا ہے۔ اگرچہ قربانی ما بعد دنوں میں بھی کی جا سکتی ہے مگر قربانی کا دن 10 ذوالحجہ ہی ہے۔ رسول اللہﷺ نے ایک سو اونٹ یوم نحر ہی کو قربان کر دیے تھے۔ (2) یوم نحر رمی کا وقت طلوع شمس سے شروع ہوتا ہے، جب بھی موقع ملے حتیٰ کہ دن کو نہ کر سکے تو رات کو کرے۔ باقی دنوں میں رمی کا وقت زوال شمس سے شروع ہوتا ہے، نیز باقی دنوں میں سب سے جمروں کو رمی کی جاتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3065
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 894
´قربانی کے دن چاشت کے وقت رمی کرنے کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دسویں ذی الحجہ کو (ٹھنڈی) چاشت کے وقت رمی کرتے تھے اور اس کے بعد زوال کے بعد کرتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 894]
اردو حاشہ: 1؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ سنت یہی ہے کہ یوم النحر (دسویں ذوالحجہ، قربانی والے دن) کے علاوہ دوسرے، گیارہ اور بارہ والے دنوں میں رمی سورج ڈھلنے کے بعد کی جائے، یہی جمہور کا قول ہے اور عطاء و طاوس نے اسے زوال سے پہلے مطلقاً جائز کہا ہے، اور حنفیہ نے کوچ کے دن زوال سے پہلے رمی کی رخصت دی ہے، عطاء و طاؤس کے قول پر نبی اکرم ﷺ کے فعل و قول سے کوئی دلیل نہیں ہے، البتہ حنفیہ نے اپنے قول پر ابن عباس کے ایک اثر سے استدلال کیا ہے، لیکن وہ اثر ضعیف ہے اس لیے جمہور ہی کا قول قابل اعتماد ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 894