وعن ابي سعيد رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: المسجد الحرام ومسجدي هذا والمسجد الاقصى» . متفق عليه.وعن أبي سعيد رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: المسجد الحرام ومسجدي هذا والمسجد الأقصى» . متفق عليه.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سوائے تین مسجدوں کے (کسی کے لئے) کجاوے نہ باندھو۔ (یعنی) مسجد الحرام، میری اس مسجد اور مسجد اقصی (کے علاوہ)۔“(بخاری و مسلم)
हज़रत अबु सईद ख़ुदरी रज़िअल्लाहुअन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “सिवाए तीन मस्जिदों के किसी के लिए कजावे न बाँधो । (यानी विशेष रूप से यात्रा न करो) मस्जिद अल-हराम, मेरी यह मस्जिद नबवी और मस्जिद अल-अक़्सा (के सिवा)” (बुख़ारी और मुस्लिम)
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، فضل الصلاة في مسجد مكة والمدينة، باب مسجد بيت المقدس، حديث:1197، ومسلم، الحج، باب سفر المرأة مع محرم إلي حج وغيره، حديث:827-(3261.)»
Abu Sa 'id AI-Khudri (RAA) narrated that The Messenger of Allah (ﷺ) said:
“One should not undertake journeys except to three mosques: al-Masque al-Haram (in Makkah ), the Aqsa mosque, or this mosque (in Madinah)." Agreed upon.
لا تسافر المرأة يومين إلا معها زوجها أو ذو محرم لا صوم في يومين الفطر الأضحى لا صلاة بعد صلاتين بعد الصبح حتى تطلع الشمس بعد العصر حتى تغرب لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد مسجد الحرام ومسجد الأقصى ومسجدي
لا تسافر امرأة مسيرة يومين ليس معها زوجها أو ذو محرم لا صوم يومين الفطر الأضحى لا صلاة بعد صلاتين بعد العصر حتى تغرب الشمس بعد الصبح حتى تطلع الشمس لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد مسجد الحرام مسجدي مسجد الأقصى
لا تسافر المرأة مسيرة يومين إلا ومعها زوجها أو ذو محرم لا صوم في يومين الفطر الأضحى لا صلاة بعد الصبح حتى تطلع الشمس لا بعد العصر حتى تغرب لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد مسجد الحرام مسجد الأقصى مسجدي هذا
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 578
578 لغوی تشریح: «لَا تُشَدُّ الرِّجَالُ» مجہول کا صیغہ ہے اور اس میں احتمال ہے کہ یہ فعل نفی ہو یا فعل نہی۔ «اِلرِّجَال» «رحل» کی جمع ہے اور وہ اونٹ کے کجاوے کو کہتے ہیں، جیسے گھوڑے کی کاٹھی ہوتی ہے۔ اور کجاوے باندھنا استعمال کر کے سفر سے کنایہ کیا گیا ہے کیونکہ عام طور پر سفر کے لیے ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور معنی یہ ہیں کہ حصول برکت و فضیلت کی نیت سے سفر نہ کیا جائے۔ اور ایک روایت میں «لَا تَشُدُّوا» یعنی نہی کا صیغہ جمع مذکر ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان تین مقامات کے علاوہ کسی بھی مقام کو باعث برکت سمجھ کر نیک اور صالح لوگوں کی زیارت کرنا، خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ یا وہاں نماز پڑھنے کی نیت سے سفر کرنا درست نہیں۔ ➋ تبرک کی تخصیص اس لیے ہے کہ ان تین مساجد کی طرف سفر اسی مقصد کے لیے ہوتا ہے، اس لیے ان کے علاوہ دوسرے مقامات کی طرف سفر کی ممانعت بھی اسی مقصد سے مختص ہے، البتہ دوسرے اغراض و مقاصد کے لیے سفر کرنا جائز ہے بلکہ بسا اوقات واجب ہے جس کی تفصیل الصارم المنکی وغیرہ مطول کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ➋ یہ حدیث ان تینوں مقامات کے شرف و فضل پر دلالت کرتی ہے اور اسے یہاں لانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ان مقامات میں اعتکاف کیا جائے، وہاں عبادت اور ذکر و تلاوت کی مقدور بھر کوشش کی جائے۔ ٭
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 578
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1169
´عورت کے تنہا سفر کرنے کی حرمت کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، حلال نہیں کہ وہ تین دن ۱؎ یا اس سے زائد کا سفر کرے اور اس کے ساتھ اس کا باپ یا اس کا بھائی یا اس کا شوہر یا اس کا بیٹا یا اس کا کوئی محرم نہ ہو“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1169]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس میں تین دن کا ذکرہے، بعض روایتوں میں دو اوربعض میں ایک دن کا ذکرہے، اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ ایک یا دو یا تین دن کا اعتبارنہیں اصل اعتبارسفرکا ہے کہ اتنی مسافت ہو جس کو سفرکہا جا سکے اس میں تنہاعورت کے لیے سفرکرنا جائزنہیں۔
2؎: محرم سے مراد شوہرکے علاوہ عورت کے وہ قریبی رشتہ دارہیں جن سے اس کا کبھی نکاح نہیں ہوسکتا، جیسے باپ، بیٹا، بھائی، بھتیجا اور بھانجا اوراسی طرح رضاعی باپ، بیٹا، بھائی، بھتیجا اور بھانجا ہیں، داماد بھی انہیں میں ہے، ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اس کا سفر کرنا جائز ہے، ان کے علاوہ کسی کے ساتھ سفرپرنہیں جا سکتی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1169
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1995
1995. حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے انھوں نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ بارہ جنگیں لڑی ہیں، انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے چار باتیں سنی ہیں، جنھوں نے مجھے بہت خوش کیا۔ آپ نے فرمایا؛ ” کوئی بھی عورت اپنے شوہر یا محرم کے بغیر دو دن کا سفر نہ کرے، نیز عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کے دن کا روزہ نہیں ہے۔ اسی طرح نماز فجر کے بعدکوئی (نفل) نماز نہیں تاآنکہ سورج طلوع ہوجائے اور نماز عصر کے بعد کوئی (نفل) نماز نہیں حتیٰ کہ غروب آفتاب ہوجائے اور تین مساجد کے علاوہ کسی مسجد کی طرف رخت سفرباندھنا جائز نہیں اور وہ یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری یہ مسجد، یعنی مسجد نبوی ﷺ۔ “[صحيح بخاري، حديث نمبر:1995]
حدیث حاشیہ: بیان کردہ تینوں چیزیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ عورت کا بغیر محرم کے سفر کرنا خطرہ سے خالی نہیں اور عیدین کے دن کھانے پینے کے دن ہیں، ان میں روزہ بالکل غیر مناسب ہے۔ اسی طرح نماز فجر کے بعد یا نماز عصر کے بعد کوئی نماز پڑھنا ناجائز ہے اور تین مساجد کے سوا کسی بھی جگہ کے لیے تقرب حاصل کرنے کی غرض سے سفر کرنا شریعت میں قطعاً ناجائز ہے۔ خاص طور پر آج کل قبروں، مزاروں کی زیارت کے لیے نذر و نیاز کے طور پر سفر کئے جاتے ہیں، جو ہو بہو بت پرست قوموں کی نقل ہے۔ شریعت محمدیہ میں اس قسم کے کاموں کی ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ حدیث لاتشد الرحال کی مفصل تشریح پیچھے لکھی جاچکی ہے۔ حضرت امام نووی ؒ اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں: فِيهِ بَيَانُ عَظِيمِ فَضِيلَةِ هَذِهِ الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَةِ وَمَزِيَّتِهَا عَلَى غَيْرِهَا لِكَوْنِهَا مَسَاجِدَ الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِمْ وَلِفَضْلِ الصَّلَاةِ فِيهَا وَلَوْ نَذَرَ الذَّهَابَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ لَزِمَهُ قَصْدُهُ لِحَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ وَلَوْ نَذَرَهُ إِلَى الْمَسْجِدَيْنِ الْآخَرَيْنِ فَقَوْلَانِ لِلشَّافِعِيِّ أَصَحُّهُمَا عِنْدَ أَصْحَابِهِ يُسْتَحَبُّ قَصْدُهُمَا وَلَا يَجِبُ وَالثَّانِي يَجِبُ وَبِهِ قَالَ كَثِيرُونَ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَأَمَّا بَاقِي الْمَسَاجِدِ سِوَى الثَّلَاثَةِ فَلَا يَجِبُ قَصْدُهَا بِالنَّذْرِ وَلَا يَنْعَقِدُ نَذْرٌ قَصْدُهَا هَذَا مَذْهَبُنَا وَمَذْهَبُ الْعُلَمَاءِ كَافَّةً إِلَّا مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ الْمَالِكِيَّ فَقَالَ إِذَا نَذَرَ قَصْدَ مَسْجِدِ قُبَاءٍ لَزِمَهُ قَصْدُهُ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتِيهِ كُلَّ سَبْتٍ رَاكِبًا وَمَاشِيًا وَقَالَ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ يَلْزَمُهُ قَصْدُ ذَلِكَ الْمَسْجِدِ أَيُّ مَسْجِدٍ كَانَ وَعَلَى مَذْهَبِ الْجَمَاهِيرِ لَا يَنْعَقِدُ نَذْرُهُ وَلَا يَلْزَمُهُ شَيْءٌ وَقَالَ أَحْمَدُ يَلْزَمُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ وَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي شَدِّ الرِّحَالِ وَإِعْمَالِ الْمَطِيِّ إِلَى غَيْرِ الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَةِ كَالذَّهَابِ إِلَى قُبُورِ الصَّالِحِينَ وَإِلَى الْمَوَاضِعِ الْفَاضِلَةِ وَنَحْوِ ذَلِكَ فَقَالَ الشَّيْخُ أَبُو مُحَمَّدٍ الْجُوَيْنِيُّ مِنْ أَصْحَابِنَا هُوَ حَرَامٌ وَهُوَ الَّذِي أَشَارَ الْقَاضِي عِيَاضٌ إِلَى اخْتِيَارِهِ۔ امام نووی ؒ صحیح مسلم شریف کی شرح لکھنے والے بزرگ ہیں۔ اپنے دور کے بہت ہی بڑے عالم فاضل، حدیث و قرآن کے ماہر اور متدین اہل اللہ شمار کئے گئے ہیں۔ آپ کی مذکورہ عبارت کا خلاصہ مطلب یہ کہ ان تینوں مساجد کی فضیلت اور بزرگی دیگر مساجد پر اس وجہ سے ہے کہ ان مساجد کی نسبت کئی بڑے بڑے انبیا ؑ سے ہے یا اس لیے کہ ان میں نماز پڑھنا بہت فضیلت رکھتا ہے اگر کوئی حج یا عمرہ کے لیے مسجد حرام میں جانے کی نذر مانے تو اس کا پورا کرنا اس کے لیے لازم ہوگا۔ اور اگر دوسری مساجد کی طرف جانے کی نذر مانے تو امام شافعی ؒ اور ان کے اصحاب اس نذر کا پورا کرنا مستحب جانتے ہیں نہ کہ واجب اور دوسرے علماء اس نذر کا پورا کرنا بھی واجب جانتے ہیں اور اکثر علماء کا یہی قول ہے۔ ان تین کے سوا باقی مساجد کا نذر وغیرہ کے طور پر قصد کرنا واجب نہیں بلکہ ایسے قصد کی نذر ہی منقعد نہیں ہوتی۔ یہ ہمارا اور بیشتر علماءکا مذہب ہے۔ مگر محمد بن مسلمہ مالکی کہتے ہیں کہ مسجد قباءمیں جانے کی نذر واجب ہو جاتی ہے کیوں کہ نبی کریم ﷺ ہر ہفتہ پیدل و سوار وہاں جایا کرتے تھے۔ اور لیث بن سعد نے ہر مسجد کے لیے ایسی نذر اور اس کا پورا کرنا ضروری کہا ہے، لیکن جمہو رکے نزدیک ایسی نذر منعقد ہی نہیں ہوتی اور نہ اس پر کوئی کفارہ لازم ہے۔ مگر امام احمد ؒ نے قسم جیسا کفار لازم قرار دیا ہے۔ اور مساجد ثلاثہ کے علاوہ قبور صالحین یا ایسے مقامات کی طرف پالان سفر باندھنا اس بارے میں علماءنے اختلاف کیا ہے۔ ہمارے اصحاب میں سے شیخ ابومحمد جوینی نے اسے حرام قرار دیا ہے اور قاضی عیاض کا بھی اشارہ اسی طرف ہے اور حدیث نبوی جو یہاں مذکور ہوئی ہے وہ بھی اپنے معنی میں ظاہر ہے کہ خود نبی کریم ﷺ نے ان تین مذکورہ مساجد کے علاوہ ہر جگہ کے لیے بغرض تقرب الی اللہ پالان سفر باندھنے سے منع فرمایا ہے۔ اس حدیث کے ہوتے ہوئے کسی کا قول قابل اعتبار نہیں۔ خواہ وہ قائل کسے باشد۔ مذہب محقق یہی ہے کہ شد رحال صرف ان ہی تین مساجد کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی جگہ کے لیے یہ جائز نہیں۔ شد رحال کی تشریح میں یہ داخل ہے کہ وہ قصد تقرب الٰہی کے خیال سے کیا جائے۔ قبور صالحین کے لیے شد رحال کرنا اور وہاں جا کر تقرب الٰہی کا عقیدہ رکھنا یہ بالکل ہی بے دلیل عمل ہے اور آج کل قبور اولیاءکی طرف شدر حال تو بالکل ہی بت پرستی کا چربہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1995
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1197
1197. حضرت قزعہ مولیٰ زیاد سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے چار احادیث سنیں جو وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے تھے وہ مجھے بہت پسند آئیں اور انہوں نے مجھے بہت خوش کیا۔ آپ نے فرمایا: ”کوئی عورت اپنے خاوند یا محرم کے بغیر دو دن کا سفر نہ کرے، عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ دو دنوں کا روزہ نہیں رکھنا چاہئے، دو نمازوں کے بعد کوئی نماز نہیں ہوتی: نماز فجر کے بعد تا آنکہ سورج طلوع ہو جائے اور نماز عصر کے بعد تاآنکہ سورج غروب ہو جائے، نیز تین مساجد کے علاوہ کسی دوسرے مقام کی طرف (تقرب و عبادت کی نیت سے) رخت سفر نہ باندھا جائے، مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری مسجد، یعنی مسجد نبوی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1197]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں چار احکام بیان ہوئے ہیں۔ ٭ عورت کو تنہا سفر کرنے کی ممانعت۔ اس کی تفصیل ہم کتاب الحج، حدیث: 1864 کے تحت بیان کریں گے۔ ٭ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت۔ اس کی تشریح کتاب الصوم، حدیث: 1995 میں ذکر ہو گی۔ ٭ نماز فجر اور نماز عصر کے بعد نوافل پڑھنے کی ممانعت۔ اس کے متعلق ہم اپنی گزارشات حدیث: 586 کے تحت بیان کر آئے ہیں۔ ٭ آخری حکم شدِ رحال سے متعلق ہے جس کی تفصیل حدیث: 1189 میں بیان ہو چکی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی فضیلت بیان کرنے کے لیے روایت کیا ہے۔ ہم قبل ازیں مسند بزار کے حوالے سے بیان کر آئے ہیں کہ مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی پانچ صد نماز کے برابر ہے۔ (فوائد حدیث: 1190)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1197
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1864
1864. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شریک ہوئے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے چار باتیں سنی ہیں۔۔۔ یا(راوی نےکہا کہ)وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے تھے۔۔۔ جو مجھے بہت اچھی اور بھلی معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ کوئی عورت دو دن کا سفر محرم یا خاوند کے بغیر نہ کرے، نیز عید الفطر اور عید الاضحیٰ کا روزہ نہ رکھا جائے، اس کے علاوہ نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک اور نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور آخری بات کہ تین مسجدوں، مسجد حرام، میری مسجد اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی دوسری مسجد کی طرف رخت سفر نہ باندھا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1864]
حدیث حاشیہ: (1) اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصد عورتوں کے حج کی مشروعیت بیان کرنا نہیں کیونکہ اس کے متعلق کوئی شک نہیں کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح حج کی مکلف ہیں، بلکہ امام بخاری یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ عورتوں کے حج کے لیے آداب و شرائط مردوں جیسے ہیں یا ان کے لیے کوئی زائد امر بھی مطلوب ہے، چنانچہ عورت پر وجوب حج کے لیے محرم کا ہونا شرط ہے جیسا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: میری بیوی حج کرنا چاہتی ہے لیکن میرا نام فلاں، فلاں غزوے کے لیے لکھ دیا گیا ہے تو آپ نے فرمایا: ”جاؤ، اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔ “(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3272(1341)(2) اس سلسلے میں امام بخاری نے پانچ احادیث پیش کی ہیں جن کی ترتیب وار مختصر تشریح حسب ذیل ہے: ٭ پہلی حدیث حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں امہات المؤمنین کے حج کرنے سے متعلق ہے۔ دراصل حضرت عمر ؓ امہات المومنین ؓ کے بارے میں متردد تھے کہ انہیں حج پر جانے کی اجازت دی جائے یا نہ دی جائے کیونکہ ان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ)(الأحزاب33: 33) ”تم اپنے گھروں میں ٹکی رہو۔ "“ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات سے فرمایا: ”حج یہی ہے۔ اس کے بعد تم نے گھروں میں بیٹھ رہنا ہے۔ “(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1722) چنانچہ آپ نے اپنے دور خلافت کے آخر میں امہات المومنین کو حج کی اجازت دی اور خود بھی ساتھ روانہ ہوئے۔ ان کی خدمت کے لیے حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کو مامور فرمایا۔ اونٹوں کے قافلے کے آگے حضرت عثمان اور پیچھے حضرت عبدالرحمٰن ؓ تھے۔ حضرت عثمان ؓ وقفے وقفے سے یہ اعلان کرتے تھے: خبردار! یہ امہات المومنین کا قافلہ ہے۔ کوئی آدمی ان کے نزدیک نہ آئے اور نہ ان کی طرف دیکھنے کی جراءت ہی کرے۔ حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں بھی انہوں نے حج کا فریضہ سرانجام دیا۔ ٭ دوسری حدیث میں بھی عورتوں کو حج کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ان کے حق میں اسے افضل الجہاد قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عورتیں جہاد میں شریک ہوتی تھیں جیسا کہ حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ جہاد میں جاتیں اور زخمی مجاہدین کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ ٭ تیسری حدیث میں وہ شرط بیان کی گئی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے کہ محرم کے بغیر عورت کے لیے سفر کرنا جائز نہیں بلکہ بعض روایات میں صراحت ہے کہ عورت محرم کے بغیر حج نہ کرے جیسا کہ دارقطنی نے اسے بیان کیا ہے (سنن الدارقطني، الحج: 222/2) اور ابو عوانہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ امام احمد ؒ نے اس حدیث کے عموم کے پیش نظر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ محرم کے بغیر عورت پر حج فرض نہیں۔ چونکہ ازواج مطہرات کے تمام اہل ایمان روحانی بیٹے ہیں، اس لیے ان کا حج اپنے روحانی محارم کے ساتھ ہی تھا۔ یہ واقعہ ان حضرات کی دلیل نہیں بن سکتا جو محرم کے بغیر عورتوں کے حج کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ٭ چوتھی حدیث کا مدلول یہ ہے کہ جب کوئی عورت فریضۂ حج ادا کرنے کا ارادہ کرے تو اس کا شوہر اس کے ساتھ حج کرے۔ یہ جہاد سے بہتر ہے۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت ہے جب جہاد فرض نہ ہو۔ ٭ پانچویں حدیث کے مطابق عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ دو دن کا سفر بھی محرم کے بغیر طے کرے۔ اس سے زیادہ مدت سفر بطریق اولیٰ جائز نہیں، یعنی عورت کوئی بھی سفر محرم یا شوہر کے بغیر نہیں کر سکتی، خواہ سفر حج ہو یا اس کے علاوہ۔ الغرض عورت کے لیے حج کرنے سے متعلق ایک زائد شرط ہے کہ اس کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے۔ جو عورتیں کسی اجنبی کو محرم بنا کر حج پر جاتی ہیں، وہ دو چند گناہ کا ارتکاب کرتی ہیں: ایک تو حدیث کی مخالفت، دوسرے جھوٹ کی لعنت، اس لیے ایسا کرنا ثواب کے بجائے گناہ کمانا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1864
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1995
1995. حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے انھوں نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ بارہ جنگیں لڑی ہیں، انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے چار باتیں سنی ہیں، جنھوں نے مجھے بہت خوش کیا۔ آپ نے فرمایا؛ ” کوئی بھی عورت اپنے شوہر یا محرم کے بغیر دو دن کا سفر نہ کرے، نیز عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کے دن کا روزہ نہیں ہے۔ اسی طرح نماز فجر کے بعدکوئی (نفل) نماز نہیں تاآنکہ سورج طلوع ہوجائے اور نماز عصر کے بعد کوئی (نفل) نماز نہیں حتیٰ کہ غروب آفتاب ہوجائے اور تین مساجد کے علاوہ کسی مسجد کی طرف رخت سفرباندھنا جائز نہیں اور وہ یہ ہیں: مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری یہ مسجد، یعنی مسجد نبوی ﷺ۔ “[صحيح بخاري، حديث نمبر:1995]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں بیان کردہ چار باتیں انتہائی کارآمد اور بنیادی قسم کی ہیں: ٭ عورت کا محرم کے بغیر سفر کرنا انتہائی خطرناک ہے۔ عورت کی عزت و ناموس کی حرمت کا تقاضا ہے کہ وہ محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ ٭ عیدین کے دن کھانے پینے کے دن ہیں۔ ان میں روزہ رکھنا بالکل غیر مناسب اور اللہ تعالیٰ کی دعوت کو ٹھکرا دینے کے مترادف ہے۔ ٭ نماز فجر اور نماز عصر کے بعد نفل پڑھنا ناجائز ہیں، البتہ سببی نوافل یا فرض نماز کی قضا ان اوقات میں دی جا سکتی ہے۔ ٭ تین مساجد کے علاوہ دیگر مقامات کی طرف تقرب کی نیت سے رخت سفر باندھنا بھی شرعاً جائز نہیں، اسی طرح قبور صالحین کی طرف رخت سفر باندھنا اور وہاں تقرب الٰہی کے لیے عبادت کرنا بالکل بے بنیاد اور بلا دلیل ہے۔ (2) امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ عید الاضحیٰ کا روزہ درست نہیں۔ اگر کوئی اس دن روزے کی نذر مانتا ہے تو اسے پورا کرنا جائز نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1995