وعن علي رضي الله عنه انه قال: لو كان الدين بالراي لكان اسفل الخف اولى بالمسح من اعلاه، وقد رايت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يمسح على ظاهر خفيه. اخرجه ابو داود بإسناد حسن.وعن علي رضي الله عنه أنه قال: لو كان الدين بالرأي لكان أسفل الخف أولى بالمسح من أعلاه، وقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يمسح على ظاهر خفيه. أخرجه أبو داود بإسناد حسن.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ”اگر دین کا دارومدار رائے اور عقل پر ہوتا تو موزوں کی نچلی سطح پر مسح اوپر کی بہ نسبت زیادہ قرین قیاس تھا۔ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موزے کے بالائی حصہ پر مسح کرتے دیکھا ہے۔“ ابوداؤد نے اس کو حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
हज़रत अली रज़िअल्लाहुअन्ह रिवायत करते हैं कि “अगर दीन का दारोमदार राय और अक़ल पर होता तो मोज़ों के निचले स्तर पर मसह उपर की तुलना में ज़्यादा ठीक लगता था । मैं ने ख़ुद रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को मोज़े के ऊपरी भाग पर मसह करते देखा है ।” अबू दाऊद ने इस को हसन सनद के साथ रिवायत किया है ।
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب كيف المسح، حديث:162، ابو إسحاق عنعن.»
Narrated ‘Ali (rad): If the religion were based on opinion, it would be more important to wipe over the under parts of the leather socks than the upper, but I have seen Allah’s Messenger (rad) wiping over the upper parts of his leather socks. [Reported by Abu Da’ud with good Isnad (chain of narrators)].
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 55
� فوائد و مسائل: ➊ یہ روایت ہمارے محقق کے نزدیک سنداً ضعیف ہے، تاہم جو بات اس میں بیان ہوئی ہے وہ درست ہے۔ علاوہ ازیں دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [صحيح سنن ابي داود للألباني، حديث: 162] ➋ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ احکام دین کی بنیاد وحی الٰہی پر ہے، عقل و رائے پر نہیں۔ اگر عقل پر اس کا انحصار اور دارومدار ہوتا تو موزوں کی بالائی سطح پر مسح کی بجائے نچلی سطح پر مسح کرنا زیادہ موزوں ہوتا کیونکہ گندگی سے نچلا حصہ آلودہ ہوتا ہے، لہٰذا نص کی موجودگی میں عقل اور رائے پر عمل کرنا درست نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 55
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 162
´موزوں کے اوپری حصے پر مسح` «. . . عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْيِ، لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلَاهُ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَلَى ظَاهِرِ خُفَّيْهِ . . .» ”. . . علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ”اگر دین (کا معاملہ) رائے اور قیاس پر ہوتا، تو موزے کے نچلے حصے پر مسح کرنا اوپری حصے پر مسح کرنے سے بہتر ہوتا، حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دونوں موزوں کے اوپری حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 162]
فوائد و مسائل: یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ تاہم جو بات اس میں بیان ہوئی ہے وہ صحیح ہے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے، اسی طرح اگلی دونوں روایتں [163، 164] بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 162