وعن انس بن مالك رضي الله عنه قال: اول ما كرهت الحجامة للصائم ان جعفر بن ابي طالب احتجم وهو صائم فمر به النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: «افطر هذان» ثم رخص النبي صلى الله عليه وآله وسلم بعد في الحجامة للصائم. وكان انس يحتجم وهو صائم. رواه الدارقطني وقواه.وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: أول ما كرهت الحجامة للصائم أن جعفر بن أبي طالب احتجم وهو صائم فمر به النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: «أفطر هذان» ثم رخص النبي صلى الله عليه وآله وسلم بعد في الحجامة للصائم. وكان أنس يحتجم وهو صائم. رواه الدارقطني وقواه.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے روزہ دار کے لئے سینگی لگوانا اس لئے مکروہ ہوئی کہ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے روزہ کی حاجت میں سینگی لگوائی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ان دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔“ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کے لئے سینگی لگوانے کی رخصت دے دی اور انس رضی اللہ عنہ روزہ کی حالت میں سینگی لگواتے تھے۔ اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے اور اس کو قوی کہا ہے۔
हज़रत अनस रज़िअल्लाहुअन्ह कहते हैं कि सब से पहले रोज़ेदार के लिए सिंगी लगवाना इस लिए मकरूह हुआ कि जाफ़र बिन अबु तालिब रज़िअल्लाहुअन्ह ने रोज़े की हाजत में सिंगी लगवाई, नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम उन के पास से गुज़रे तो आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “इन दोनों का रोज़ा टूट गया ।” उस के बाद नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने रोज़ेदार के लिए सिंगी लगवाने की छूट देदी और अनस रज़िअल्लाहुअन्ह रोज़े की हालत में सिंगी लगवाते थे । इसे दरक़ुतनी ने रिवायत किया है और इस को मज़बूत कहा है ।
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني:2 /182، وقال: "رجاله كلهم ثقات ولا أعلم له علة".»
Anas (RAA) narrated, ‘The first time cupping was dis-liked for the one who is fasting was when Ja’far bin Abi Talib had himself cupped while fasting and the Messenger of Allah (ﷺ) came across him and said, "Those two have broken their fast (meaning Ja'far and the man who was cupping him.)" But later on the Prophet allowed cupping for the one who is fasting. Anas used to have himself cupped while he was fasting. Related by Ad-Daraqutni, who regarded it as a strong hadith.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 542
لغوی تشریح 542: بَعدُ ”دال“ پر ضمہ ہے۔ یہ مبنی علی الضم ہے، مضاف ألیہ نیت میں ہے اور لفظوں سے اسے حذف کر دیاگیا ہے۔ یہ اصل میں بَعدَ ذٰلِکَ تھا۔ سینگی یا پچھنے لگانا ایک طریق علاج ہے جس میں ایک خاص طریقے سے جسم سے خون نکالا جاتا ہے۔ مریض کے جسم پر تیز دھار آلے سے زخم لگا کر ایک دوسری چیز کے ذریعے سے خون چوسا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص روزہ رکھ کر کسی کو سینگی لگاے، یا کوئی روزہ دار سینگی لگواے تو کیا انکا روزہ ٹوٹ جائے گا یا قائم رہے گا؟ اس بارے میں علماے کرام میں دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ جو لوگ روزہ ٹوٹنے کے قائل ہیں، ان کی دلیل یہی حدیث ہے جو حضرت ثوبان، حضرت شدّاد، حضرت رافع بن خدیج اور حضرت ابوہریرہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے مروی ہے۔ امام ابنِ قیّم رحمہ اللہ کا بھی یہی مؤقف ہے۔ اس کے برعکس حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عائشہ اور خود ابوہریرہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھ کر سینگی لگوائی۔ اور ان کے نزدیک سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا: کیا آپ لوگ (عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں) روزے دار کے لیے سینگی لگوانا پسند کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ”نہیں صرف کمزوری کیوجہ سے مکروہ سمجھاجاتا تھا۔“[صحيح البخاري، الصوم، باب الحجامة والقئي للصائم، حديث: 1940 ] حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنھما بھی روزے کی حالت میں سینگی لگوالیا کرتے تھے۔ (المؤطا للأِمام مالک، الصیام، باب ماجاء فی حجامۃ الصائم، حدیث: 276، 275) امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ”روزے دار کو سینگی لگوانا صرف اس لیے مکروہ ہے کہ کمزوری کا اندیشہ ہوتا ہے۔“[المؤطا للأمام مالك، حواله مذكوره بالا] شیخ عبدالقادر ارناؤوط جامع الاصول کے حاشیے میں لکھتے ہیں: ”سینگی سے روزہ ٹوٹنے کا حکم منسوخ ہے۔“[جامع الاصول: 295/6، حديث: 4417، 4416] امام ابنِ حزم اور شیخ البانی رحمہ اللہ کا بھی یہی مؤقف ہے کہ سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹنے کا حکم منسوخ ہے۔ [ فتح الباري: 155/4، ومختصر صحيح البخاري للألباني: 455/1] امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر بحث کر کے آخر میں فرمایا: ”حدیثوں میں تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ سینگی لگوانا اس شخص کے لیے مکروہ ہے جسے کمزوری لاحق ہوتی ہو۔ اور اگر کمزوری اس حد تک پہنچتی ہو کہ اس کی وجہ سے روزہ افطار کرنا پڑے تو اس صورت میں سینگی لگوانا زیادہ مکروہ ہے۔ اور جس شخص کو کمزوری نہیں ہوتی اس کے حق میں (سینگی لگوانا) مکروہ نہیں، لہٰذا «أَفطَر الحَاجِمُ وَالمَحجُومُ» سینگی لگانے اور لگوانے والے نے روزہ کھول دیا“۔ ”کو مجازی معنی میں لینا پڑے گا کیونکہ مذکورہ بالا دلائل اسے حقیقی معنی پر محمول کرنے سے مانع ہیں۔“[نيل الأوطار، أبواب مايبطل الصوم، وما يكره، وما يستحب، باب ما جاء فى الحجامة: 228/4] ان دلائل سے اور ان کے علاوہ دلائل سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ اس قسم کے مسائل میں احتیاط کرنا مناسب ہے، جیسے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس کی بابت فرماتے ہیں: ”حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزے کی حالت میں سینگی لگوا لیا کرتے تھے، پھر انہوں نے یہ عمل ترک کر دیا، چنانچہ وہ رات کو سینگی لگوتے تھے۔ اور حضرت ابوموسٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رات کو سینگی لگوائی۔“[صحيح البخاري، الصوم، باب الحجامة والقئي للصائم، قبل الحديث: 1938]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 542