وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم النائحة والمستمعة. اخرجه ابو داود.وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم النائحة والمستمعة. أخرجه أبو داود.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے اور سننے والی پر لعنت فرمائی ہے۔ (ابوداؤد)
हज़रत अबु सईद ख़ुदरी रज़िअल्लाहुअन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने रोना पीटना करने वाली और सुनने वाली पर लाअनत भेजी है । (अबू दाऊद)
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجنائز، باب في النوح، حديث: 3128.* قال أبو حاتم الرازي: " حديث منكر، محمد بن الحسن وأبوه وجده ضعفاء في الحديث".»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 474
لغوی تشریح: «اَلنَّائِحَةَ» «نياحة» سے ماخوذ ہے۔ مرنے والے کے اوصاف و شمائل اور محاسن کو گن گن کر بلند آواز سے بیان کرنا، رونا اور چیخ و پکار کرنا۔
فائدہ: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے، تاہم نوحے کی ممانعت دیگر صحیح احادیث میں موجود ہے جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت جریر رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حمص شہر میں خطبہ دیا تو اس خطبے کے دوران میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابن ماجه، الجنائز، حديث: 1580۔ والمعجم الكبير للطبراني: 373/19، حديث: 876] بلکہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم عورتوں سے نوحہ نہ کرنے کا باقاعدہ عہد لیتے تھے جیسا کہ آئندہ روایت میں مروی ہے۔ علاوہ ازیں احادیث میں تو اس کی بابت سخت وعید بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نوحہ جاہلیت کا رواج ہے، نوحہ کرنے والی اگر توبہ کیے بغیر مر گئی تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے تارکول کے کپڑے اور آگ کے شعلے کی قمیص تیار کرے گا۔“[سنن ابن ماجه، الجنائز، باب ماجاء فى النهي عن النياحة، حديث: 1581] نیز حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میت پر نوحہ کرنا جاہلیت کا رواج ہے، نوحہ کرنے والی اگر توبہ کیے بغیر مر گئی تو اسے قیامت کے دن اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ اس کے جسم پر تارکول کی قمیصیں ہوں گی، پھر ان پر آگ کے شعلوں کی قمیص پہنائی جائے گی۔“[سنن ابن ماجه، الجنائز، حديث: 1582] اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت جو آگے آ رہی ہے، اس میں مذکور ہے کہ مرنے والے کو اس پر نوحہ کیے جانے کی وجہ سے قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔ یہ حکم اور وعیدیں صرف عورت کے لیے خاص نہیں بلکہ مرد بھی اس جرم کا ارتکاب کرے گا تو قیامت کو اسے بھی یہی سزا ملے گی۔ احادیث میں عورتوں کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ عرب میں عورتیں ہی نوحہ کرتی تھیں۔ ارشاد نبوی ہے۔ ”جو شخص رخساروں پر تھپڑ مارے، گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی طرح پکارے وہ ہم میں سے نہیں۔“[صحيح البخاري، الجنائز، حديث: 1297] اس میں مرد بھی شامل ہیں۔ ان احادیث اور اس قسم کی دیگر احادیث سے اس کی ممانعت واضح ہے، بلکہ مسند احمد کی حسن درجے کی روایت میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جنازے کے ساتھ جانے سے منع فرما دیا ہے جس کے ساتھ نوحہ کرنے والی عورتیں ہوں۔ بہرحال ان تمام احادیث سے نوحے کی ممانعت اور اس پر وعید ثاب ہوتی ہے۔ جب نوحہ کرنا اتنا بڑا گناہ ہے تو نوحہ سننا تو بالاولیٰ گناہ ہو گا۔ «والله اعلم»
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 474
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3128
´نوحے کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ (دلچسپی سے) سننے والی پر لعنت فرمائی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3128]
فوائد ومسائل: 1۔ یہ روایت ضعیف ہے۔ مگر دوسری صحیح احادیث کی روشنی میں مسئلہ اس طرح ہے کہ نوحہ سننا بھی جائز نہیں۔
2۔ نوحہ سے مراد میت پرآواز اور پکار کے ساتھ رونا۔ یعنی چیخم دھاڑ مچانا بین کرنا۔ بال نوچنا۔ سر میں خاک ڈالنا۔ اور کپڑے پھاڑنا وغیر ہ ہے۔ ہاں اس کے بغیر غم کے تاثر اور رحم دلی کی بنا ء پر آنسووں کا نکل آنا کوئی معیوب چیز نہیں ہے۔
3۔ نوحہ کرناحرام اور کبیرہ گنا ہ ہے۔ اسے سننا اور ایسی مجالس میں جانا بھی ناجائز ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ (وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ)(المائدہ۔ 2/5) گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون مت کرو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3128