وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: فكان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا صلى على جنازة يقول:«اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وكبيرنا وذكرنا وانثانا اللهم من احييته منا فاحيه على الإسلام ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان اللهم لا تحرمنا اجره ولا تضلنا بعده» . رواه مسلم والاربعة.وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: فكان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا صلى على جنازة يقول:«اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وكبيرنا وذكرنا وأنثانا اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان اللهم لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده» . رواه مسلم والأربعة.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کی نماز جنازہ پڑھتے تو یہ دعا مانگتے «اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وكبيرنا وذكرنا وأنثانا اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان اللهم لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده»”اے اللہ! ہمارے زندوں اور مردوں، ہمارے حاضر و غائب، ہمارے چھوٹوں اور بڑوں، ہمارے مردوں اور عورتوں کی مغفرت فرما دے! الٰہی! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور جسے تو موت دے اسے ایمان کی موت سے سرفراز فرما! الٰہی! ہمیں اس کے اجر و ثواب سے محروم نہ رکھ اور نہ ہمیں اس کے بعد گمراہ ہونے دے۔ اسے مسلم اور چاروں یعنی ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
हज़रत अबु हुरैरा रज़िअल्लाहुअन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम जब किसी की नमाज़ जनाज़ा पढ़ते तो ये दुआ मांगते « اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وكبيرنا وذكرنا وأنثانا اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان اللهم لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده » “ऐ अल्लाह ! हमारे जो ज़िंदा हैं और जो मर गए हैं , जो मौजूद हैं और जो मौजूद नहीं हैं, हमारे छोटों और बड़ों, हमारे मर्दों और औरतों को क्षमा करदे ! मेरे अल्लाह ! हम में से जिसे तू ज़िंदा रखे उसे इस्लाम पर ज़िंदा रख और जिसे तू मौत दे उसे ईमान की मौत दे ! मेरे अल्लाह ! हमें इस के बदले और सवाब से दूर न कर और न हमें इस के बाद गुमराह होने दे । इसे मुस्लिम और चारों यानी अबू दाऊद, त्रिमीज़ी, निसाई और इब्न माजा ने रिवायत किया है ।
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجنائز، باب الدعاء للميت، حديث:3201، والترمذي، الجنائز، حديث:1024، والنسائي، الجنائز، حديث:1986، وابن ماجه، الجنائز، حديث:1498. * قوله: "رواه مسلم" وهم من المؤلف أو من بعده، والله أعلم.»
Abu Hurairah (RAA) narrated, ‘When the Messenger of Allah (ﷺ) prayed a funeral prayer, he would say, "O Allah! Forgive those of us who are alive, and those who are dead, those present and those absent, those who are young and those who are male and those who are female. O Allah! Let those of us to whom You have given life, live in Islam, and let those of us You take back die in a state of faith. O Allah! Do not deprive us of our reward for (supplicating for) him, and cause us not to go astray after him." Related by Muslim and the four Imams.
اللهم اغفر لحينا وميتنا وصغيرنا وكبيرنا وذكرنا وأنثانا وشاهدنا وغائبنا اللهم من أحييته منا فأحيه على الإيمان ومن توفيته منا فتوفه على الإسلام اللهم لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده
اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وكبيرنا وذكرنا وأنثانا اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان اللهم لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 458
لغوی تشریح: «شَاهِدِنَا» جو حاضر ہیں۔ «صَغِيرِناَ» کم عمر اور چھوٹی عمر والوں کے حق میں بلندی درجات کی دعا ہے، یا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں تکلیف و مصیبت کے وقت افعال صالحہ پر ثابت قدم رکھے۔ «فَاْحَيِهِ» «إحْيَاء» سے ماخوذ امر کا صیغہ ہے جو دعا کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ «لَا تَحُرِمَنَا»”تا“ پر فتحہ اور ”را“ کے نیچے کسرہ۔ حرمان سے مشتق ہے، نہ محروم رکھنا ہمیں۔ «جُرَهُ» اس کی موت کی وجہ سے ہمیں جو صدمہ پہنچا ہے اس پر صبر کے اجر سے۔ «لَاتَقُتِناّ» دوسری ”تا“ کے نیچے کسرہ اور ”نون“ جمع پر تشدید ہے۔ باب «ضَرَبَ» «يَضْرِبُ» ہے اور فعل کے ”نون“ کو ”نون“ متکلم میں مدغم کر دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اس کی موت کے بعد فتنہ و آزمائش میں مبتلا نہ کرنا بلکہ اس کی موت کو ہمارے لیے مقام عبرت بنا دے۔ حدیث کے آخر میں ہے «رَوَاهُ مُسْلِمٌ»”اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔“ جبکہ یہ حدیث مسلم میں نہیں ہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ کسی کاتب سے غلطی ہو گئی ہے، مصنف سے نہیں۔ «والله اعلم»
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 458
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3201
´میت کے لیے دعا کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو یوں دعا کی: «اللهم اغفر لحينا وميتنا وصغيرنا وكبيرنا وذكرنا وأنثانا وشاهدنا وغائبنا اللهم من أحييته منا فأحيه على الإيمان ومن توفيته منا فتوفه على الإسلام اللهم لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده»”اے اللہ! تو بخش دے، ہمارے زندوں اور ہمارے مردوں کو، ہمارے چھوٹوں اور ہمارے بڑوں کو، ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں کو، ہمارے حاضر اور ہمارے غائب کو، اے اللہ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے ایمان پر زندہ رکھ، اور ہم میں سے جس کو موت دے اسے اسلام پر موت دے، اے اللہ! ہم کو تو اس کے ث۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3201]
فوائد ومسائل: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ دعا سن کر یادکرلینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جنازہ نبی کریمﷺ نے بلند آواز سے پڑھا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3201
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1498
´نماز جنازہ کی دعا۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی نماز جنازہ پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وصغيرنا وكبيرنا وذكرنا وأنثانا اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان اللهم لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده»”اے اللہ! ہمارے زندوں کو، ہمارے مردوں کو، ہمارے حاضر لوگوں کو، ہمارے غائب لوگوں کو، ہمارے چھوٹوں کو، ہمارے بڑوں کو، ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو بخش دے، اے اللہ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے اس کو اسلام پر زندہ رکھ، اور جس کو وفات دے، تو ایمان پر وفات دے، اے اللہ! ہمیں ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1498]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نماز جنازہ کا اصل مقصود تو میت کے لئے دعا کرنا ہے۔ لیکن اس موقع پر ضمناً دوسرے مسلمانوں کے لئے دعا بھی کی جا سکتی ہے۔ حدیث میں مذکور دعا ایک ایسی ہی دعا ہے۔ جو تمام مسلمانوں کے لئے ہے۔
(2) اسلام اور ایمان ہم معنی الفاظ کے طور بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اورایک دوسرے سے مختلف معنی میں بھی۔ جب یہ دونوں الفاظ اکھٹے استعمال ہوں تو اسلام سے مراد ظاہری اعمال اور ایمان سے مراد باطنی اور قلبی اعمال ہوتے ہیں۔ زندگی میں دل کے ایمان اور یقین کے ساتھ ظاہری اعمال کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ معاشرے میں ظاہری اعمال کی بنیاد ہی پرمسلم اور غیرمسلم میں امتیاز ہوتا ہے وفات کے وقت دل میں یقین اور ایمان ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ آخرت میں نجات کا دارومدار اسی پر ہے۔ اس لئے دعائے جنازہ میں اسلام پر زندگی اور ایمان پر وفات کی درخواست ہے۔
(3) ”ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ رکھنا“ اس سے مراد رشتہ دار عزیز یا دوست کی وفات پر صبر اوردوسرے متعلقہ اعمال سے حاصل ہونے والا ثواب ہے مثلاً نماز جنازہ میں شرکت کفن دفن کا اہتمام اورفوت ہونے والے کے اقارب کو تسلی تشفی اور انکے غم میں تخفیف کی کوشش میت کے اقارب کے لئے کھانا تیار کرنا وغیرہ۔ ان اعمال سے ہونے والے ثواب کو میت کا ثواب کہا گیا ہے۔ یعنی وفات کی وجہ سے زندوں کو حاصل ہونے والا ثواب اس ثواب کی دعا کا یہ مطلب ہے۔ کہ ہمیں یہ اعمال خلوص کے ساتھ محض اللہ کی رضا کے لئے کرنے کی توفیق ملے۔
(4) ”اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ کرنا“ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی وفات کے غم میں نفس امّارہ کے اکسانے سے یا شیطان کے وسوسوں کی وجہ سے ناجائز اعمال کا ارتکاب نہ ہوجائے جو گمراہی ہے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ مرنے والا اپنی زندگی میں نیکی کی تلقین کرتا تھا۔ بُرائی سے منع کرتا تھا۔ صحیح اور غلط کے امتیاز میں رہنمائی کرتا تھا۔ اس کے دنیا چھوڑ جانے کے بعد اس کی ر ہنمائی باقی نہیں رہی۔ اب ہمیں اللہ کی طرف توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ کہ وہ ہرقدم پر ہماری رہنمائی فرمائے۔ اور ہمیں گمراہی سے محفوظ رکھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1498