وعن عائشة رضي الله عنها قالت: والله لقد صلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم على ابني بيضاء في المسجد. رواه مسلم.وعن عائشة رضي الله عنها قالت: والله لقد صلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم على ابني بيضاء في المسجد. رواه مسلم.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ مسجد میں ادا فرمائی۔ (مسلم)
हज़रत आयशा रज़ियल्लाहु अन्हा से रिवायत है कि अल्लाह की क़सम ! रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने बेज़ाअ के दोनों बेटों की नमाज़ जनाज़ा मस्जिद में पढ़ी थी । (मुस्लिम)
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الجنائز، باب الصلاة علي الجنازة في المسجد، حديث:973.»
A’ishah (RAA) narrated, ‘By Allah the Messenger of Allah (ﷺ) offered funeral prayer in the mosque for the sons of Baida (Sahl and Suhail).’ Related by Muslim
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 452
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے جو مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ممنوع قرار دیتے ہیں کیونکہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ علاوہ ازیں طبقات ابن سعد میں ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جنازہ عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد ہی میں پڑھایا تھا۔ [الطبقات الكبريٰ لابن سعد: 206/3] نیز مسند سعید بن منصور میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد دوم کا جنازہ بھی حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے مسجد ہی میں پڑھایا تھا۔ [المصنف للعبدالرزاق: 526/3، والسنن الكبري للبيهقي: 52/4] اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے سعد بھی ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد ہی میں پڑھا تھا۔ (المصنف لعبدالرزاق: 527، 526/3) اگر ایسا کرنا ناجائز و مکروہ ہوتا تو خلفائے راشدین اس پر عمل نہ کرتے۔ ➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل سے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے بغیر کسی کراہت کے مسجد میں جنازہ پڑھا جا سکتا، البتہ مسجد سے باہر پڑھنا افضل اور بہتر ہے۔ واللہ اعلم
وضاحت: «بيضاء» سہل اور سہیل رضی اللہ عنہ کی والدہ کا لقب ہے۔ ان کا نام دعا بنت جحدم فھریہ ہے۔ اور ان کے خاوند کا نام وہب بن ربیعہ قریشی فہری ہے۔ سہل اور سہیل کی اولاد تھے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ تو ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے قریش کے اس صحیفے کو پاش پاش کیا تھا جس میں قریش نے بنو ہاشم اور مسلمانوں سے مقاطعہ کی قراردار پاس کی تھی۔ ایک قول کے مطابق انہوں نے اپنے اسلام کے قبول کا اظہار مکہ ہی میں کر دیا تھا۔ اور ایک قول کے مطابق انہوں نے اپنے اسلام لانے کو چھپائے رکھا۔ اسی حالت میں بدر میں زبردستی حاضر کیے گئے۔ مسلمانوں نے انہیں بھی قیدی بنا لیا مگر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے شہادت دی کہ میں نے انہیں مکہ میں نماز پڑھتے دیکھا ہے تو ان کہ شہادت پر آزادی دے دی گئی۔ انہوں نے مدینے میں وفات پائی۔ رہے حضرت سہیل رضی اللہ عنہ تو وہ قدیم الاسلام تھے۔ حبشہ کی ہجرت اور ہجرت مدینہ دونوں میں شریک رہے۔ بدر اور باقی تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ غزوہ تبوک 9 ہجری کے بعد مدینہ میں وفات پائی۔ بیضاء کے تین بیٹے مشہور تھے۔ ان دو کے علاوہ تیسرے حضرت صفوان رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے غزوہ بدر میں جام شہادت نوش کیا۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کافی عرصہ بعد وفات پائی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 452
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1969
´مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ مسجد ہی میں پڑھی تھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1969]
1969۔ اردو حاشیہ: ➊ ”سہیل ابن بیضاء“ بیضاء ان کی والدہ کا نام تھا۔ یہ تین بھائی تھے۔ سہل، سہل اور صفوان۔ سہیل رضی اللہ عنہ 9 ھ میں فوت ہوئے۔ ➋ ”مسجد میں پڑھا“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تو مسجد سے باہر پڑھنے کا تھا مگر مسجد میں پڑھنا بھی ثابت ہے۔ بعد میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے جنازے بھی مسجد نبوی ہی میں پڑھے گئے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا جنازہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکماً مسجد میں پڑھوایا، لہٰذا ضرورت پڑے تو مسجد میں جنازہ پڑھا جا سکتا ہے۔ چونکہ دفن باہر کیا جاتا ہے، لہٰذا عموماً جنازہ باہر ہی پڑھا جاتا ہے۔ یہ وجہ نہیں کہ مسجد میں کراہت ہے، بلکہ ضرورت نہیں۔ ضرورت ہو تو مسجد میں بلا کراہت درست ہے۔ احناف سرے سے مسجد می جنازہ درست ہی نہیں سمجھتے کہ ابوداود کی ایک روایت ہے: ”جس نے مسجد میں جنازہ پڑھا فلا شیی لہ ”اس ثواب نہیں ملے گا۔“ بعض نسخوں میں «فلا شیی علیہ»(سنن أبی داود، الحنائز، حدیث: 319) غرض اس میں کوئی حرج نہیں“ کے الفاظ بھی ہیں۔ لیکن پہلے الفاظ ہی درست ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ خاص اجر نہیں ملے گا جیسا کہ علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ نے تطبیق دی ہے صرف نماز جنازہ کا اجر ملے گا، مطلق اجر کی نفی اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ صحیح حدیث سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمز جنازہ مسجد میں پڑھنا ثابت ہے، اس لیے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ناجائز نہیں کہا: جا سکتا، البتہ مسجد سے باہر پڑھنا افضل قرار پائے گا۔ (فوائد سنن ابی داود، حدیث: 3191) ایسی محتمل روایت کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے صریح اور متفقہ فعل کی نفی کی جا رہی ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ حتی الامکان ہر حدیث پر عمل ہو جائے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (اللہ الصحیحۃ: 365/5)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1969
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3190
´مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3190]
فوائد ومسائل: مسجد میں نماز جنازہ پڑھ لینے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ اور اس میں ان لوگوں کا رد ہے۔ جو میت کو ناپاک خیال کرتے ہیں۔ یا جو لا یعنی اوہام کا شکارہوتے ہیں۔ کہ کہیں اس سے کوئی آلائش نہ نکل آئے۔ تاہم عید گاہ میں پڑھنا افضل ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3190
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1518
´نماز جنازہ مسجد میں پڑھنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ مسجد ہی میں پڑھی۔ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث زیادہ قوی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1518]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ کا جواز زیادہ صحیح ہے۔ کیونکہ منع والی حدیث (1517) کی نسبت جواز والی حدیث (1518) زیادہ صحیح ہے۔
(2) رسول اللہ ﷺنے اگرچہ بعض افراد کا جنازہ مسجد میں ادا کیا ہے۔ تا ہم عام طور پر نماز جنازہ باہر میدان میں ادا کیاجاتاتھا۔ جہاں عید وغیرہ بھی پڑھتے تھے۔ یہ جگہ مصلیٰ کہلاتی تھی۔ دیکھئے: (صحیح البخاري، الجنائز، باب الصلاۃ علی الجنائز بالمصلی والمسجد، حدیث: 1328)
(3) اس حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے۔ جو مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1518
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1033
´مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء ۱؎ کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1033]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: بیضاء کے تین بیٹے تھے جن کے نام: سہل سہیل اورصفوان تھے اوران کی ماں کا نام رعدتھا، بیضاء ان کا وصفی نام ہے، اوران کے باپ کا نام وہب بن ربیعہ قرشی فہری تھا۔
2؎: اس سے مسجد میں صلاۃِ جنازہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوتاہے، اگرچہ نبی اکرمﷺ کا معمول مسجد سے باہرپڑھنے کا تھا، یہی جمہورکا مذہب ہے جولوگ عدام جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل ابوہریرہ کی روایت (من صلى على جنازة في المسجد فلا شيء له) ہے جس کی تخریج ابوداؤد نے کی ہے، جمہوراس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے قابل استدلال نہیں، دوسرا جواب یہ ہے کہ مشہوراورمحقق نسخے میں (فلا شيء له) کی جگہ (فلا شيء عليه) ہے اس کے علاوہ اس کے اوربھی متعدد جوابات دیئے گئے ہیں دیکھئے: (تحفة الاحوذي: ج 2 ص 146)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1033
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2254
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمان سے روایت ہے کہ جب حضر ت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: ان کو مسجد میں لاؤ تاکہ میں بھی نماز جنازہ پڑھوں۔ ان پر اعتراض کیا گیا ا س پر انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دو بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی رضوان اللہ عنھم اجمعین کا جنازہ مسجد میں ہی پڑھا تھا۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، سہیل بن دعد ہی بیضاء کے بیٹے ہیں۔ بیضاء ماں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2254]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سےثابت ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔ جمہور کا مؤقف یہی ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی گئی تھی، لیکن آپ عام طور پر جنازہ عیدگاہ میں ہی پڑھتے تھے یا مسجد کے قریب جگہ تھی، جس کی طرف باب الجنائز کھلتا تھا۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا جائز ہی نہیں ہے۔