وعن حذيفة رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان ينهى عن النعي. رواه احمد والترمذي وحسنه.وعن حذيفة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان ينهى عن النعي. رواه أحمد والترمذي وحسنه.
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موت کے لئے کھلے عام منادی سے منع فرمایا کرتے تھے۔ اسے احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
हज़रत हुज़ैफ़ा रज़िअल्लाहुअन्ह से रिवायत है कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम मौत का खुले आम ऐलान करने से मना करते थे । इसे अहमद और त्रिमीज़ी ने रिवायत किया है और त्रिमीज़ी ने इसे हसन ठहराया है ।
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، الجنائز، باب ما جاء في كراهية النعي، حديث:986، وابن ماجه، الجنائز، حديث:1476، وأحمد:5 /385، 406. *قال يحيي بن معين في بلال بن يحيي: "روايته عن حذيفة مرسلة"، وبه ضعف الحديث.»
Hudhaifah (RAA) narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) used to prohibit the announcement of anyone’s death. Related by Ahmad and At-Tirmidhi, who rendered it Hasan.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 448
لغوی تشریح: «اَلنَّعْيِ» موت کی اطلاع دینا۔ صرف اس قدر خبر دینا کہ لوگ اس کے کفن دفن اور نماز جنازہ میں شرکت کر سکیں، ممنوع نہیں ہے۔ البتہ دور جاہلیت کے طریقے سے منادی کرنا ممنوع ہے۔ اس کی نوعیت یہ تھی کہ اس منادی میں نوحہ ہوتا اور مرنے والے کے افعال کی فخریہ انداز میں بازاروں اور گلی کوچوں میں گھوم پھر کر بیان کیا جاتا تھا۔
فائدہ: ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے، تاہم دیگر احادیث کی روشنی میں مطلقاً موت کی اطلاع دینا ممنوع نہیں ہے جیسا کہ حبشہ میں حضرت نجاشی رحمہ الله کی وفات ہوئی تو مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خبر دی اور غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی۔ علاوہ ازیں جنگ موتہ میں حضرت زید، حضرت جعفر طیار اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سے خبر ہوئی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت مدینہ منورہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان حضرات کی شہادت کی خبر دی۔ دیکھیے: [صحيح البخاري الجنائز، حديث: 1245] لہٰذا مذکورہ روایت میں ممانعت سے مراد اعلان کا وہ جاہلی انداز ہے کہ جب کوئی آدمی مر جاتا تو چند افراد کو مقرر کیا جاتا کہ بازاروں اور گلی کوچوں میں گھوم پھر کر اس کی وفات کا رو رو کر اعلان کریں اور اس کے افعال اور محاسن کو فخریہ انداز میں بیان کریں۔ واللہ اعلم
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 448
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1476
´موت کی خبر دینے کی ممانعت۔` بلال بن یحییٰ کہتے ہیں کہ جب حذیفہ رضی اللہ عنہ کا کوئی رشتہ دار انتقال کر جاتا تو کہتے: کسی کو اس کے انتقال کی خبر مت دو، میں ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ «نعی»۱؎ نہ ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ان کانوں سے «نعی» سے منع فرماتے سنا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1476]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ جب کوئی آدمی مرجاتا تو چند افراد کو مقرر کیا جاتا تاکہ بازاروں اور گلی کوچوں میں گھوم پھر کر اس کی وفات کا رو رو کر اعلان کریں۔ مرنے والا جتنی اہم شخصیت کا حامل ہوتا۔ اتنا ہی زیادہ اہتمام کیا جاتا۔ اسے نعی کہتے تھے۔
(2) سادہ طریقے سے ایک دوسرے کو اطلاع دینا جائز ہے۔ تاکہ لوگ اس کے کفن دفن کا اہتمام اور نماز جنازہ میں شرکت کرسکیں۔ جب حبشہ میں حضرت نجاشی کی وفات ہوئی۔ تو مدینہ میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کوخبردی۔ اور نماز جنازہ غائبانہ ادا فرمائی۔ علاوہ ازیں جنگ موتہ میں حضرت زید، حضرت جعفرطیار اور حضرات عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے لشکر کی قیادت کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے شہید ہوگئے۔ تو رسول اللہ ﷺ کو وحی کے ذریعے خبر ہوئی آپﷺنے اس وقت مدینہ منورہ میں صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کو ان حضرات کی شہادت کی خبر دی۔ دیکھئے: (صحیح البخاري، الجنائز، باب الرجل ینعی إلی أھل المیت بنفسه، حدیث: 1246، 1245) اس جنگ میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کے لشکر کی قیادت کی اور کامیابی سے واپس لوٹے۔ اس موقع پر رسول اللہﷺ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ کی تلوار کے نام یاد سے فرمایا تھا چنانچہ ان کا لقب سیف اللہ مشہور ہوگیا۔
(3) یہ روایت بعض کے نزدیک حسن ہے۔ اور اس میں بھی ممانعت سے مراد اعلان کا وہ جاہلی انداز ہے جس کی وضاحت سطور بالا میں کی گئی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1476