وعنه:«إذا استيقظ احدكم من نومه فلا يغمس يده في الإناء حتى يغسلها ثلاثا، فإنه لا يدري اين باتت يده» . متفق عليه، وهذا لفظ مسلم.وعنه:«إذا استيقظ أحدكم من نومه فلا يغمس يده في الإناء حتى يغسلها ثلاثا، فإنه لا يدري أين باتت يده» . متفق عليه، وهذا لفظ مسلم.
یہ روایت بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے ہے جس میں مذکور ہے کہ”تم میں سے جب کوئی نیند سے بیدار ہو تو تین مرتبہ دھونے سے پہلے اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں نہ ڈالے۔ کیونکہ اسے یہ معلوم نہیں کہ رات بھر ہاتھ کہاں کہاں گردش کرتا رہا (اور کس کس چیز کو چھوتا اور مس کرتا رہا)۔“ بخاری و مسلم، مذکورہ بالا حدیث میں مزکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
ये रिवायत भी हज़रत अबु हुरैरा रज़ि अल्लाहु अन्ह ही से है जिस में कहा गया है कि “तुम में से जब कोई नींद से जागे तो तीन मर्तबा धोने से पहले अपना हाथ पानी के बर्तन में न डाले। क्यूंकि उसे ये मालूम नहीं कि रात भर हाथ कहाँ कहाँ घूमता रहा (और किस किस चीज़ को छूता रहा)।” (बुख़ारी और मुस्लिम) ऊपर की हदीस में कहे गए शब्द मुस्लिम के हैं।
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الطهارة، باب كراهة غمس المتوضيء وغيره يده المشكوك...، حديث:278، والبخاري، الوضوء، باب الاستجمار وترًا، حديث:162.»
Narrated Abu Huraira (rad): Allah’s Messenger (ﷺ) said: “When one of you wakes up from his sleep, he must not put his hand in a utensil till he washed it three times, for he does not know where his hand was (while he slept)”. [Agreed upon. This is Muslim’s version].
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 35
� لغوی تشریح: «فَلَا يَغْمِسُ»”میم“ کے کسرہ کے ساتھ ہے اور اس کے معنی ہیں: داخل نہ کرے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور اکثر علماء کے نزدیک یہ حکم استحباب پر مبنی ہے مگر امام احمد رحمہ اللہ اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ جمہور کی رائے ہی اقرب الی الصواب ہے۔ البتہ جب اسے یقین حاصل ہو جائے کہ اس کا ہاتھ نجاست و گندگی سے آلودہ ہوا ہے تو ہاتھ دھونا ضروری ہے۔ نیز یہ مقدمات وضو میں سے بھی ہے۔
فائدہ: حدیث میں مذکور لفظ «فِي الْإِنَاءِ» اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص شب و روز میں جس وقت نیند سے اٹھے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ کسی برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے تین مرتبہ دھو لے۔ یہ حکم ہر قسم کے برتن کے لیے ہے البتہ نہر اور بڑا حوض و تالاب اس حکم سے مستثنیٰ ہیں، ان میں ہاتھ داخل کرنا جائز ہے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں یہی رائے بیان کی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 35
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 161
´پتھر سے استنجاء` «. . . أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ تَوَضَّأَ فَلْيَسْتَنْثِرْ، وَمَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْيُوتِرْ . . .» ”. . . انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص وضو کرے اسے چاہیے کہ ناک صاف کرے اور جو پتھر سے استنجاء کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد (یعنی ایک یا تین یا پانچ ہی) سے کرے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الاِسْتِنْثَارِ فِي الْوُضُوءِ:: 161]
� تشریح: مٹی کے ڈھیلے بھی پتھر ہی میں شمار ہیں بلکہ ان سے صفائی زیادہ ہوتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 161
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 161
161. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:”جو شخص وضو کرے، وہ ناک صاف کرے اور جو ڈھیلے سے استنجا کرے، وہ طاق ڈھیلے لے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:161]
حدیث حاشیہ: مٹی کے ڈھیلے بھی پتھر ہی میں شمار ہیں بلکہ ان سے صفائی زیادہ ہوتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 161
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 35
´نیند سے بیداری پر ہاتھ دھونا` «. . . 319- مالك عن أبى الزناد عن الأعرج عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا استيقظ أحدكم من نومه، فليغسل يده قبل أن يدخلها فى وضوئه، فإن أحدكم لا يدري أين باتت يده“ . . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی نیند سے بیدار ہو تو وضو کے پانی میں اپنا ہاتھ داخل کرنے سے پہلے اسے دھوئے کیونکہ اسے پتا نہیں کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے؟ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 35]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 162، من حديث مالك به] تفقه: ➊ تھوڑا پانی (جو دو قُلّوں سے کم ہو) نجاست گرنے سے ناپاک ہو جاتا ہے۔ ➋ وضو سے پہلے علیحدہ پانی لے کر دونوں ہاتھ دھونا بہتر ہے۔ ➌ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بیٹھ کر سو جاتے تو دوبارہ وضو نہیں کرتے تھے اور اسی وضو سے نماز پڑھتے تھے۔ دیکھئے: [الموطأ 22/1 ح 39] وسندہ صحیح لیکن بہتر یہی ہے کہ بیٹھ کر سوئے یا لیٹ کر، دونوں حالتوں میں دوبارہ وضو کرنا چاہئے۔ ● سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ مرفوع حدیث: «وَلَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ» سے ثابت ہوتا ہے کہ مطلقاً نوم (نیند) سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اس حدیث کے لئے دیکھئے: [سنن الترمذي 3536 وقال: ”هذا حديث حسن صحيح“ وسنده حسن]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 319
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 42
´ڈھیلوں سے استنجا کرے تو طاق (تین عدد) استعال کرے` «. . . عن ابى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من توضا فليستنثر، ومن استجمر فليوتري . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص وضو کرے تو ناک چھنک کر صاف کرے اور جو ڈھیلے سے استنجا کرے تو طاق عدد یعنی تین پانچ ڈھیلے استعمال کرے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 42]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 237، من حديث ما لك به ورواه البخاري 161، من حديث ابن شهاب الزهري به]
تفقه: ➊ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرے تو اپنی ناک میں پانی ڈالے پھر ناک چھنک کر صاف کرے اور جو شخص ڈھیلوں سے استنجا کرے تو طاق (تین عدد) استعال کرے۔“ دیکھئے: [الموطا حديث: 320، و سنده صحيح ورواه البخاري: 162] ➋ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ وضو میں چہرہ دھونا، دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھونا، سر کا مسح کرنا اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھونا فرض ہے صرف پاؤں کے دھونے کے بارے میں شیعہ نے اختلاف کیا ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 31/4] ➌ وضو کے وقت ناک میں پانی ڈالنے کو استنشاق اور ناک سے اس پانی کے باہر نکالنے کو استنثار کہتے ہیں۔ [التمهيد 33/4] ➍ بعض علماء کہتے ہیں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا سنت ہے اور بعض کہتے ہیں کہ فرض ہے۔ ● یہ کہنا کہ یہ عمل وضو میں سنت ہے اور غسل میں فرض ہے، بالکل بلا دلیل ہے۔ ➎ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہےکہ آپ نے کبھی کلی یا ناک میں پانی ڈالے بغیر وضو کیا ہو۔ ➏ بہتر یہی ہے کہ ایک چلو ہی سے کلی کی جائے اور ناک میں پانی ڈالا جائے جیسا کہ صحيح بخاري [191]، صحيح مسلم [235] دارالسلام: [555] سے ثابت ہے اور اگر کوئی شخص علیحدہ چلو سے کلی کرے اور علیحدہ چلو سے ناک میں پانی ڈالے تو یہ بھی صحیح ہے جیسا کہ محدث ابن ابی خثیمہ کی التاريخ الكبير [ص 588 ح 1410] والی حسن لذاته مرفوع روایت سے ثابت ہے۔ ➐ کلی دائیں ہاتھ سے کرنی چاہئے۔ دیکھئے: [سنن ابي داؤد: 112، وسنده صحيح] ➑ ناک بائیں ہاتھ سے صاف کرنی چاہئے۔ [سنن النسائي 67/1 ح 91 وسنده صحيح]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 75
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 161
´پتھروں کے ساتھ استنجاء` «. . . أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: مَنْ تَوَضَّأَ فَلْيَسْتَنْثِرْ، وَمَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْيُوتِرْ . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ` آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص وضو کرے اسے چاہیے کہ ناک صاف کرے اور جو پتھر سے استنجاء کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد (یعنی ایک یا تین یا پانچ ہی) سے کرے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الاِسْتِنْثَارِ فِي الْوُضُوءِ: 161]
تخريج الحديث: [137۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 25 باب الاستنثار فى الوضوء 161، مسلم 237، أبوداود 140] لغوی توضیح: «اسْتَجْمَرَ» پتھروں کے ساتھ استنجاء کرے۔ «فَلْيُوْتِرْ» طاق عدد (یعنی تین یا پانچ وغیرہ) میں کرے۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 137
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 88
´ناک جھاڑنے کا حکم۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو وضو کرے تو اسے چاہیئے کہ ناک جھاڑے، اور جو استنجاء میں پتھر استعمال کرے تو اسے چاہیئے کہ طاق استعمال کرے۔“[سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 88]
88۔ اردو حاشیہ: ➊ ناک کی صفائی تبھی ممکن ہے جب پانی ناک میں چڑھانے کے بعد سانس اور ہاتھ کی مدد سے ناک کو جھاڑا جائے تاکہ پانی کے ساتھ ساتھ ناک کی غلاظت بھی باہر آ جائے۔ سونے کے دوران میں تو لازماً ناک کے اوپر والے حصے می غلاظت جمع ہو جاتی ہے، اس لیے ناک جھاڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ➋ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام اسحاق رحمہ اللہ نے استنثار کو واجب قرار دیا ہے۔ ظاہر الفاظ ان کی تائید کرتے ہیں، نیز ترجمۃ الباب سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 88
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 560
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی ڈھیلے استعمال کرے، تو طاق ڈھیلے استعمال کرے، اور جب تم میں سے کوئی وضو کرے، تو ناک میں پانی ڈالے پھر ناک صاف کرے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:560]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) اسْتَجْمَرَ: جِمَارٌ (چھوٹے پتھر) سے بول و پیشاب کی جگہ صاف کرنا، استنجا کرنا۔ (2) لِيَنْتَثِرْ: الَاسْتِنْثَارِ ناک میں پانی ڈالنے کے بعد، ناک صاف کرنا، اس سے بینی وغیرہ نکالنا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 560
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:161
161. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:”جو شخص وضو کرے، وہ ناک صاف کرے اور جو ڈھیلے سے استنجا کرے، وہ طاق ڈھیلے لے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:161]
حدیث حاشیہ: 1۔ روایات سے ثابت ہے کہ شیطان خیشوم (نتھنوں) میں بیٹھ کر فاسد اثرات دماغ پر ڈالتا ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3295) اس سے معلوم ہوا کہ ناک شیطان کی نشست گاہ ہے۔ وہ اسے اپنی آماجگاہ اس لیے بناتا ہے کہ ایک طرف تو غباراڑاڑ کر اس میں پہنچتا ہے دوسری طرف دماغ کی فاسد رطوبات بھی اسی جگہ جمع ہوتی ہیں گویا ناک میں اندر اور باہر دونوں طرف سے گندگی جمع ہوتی رہتی ہے اور شیطان کو گندگی سے خاص مناسبت ہے، اس لیے اسے صاف کرنے کا حکم ہے نیز اگر فاسد رطوبات ناک میں جمع رہیں تو سانس لینے اور قراءت کرنے میں بھی تکلف ہوتا ہے خاص طور پرغنے کی ادائیگی تو خیشوم سے ہوتی ہے، اس لیے اسے صاف کرنا ضروری ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ اسے واجب خیال کرتے ہیں بظاہر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کے ہم نوا ہیں نیز یہاں امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور صیغہ امر میں وجوب ہوتا ہے الایہ کہ اس کے خلاف کوئی قرینہ آجائے۔ اگرچہ جمہور کے نزدیک یہ سنت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی کو وضو کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا تھا۔ ”وضو کر جیسا کہ تجھے اللہ نے حکم دیا ہے۔ “ اور آیت کریمہ میں ناک میں پانی ڈالنے اور اسے صاف کرنے کا حکم نہیں ہے لیکن یہ استدلال اس لیے محل نظر ہے کہ ایک لحاظ سے منہ اور ناک چہرے ہی کا حصہ ہیں جس کے دھونے کا اللہ نے حکم دیا ہے نیز حدیث میں اللہ کے حکم سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے جو اللہ کے حکم پر مبنی ہوتی ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ترک ثابت نہیں اگرچہ اس روایت میں تین دفعہ ناک صاف کرنے کا حکم نہیں ہے تاہم دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو وضو کرتے وقت ناک کو تین دفعہ صاف کرے کیونکہ شیطان اس کے خیشوم میں شب باشی کرتا ہے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3295) ناک صاف کرتے وقت بعض روایات میں طاق عدد کا لحاظ رکھنے کا حکم ہے۔ (مسند حمیدي، حدیث: 957) لیکن یہ حکم وجوب کے لیے نہیں ہے کیونکہ بعض روایات میں جفت عدد پراکتفا بھی ثابت ہے۔ (سنن أبي داؤد، الطھارة، حدیث: 141) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ناک صاف کرنے کو کلی کرنے سے پہلے بیان فرمایا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ منہ کی نسبت ناک میں زیادہ تستر (پوشیدگی) ہے۔ گویا منہ ظاہر ہے اور ناک اس کا باطن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر کی صفائی بھی ضروری ہے لیکن باطن کی تطہیر زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ امام صاحب کے نزدیک وضو کرتے وقت اعضاء کے دھونے میں ترتیب ضروری نہیں اس لیے اسے مقدم کیا ہے لیکن یہ بات قرین قیاس معلوم نہیں ہوتی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 161
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:162
162. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اپنی ناک میں پانی ڈالے اور اسے صاف کرے۔ اور جو شخص ڈھیلے سے استنجا کرے تو طاق ڈھیلوں سے کرے۔ اور جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے تو وضو کے پانی میں اپنے ہاتھ ڈالنے سے پہلے انہیں دھو لے کیونکہ تم میں سے کسی کو خبر نہیں کہ رات کے وقت اس کا ہاتھ کہاں کہاں پھرتا رہا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:162]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصود یہ ہے کہ جب استنجا کے لیے ڈھیلوں کا استعمال کیا جائے تو طاق عدد اختیار کرنا چاہیے نیز وہ بتانا چاہتےہیں کہ استجمار کے معنی استنجا میں ڈھیلوں کا استعمال ہی ہے۔ اس کا مطلب رمی جمار یا کفن کو دھونی دینا نہیں جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے۔ (فتح الباري: 344/1) ۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے استنجا کے مسائل سے فراغت کے بعد وضو کے احکام شروع فرمائے تھے۔ اب انھوں نے دوبارہ استنجاء کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جب کسی حدیث میں کوئی نئی چیز دیکھتے ہیں تو اس پر ایک عنوان قائم کردیتے ہیں اسے باب درباب کہا جاتا ہے چونکہ باب سابق جو وضو سے متعلق ہے اس کے تحت جو حدیث ذکر کی تھی اس میں یہ الفاظ تھے۔ ”جو ڈھیلے سے استنجا کرے وہ طاق ڈھیلے لے۔ “بس انہی الفاظ کی مناسبت سے یہ عنوان قائم کردیا اگرچہ وضو سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے نیز اس طرف بھی اشارہ ہے کہ استنجا اور استنشار میں گندگی کی صفائی قدر مشترک ہے اس لحاظ سے طاق تعداد بھی مشترک ہونی چاہیے۔ 3۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ عرب میں قضائے حاجت کے بعد مٹی کے ڈھیلے استعمال کرنے کا رواج تھا پھر رات سخت گرمی میں پسینہ آنے کے بعد محل نجاست پر بحالت نیند ہاتھ لگنے کا اندیشہ رہتا یا اس کے علاوہ جسم کے کسی ایسے مقام پر لگنے کا بھی احتمال ہے جو انسان کے لیے ناگواری کا باعث ہو۔ اس لیے نیند سے بیدار ہونے کے بعد ہاتھ برتن میں ڈالنے سے پہلے دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ ہاتھوں کو دھونے کا حکم کیوں ہے؟ جبکہ سوئے ہوئے آدمی کے زیر استعمال کپڑے کے ملوث ہونے کے زیادہ خدشات ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کپڑوں کو پانی میں ڈالنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور پھر اگر کپڑا آلودہ ہو جائے تو اس کا نقصان صرف کپڑا پہننے والے تک محدود ہوتا ہے جبکہ ہاتھ پلید ہونے کی صورت میں پانی کے خراب ہونے کا خدشہ ہے جس سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوں گے۔ اس لیے ہاتھوں کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔ (فتح الباري: 347/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 162
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 33
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”جو شخص وضو کرے تو ناک چھینکے اور جو ڈھیلے لے تو طاق لے۔ [موطا امام مالك: 33]
فائدہ:
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «نَهَانَا أَن نَّسْتَنْجِى بِأَقَلَّ مِنْ ثَلاثَةِ أَحْجَارٍ» ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین ڈھیلوں سے کم کے ساتھ استنجا کرنے سے منع فرمایا ہے۔“[صحيح مسلم: 262]
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: «كَانَ يَأْمُرُ بِثَلاثَةِ أَحْجَارٍ» ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین ڈھیلوں کے ساتھ استنجا کرنے کا حکم فرماتے تھے۔“ [ابوداؤد: 8، نسائي: 40، ابن ماجه: 313، اس كي سند حسن هے]
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ استنجا کرتے وقت طاق تعداد میں ڈھیلے استعمال کرنا زیادہ محبوب و مستحسن ہے، کم از کم تعداد تین ہو، اس سے اوپر جتنے ڈھیلے بھی استعمال کر لیے جائیں، درست ہیں لیکن تعداد طاق ہو۔ (حدیث صاف اور واضح ہے کہ: «مَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْيُوتر»[بخاري: 161، مسلم: 237]
جو استنجاء کے لئے ڈھیلے استعمال کرے وہ طاق کرے۔ امر اصل میں وجوب کے لیے ہوتا ہے الا یہ کہ کوئی قرینہ صارفہ ہو لیکن ایسی کوئی صحیح یا حسن قابل حجت روایت نہیں ہے اس لیے ڈھیلے کم از کم تین ہوں گے جیسے فائدہ کے تحت پہلی حدیث مذکورہ ہے اور طاق ہوں گے)۔
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 33