3295. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہوتو وضو کرے اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرے کیونکہ شیطان اس کی ناک کے بانسے میں رات گزارتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3295]
حدیث حاشیہ: 1۔
شیطان کا رات گزارنا حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ دل اور دماغ تک جانے کا یہی ایک راستہ ہے۔
بیداری کے وقت اگر ہدایت نبوی کے مطابق عمل کیاجائے تو اس کی شب باشی کے اثرات زائل ہوسکتے ہیں، نیز ہرسونے والے کی ناک پر رات بسر نہیں کرتا، البتہ جو شخص اللہ کاذکر کیے بغیر سوجائے تو اس کی ناک پر شیطان رات گزارتا ہے۔
2۔
ان جملہ احادیث سے امام بخاری ؒنے شیطان کا وجود ثابت کیا ہے اور جن جن صورتوں سے وہ بنی آدم کو گمراہ کرتا ہے ان میں سے اکثر کا بیان ان احادیث میں ہوا ہے۔
شیطان کے وجود کا انکار کرنے والے دراصل خود شیطان ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ہمیں محفوظ رکھے۔
آمین۔
ابلیس کے متعلق چند حقائق:
امام بخاری ؒنے ابلیس، اس کے کارندوں، اس کی کارستانیوں اور اس کے علاج سے متعلق اٹھائیس احادیث ذکر کی ہیں۔
اب اس کے متعلق کچھ ناقابل تردید حقائق پیش کیے جاتے ہیں تاکہ ہم اس سے چوکس رہیں:
۔
اللہ تعالیٰ نے اسے کھلا دشمن قراردیاہے اور اسے دشمن خیال کرنے کی تلقین کی ہے کیونکہ جب ہم اسے دشمن نہیں سمجھیں گے تو اس سے بچاؤ کی کوئی تدبیر بھی نہیں کرسکیں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚإِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾ ”(لوگو!) شیطان یقیناً تمہارا دشمن ہے، لہذا اسے دشمن ہی سمجھو۔
وہ تو اپنے پیروکاروں کو صرف اس لیے بلاتا ہے کہ وہ دوزخی بن جائیں۔
“ (فاطر: 35/6) ۔
۔
یہ دھوکے بازسامنے آکر دلائل سے قائل نہیں کرتابلکہ سبز باغ دکھاکر وسوسہ ڈالتا ہے۔
موت تک یہ پیچھا نہیں چھوڑتا، کسی نہ کسی انداز سے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی یہ رحمت ہے کہ اس نے ہمیں اس کے طریقہ واردات سے آگاہ کردیا ہے۔
جب کسی پیش آمدہ خطرے کا علم ہوتو اسکا سدباب آسان ہوتاہے۔
یہ شیطان کسی کا ہاتھ پکڑ کر راہ ہدایت سے دور نہیں کرتا بلکہ راہ ہدایت پر بیٹھ کر وسوسہ اندازی کرتا ہے۔
بس اسے یہی اختیار دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کی چال کے متعلق ہمیں ان الفاظ میں آگاہ کیا ہے:
﴿مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (4)
الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ﴾ ”اس وسوسہ ڈالنے والے کی شر سے
(پناہ چاہتا ہوں) جو وسوسہ ڈال کر پیچھے ہٹ جانا ہے جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا رہتا ہے۔
“ (الناس 114/4۔
5) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس کے تعارف کے لیے دولفظ استعمال کیے ہیں:
(الْوَسْوَاسِ) غیر محسوس طریقے سے دل میں بار بار بری بات ڈالنے والا۔
(الْخَنَّاسِ) ظاہر ہوکر پھر چھپ جانے والا اوردل میں بری بات ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والا۔
۔
وہ اپنے مقاصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ہے کیونکہ اس عالم رنگ وبو میں اللہ کے شکر گزار بندے بہت کم ہیں جبکہ اس سے دور رہنے والوں سے زمین بھری پڑی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ثُمَّ لَآَتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ﴾ ”ابلیس نے کہا:
چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے،لہذا میں ان
(لوگوں کو گمراہ کرنے) کے لیے تیرے سیدھے راستے پر ضرور بیٹھوں گا۔
پھر میں ان کے سامنے سے، پیچھے سے،دائیں سے اور بائیں سے انھیں گمراہ کروں گا اورآپ ان میں سے اکثر کو شکرگزار نہ پائیں گے۔
“ (الأعراف 16/7، 17) چنانچہ اس نے اپنا دعویٰ سچا کر دکھایا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ”ان لوگوں کے متعلق ابلیس نے اپنا گمان سچا کر دکھایا،چنانچہ اہل ایمان کے ایک گروہ کے سواسب نے اس کا کہا مان لیا۔
“ (سبا: 20/34)
۔
قیامت کے دن کھلے طور پر اعلان براءت کردے گا اور صحت جرم سے صاف انکار کردے گا۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖإِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ”جب اور کام کا فیصلہ کردیا جائے گا تو شیطان کہے گا کہ اللہ نے تو تمہیں سچا وعده دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کیے تھے ان کے خلاف کیا، میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں، ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی، پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے، میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے، یقیناً ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
“ (إبراهیم: 22/14)