وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ما امرت بتشييد المساجد» . اخرجه ابو داود وصححه ابن حبان.وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ما أمرت بتشييد المساجد» . أخرجه أبو داود وصححه ابن حبان.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے مساجد کی آرائش و زیبائش (بناؤ سنوار) کا حکم نہیں دیا گیا۔“ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔
हज़रत इब्न अब्बास रज़ि अल्लाहु अन्हुमा रिवायत करते हैं कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया “मुझे मस्जिदों की सजावट और फूल बूटों का हुक्म नहीं दिया गया ।” इसे अबू दाऊद ने रिवायत किया है । इब्न हब्बान ने इस को सहीह ठहराया है ।
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب في بناء المساجد، حديث:448، وابن حبان (الإحسان): 3 /70، سفيان الثوري مدلس وعنعن.»
Narrated Ibn 'Abbas (RA):
Allah's Messenger (ﷺ) said: "I was not commanded to build beautified mosques". [Reported by Abu Dawud and Ibn Hibban graded it Sahih (authentic)]
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 207
207 لغوی تشریح: «مَا أُمِرْتُ» اس میں «ما» نافیہ اور «أُمِرْتُ» صیغہ مجہول ہے۔ «بِتَشْيِيدِ اَلْمَسَاجِدِ» چونا گچ کرنا، آرائش کرنا اور نقش نگاری کرنا۔
فوائد و مسائل: ➊ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے، تاہم اس میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ صحیح ہے کیونکہ یہ مسئلہ دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے غالباً انہیں شواہد کی بنا پر شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ➋ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد کو نقش و نگار اور بیل بوٹوں سے مزین کرنا منع ہے۔ اور یہ کام غیر مستحسن اور غیر ممدوح ہے ➌ مسجدوں کو ذکر الہٰی اور خالص عبادت سے آباد کرنے کا حکم ہے۔ تزئین و آرائش سے توجہ الی اللہ میں فرق آ جاتا ہے۔ ➍ مسجد کی عمارت سے مقصود تو عبادت گاہ کی علامت ہے۔ گرمی سردی اور بارش وغیرہ سے تحفظ اور بچاؤ ہے۔ مساجد کی آرائش اور نقش و نگاری بادشاہوں کا طریقہ ہے۔ ولید بن عبدالملک پہلا شخص ہے جس نے مسجد نبوی میں نقش و نگاہ کرائے ورنہ عہد رسالت مآب اور خلافت راشدہ میں کہیں دور دور تک بھی اس کے نشانات نہیں ملتے۔ علمائے حق کو مجبوراً خاموشی اور سکوت اختیار کرنا پڑا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 207
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 448
´مساجد کی تعمیر کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے مسجدوں کے بلند کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔“ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: تم مسجدیں اسی طرح سجاؤ گے جس طرح یہود و نصاریٰ سجاتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 448]
448۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ روایت سنداًً ً ضعیف ہے، تاہم اس میں جو بات کہی گئی ہے، وہ صحیح ہے کیونکہ وہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ غالباً انہی شواہد کی بنا پر شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ ➋ اللہ کی حکمت کہ ہمیں ایسے حالات کا سامنا ہے کہ اس بدعت کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور بعض مساجد کو اس حد تک بلند و بالا اور مزین کیا جاتا ہے کہ ایک عام آدمی ان میں آ کر ان کے فن تعمیر اور دیگر آرائشوں ہی میں کھو جاتا ہے، گویا کسی شاہی محل میں آیا ہوا اور کچھ لوگ تو ان کی زیارت ہی بطور سیاح کے کرتے ہیں۔ «لاحولَ ولا قوةَ إِلَّا بالله» تاہم واقعی شرعی ضرورت کے تحت مسجد کو مضبوط بنانا، وسیع کرنا اور موسم کی مناسبت سے نمازیوں کے لیے ضروری سہولتوں کا مہیا کرنا یقیناً مباح ہے اور جگہ کی تنگی کے باعث اسے اونچا کرنا شرعاً مطلو ب ہے۔ سورہ نور میں ارشاد الٰہی ہے: «فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ»[نور: 36] ”ان گھروں میں جنہیں بلند کیے جانے اور وہاں اللہ تعالیٰ کا نام لیے جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے ان میں صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔“ مگر ایسی تمام تعمیری زینتوں سے بچنا ضروری ہے جو نماز کو اللہ کے ذکر اور عبادت سے پھیر دینے والی ہوں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 448