وعن ابي الدرداء رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ما من شيء في الميزان اثقل من حسن الخلق» اخرجه ابو داود والترمذي وصححه.وعن أبي الدرداء رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ما من شيء في الميزان أثقل من حسن الخلق» أخرجه أبو داود والترمذي وصححه.
سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اچھے خلق سے زیادہ کوئی اور چیز ترازو میں وزنی نہیں ہے۔ “ اسے ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
हज़रत अबु अद-दरदा रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! ’’ अच्छे अख़लाक़ से ज़्यादा कोई और चीज़ तराज़ू में भारी नहीं है। ‘‘ इसे अबू दाऊद और त्रिमीज़ी ने रिवायत किया है और त्रिमीज़ी ने इसे सहीह ठहराया है।
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الأدب، باب في حسن الخلق، حديث:4799، والترمذي، البر والصلة، حديث:2002.»
Abu ad-Darda’ (RAA) narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“The heaviest thing which will be put on the believer’s scale (on the Day of Resurrection) will be good morals.” Related by Abu Dawud and At-Tirmidhi who graded it as Sahih.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1318
تخریج: «أخرجه أبوداود، الأدب، باب في حسن الخلق، حديث:4799، والترمذي، البر والصلة، حديث:2002.»
تشریح: 1. مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز ترازو بھی ہوں گے جن میں اعمال تولے جائیں گے اور ترازو میں سب سے وزنی چیز انسان کے عمدہ اخلاق ہوں گے۔ 2. اس فضیلت سے اچھے اور بہترین اخلاق کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1318
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1318
تخریج: «صحيح» [بلوغ المرام 1318]، [ ابوداؤد 4799]، [ احمد 446/6، 448] ترمذی نے یہ الفاظ زیادہ کیے ہیں: «وان صاحب حسن الخلق ليبلغ به درجة صاحب الصوم والصلاة» ”اور اچھے خلق والا شخص اس کے ذریعے روزے اور نماز والے شخص کے درجے کو پہنچ جاتا ہے۔“[ترمذي/ البروالصلة ماجاء فى حسن الخلق] مکمل تخریج و تصحیح کے لیے سلسلہ صحیحہ [876] حسن خلق کے متعلق اس سے پہلے کئی احادیث میں تفصیل گزر چکی ہے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 244
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1298
بدزبانی کرنے والے بےہودہ بکنے والے سے اللہ بغض رکھتا ہے «وعن ابي الدرداء رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إن الله يبغض الفاحش البذيء . اخرجه الترمذي وصححه.» ”ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ بدزبان (گالیاں بکنے والے) بیہودا گندی باتیں کرنے والے سے بغض رکھتا ہے۔“ اسے ترمذی نے روایت کیا اور صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1298]
تخریج: اس کی سند میں کچھ ضعف ہے، حدیث صحیح لغیرہ ہے۔ ترمذی [2002] میں مکمل روایت اس طرح ہے: «عن ابن ابي مليكة، عن يعلى بن مملك، عن ام الدرداء، عن ابي الدرداء، ان النبى صلى الله عليه وسلم قال: " ما شيء اثقل فى ميزان المؤمن يوم القيامة من خلق حسن، وإن الله ليبغض الفاحش البذيء» ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی میزان میں کوئی چیز اچھے خلق سے زیادہ وزنی نہیں ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ بدزبان (گالیاں بکنے والے) بے ہودہ گندی باتیں کرنے والے سے بغض رکھتا ہے۔“ شیخ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا: یعلیٰ بن مالک کو ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا اور اس سے ابن ابی ملیکہ کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی اس لیے حافظ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ”مقبول“ یعنی مطابعت کے وقت۔ شیخ البانی فرماتے ہیں اس کے آخری حصے: «وإن الله ليبغض الفاحش البذيء» کے دو شاہد بھی ہیں تفصیل کے لئے دیکھئے: سلسلہ الاحادیث الصحیحہ [876] اور دیکھیے: تحفۃ الاشراف [246/8]
مفردات: «يُبْغِضُ» بغض، محبت کی ضد ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بندے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے اچھا بدلہ دے گا اسے عزت عطا فرمائے گا اور اس کے بعض کا مطلب یہ ہے کہ اسے سزا دے گا اسے ذلیل کرے گا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ محبت اور بغض کا نتیجہ تو ہو سکتا ہے ہے مگر محبت اور بغض کا مطلب یہ ہرگز نہیں محبت اور بغض کا مطلب ہر شخص جانتا ہے دوستی اور دشمنی۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں اللہ تعالیٰ کی یہ صفات آئی ہیں ان پر ایمان لانا واجب ہے۔ جو لوگ ان کا کوئی اور مطلب بیان کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ ماننے سے کہ اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے یا دشمنی رکھتا ہے اللہ تعالیٰ کی شان میں فرق آتا ہے کیوں کہ یہ جذبات تو انسانوں میں پائے جاتے ہیں ہیں اور انسان محبت اور دشمنی کے جذبے کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے اس لیے انہوں نے اللہ کی صفات کی تاویل کی جو در حقیقت اصل صفت حب و بغض کی نفی ہے کیونکہ بدلہ دینا، عزت کرنا یہ الگ صفات ہیں اور اللہ تعالیٰ میں یہ بھی پائی جاتی ہیں اور محبت اور بغض اس کی الگ مستقل صفات ہیں۔ رہی یہ بات کے حب و بغض کو اللہ کی صفات مانیں تو انسانوں کی مشابہت لازم آتی ہے جبکہ اللہ کی مثل تو کوئی چیز نہیں اس لیے ہم اللہ کی ان صفات کو نہیں مانتے بلکہ ان کا مطلب دوسرا کرتے ہیں تو اس میں قابل غور یہ بات ہے کہ اگر محبت اور بغض انسانوں میں پائے جاتے ہیں تو اچھا یا برا بدلہ دینا، عزت کرنا یا بے عزتی کرنا بھی تو انسانوں میں پایا جاتا ہے پھر یہ بھی اللہ تعالیٰ میں نہیں ہونا چاہیے اور ان کا مطلب بھی کچھ اور نکالنا چاہیے اور آخر کہاں تک مطلب نکالتے جائیں گے صاف کہنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ صفات سے خالی ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ اللہ تعالیٰ نے بالکل آسان فرما دیا ہے۔ فرمایا: «لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ»[42-الشورى:11] ”یعنی اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔“ یعنی تم سنتے اور دیکھتے ہو اور اللہ تعالیٰ بھی سنتا ہے اور دیکھتا ہے مگر اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں تمہارا سننا دیکھنا اور اللہ کا سننا دیکھنا ایک جیسا نہیں۔ بلکہ اللہ کا سننا اور دیکھنا اس طرح ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ معلوم ہوا انسانوں کی مشابہت سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے سننے اور دیکھنے کا ہی انکار کر دینا درست نہیں بلکہ یہ دراصل قرآن کا انکار ہے۔ اسی طرح حب و بغض یقیناً اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، مگر جس طرح اس کی شان کے لائق ہیں۔ مخلوق کی طرح نہیں اور نہ ہی وہ انسانوں کی طرح محبت و بغض کے ہاتھوں بے بس ہے۔ «الْفَاحِشَ» «فحش»، «فاحشه»، «فحشاء» سے مراد وہ قول یا فعل ہے جو بہت ہیں قبیح ہو زنا کو اسی لیے «فاحشه» کہتے ہیں۔ شدید بخل کو «فحشاء» کہتے ہیں۔ «الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ» [2-البقرة:268] میں یہی مراد ہے۔ گالی بکنا بےحیائی کی بات کرنا بھی فحش ہے۔ اس حدیث میں یہی مراد ہے۔ «الْبَذِيءَ» بذاء سے فعیل کے وزن پر صفت کا صیغہ ہے۔ بے ہودہ اور گندی باتوں کو «بذاء» کہتے ہیں۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 203
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:397
397- سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا، سیدنا ابورداء رضی اللہ عنہ کا یہ بیان نقل کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جسے نرمی میں حصہ عطا کیا گیا، اسے بھلائی میں سے حصہ عطا کیا گیا اور جو شخص نرمی میں سے حصے سے محروم رہا وہ بھلائی میں حصے سے محروم رہا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:397]
فائدہ: اس حدیث سے نرمی کی فضیلت و اہمیت ثابت ہوتی ہے، نرم مزاج انسان خیر پر ہوتا ہے، اور سخت مزاج بے شمار نیکیوں سے محروم ہو جا تا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 397