وعن انس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «طوبى لمن شغله عيبه عن عيوب الناس» اخرجه البزار بإسناد حسن.وعن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «طوبى لمن شغله عيبه عن عيوب الناس» أخرجه البزار بإسناد حسن.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اس شخص کو مبارک ہے جس کو اپنے عیب نظر آئیں اور دوسرے لوگوں کے عیوب نظر نہ آئیں۔ “ اس روایت کو بزار نے حسن سند سے نکالا ہے۔
हज़रत अनस रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! ’’ उस व्यक्ति को मुबारक है जिस को अपनी बुराइयां नज़र आएं और दूसरे लोगों की बुराइयां नज़र न आएं। ‘‘ इस रिवायत को बज़ार ने हसन सनद से निकाला है।
تخریج الحدیث: «أخرجه البزار، كشف الأستار، حديث:3225، وضعفه العراقي كما في "اتحاف المتقين":7 /465، وله طريق آخر ضعيف جدًا موضوع عند ابن الجوزي في العلل المتناهية: 2 /343، 344، حديث:1385.»
Anas (RAA) narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“Blessed is he who is preoccupied with his defects rather than those of other people.” Related by Al-Bazzar with a good chain of narrators.
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1305
تخریج: مناوی نے فرمایا: اسے عسکری نے انس رضی اللہ عنہ سے ابونعیم نے حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے اور بزار نے انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے عراقی نے فرمایا اور یہ سب اسناد ضعیف ہیں۔ [توضيح الاحكام ]
مفردات: «طوبي» طیب سے مصدر ہے بروزن «فعلي» اصل میں «طيبي» تھا یا کا ما قبل مضموم ہوا تو اسے واو سے بدل دیا۔ معنی بھلائی، پاکیزگی، اچھی زندگی اس کے علاوہ جنت کے ایک درخت کا نام ہے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «طوبي شجرة فى الجنة مسيرة مائة عام ثياب اهل الجنة تخرج من اكمامها»[حديث حسن مسند احمد و ابن حبان۔ صحيح الجامع الصغير 3918] ”طوبی جنت میں ایک درخت ہے جس کا فاصلہ سو سال ہے اہل جنت کے کپڑے اس کے غلافوں سے نکلتے ہیں۔“
فوائد: دنیا اور آخرت میں بہترین اور خوشگوار زندگی کا اور جنت کے درخت طوبی کا حقدار وہ شخص ہے جو اپنے عیب دیکھنے، انہیں دور کرنے یا چھپانے میں اس قدر منہمک ہے کہ دوسروں کے عیبوں کی ٹوہ لگانے کی اسے فرصت ہی نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے عیبوں کو دیکھتے ہوئے نہی عن المنکر کا فریضہ ہی چھوڑ دیتا ہے کیونکہ برائی سے منع کرنا تو فرض ہے مقصد یہ کہ وہ اپنی اصلاح میں اس قدر مشغول اور اپنے گناہوں سے اس قدر محجوب اور شرمندہ ہے کہ دوسروں کے عیبوں کی نہ جستجو کرتا ہے نہ کسی کا عیب مجلسوں میں بیان کرتا ہے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 219