وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من تعاظم في نفسه واختال في مشيته لقي الله وهو عليه غضبان» اخرجه الحاكم ورجاله ثقات.وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من تعاظم في نفسه واختال في مشيته لقي الله وهو عليه غضبان» أخرجه الحاكم ورجاله ثقات.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو کوئی اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھے اور اکٹر کر چلے وہ اللہ سے ایسی حالت میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہو گا۔ “ حاکم نے اسے نکالا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔
हज़रत इब्न उमर रज़ि अल्लाहु अन्हुमा से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! ’’ जो कोई अपने आप को बड़ा आदमी समझे और अकड़ कर चले जब वह अल्लाह से मिलेगा तो अल्लाह तआला उस पर बहुत ग़ुस्सा होगा। ‘‘ हाकिम ने इसे निकाला है और इस के रावी सक़ा हैं।
تخریج الحدیث: «أخرجه الحاكم:1 /60 وصححه علي شرط الشيخين، ووافقه الذهبي، وأحمد:2 /118، والبخاري في الأدب المفرد، حديث:549.»
Ibn 'Umar (RAA) narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“Whoever exalts himself and walks proudly; Allah will be angry with him when he meets Him (on the Day of Resurrection).” Related Al-Hakim with a reliable chain of narrators.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1306
تخریج: «أخرجه الحاكم:1 /60 وصححه علي شرط الشيخين، ووافقه الذهبي، وأحمد:2 /118، والبخاري في الأدب المفرد، حديث:549.»
تشریح: 1. اس حدیث میں تکبر سے چلنے کو اللہ کی ناراضی اور غضب کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ 2.سچی بات یہی ہے کہ یہ چال وہی لوگ چلتے ہیں جن کے دماغ میں بڑا ہونے کا خیال سمایا ہوتا ہے۔ 3. علامہ نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ تکبر یہ ہے کہ اپنے آپ کو بلند و بالا سمجھتے ہوئے لوگوں کو حقیر جانا جائے اور حق کا انکار کیا جائے۔ ابن حجر مکی رحمہ اللہ نے زواجر میں کہا ہے کہ تعاظم اور تکبر دو طرح کا ہوتا ہے: ایک باطن اور دوسرا ظاہر۔ حدیث کا پہلا جملہ باطن کو اور دوسرا جملہ ظاہر کو بیان کر رہا ہے اور دونوں ہی کبیرہ گناہ ہیں اور شرعاً حرام ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (صحیح مسلم‘ الإیمان‘ باب تحریم الکبر و بیانہ‘ حدیث:۹۱)
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1306
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1306
مفردات: «تَعَاظَمَ» باب تفاعل سے ہے۔ جو بمعنی فعل ہے جیسے «توانيت» بمعنی «ونيت»(میں تھک کر رہ گیا) آتا ہے باب تفاعل مبالغہ کے لیے ہے یعنی جو شخص اپنے آپ میں بہت بڑا بنے اور اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ تعظیم کا مستحق سمجھے یا تفاعل باب تفعل کے معنی میں ہے۔ «تَعَاظَمَ» بمعنی «تَعَظَّمَ» یعنی اپنی بڑائی کا عقیدہ رکھے جیسے «تَكَبَّرَ» ۔ «اِخْتَالَ» «خيلاء» سے باب افتعال ہے تکبر۔ گھوڑوں کو «خيل» اس لیے کہتے ہیں کہ ان کی چال میں تکبر پایا جاتا ہے۔ متکبر کو مختال اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنے خیال میں دوسروں سے اونچا ہوتا ہے۔ «غَضْبَانُ» مبالغے کا صیغہ ہے جس طرح رحمان ہے اس لئے اس کا ترجمہ غصے سے بھرا ہوا کیا ہے۔
فوائد: بڑائی اور عظمت صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ مخلوق کا یہ حق ہی نہیں کیونکہ وہ تو اپنے وجود میں بھی اللہ کے محتاج ہیں ان کے پاس اپنی کوئی چیز نہیں پھر بڑائی کیسی؟ اس لیے فرمایا: «إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا»[4-النساء:36] ”اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت نہیں رکھتا جو اکڑنے والا فخر کرنے والا ہو۔“ اب جو شخص عجز اختیار کرے وہ اللہ کے رحم کا مستحق ہے جو تکبر کرے وہ اللہ کے شدید غضب کا نشانہ بنے گا اور اسے اس کی بڑائی کی خواہش کے برعکس انتہائی حقارت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «يحشر المتكبرون يوم القيامة امثال الذر فى صور الرجال»[صحيح الترمذي 2025] ”تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن چیونٹیوں کی طرح مردوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا۔“
تکبر کی قسمیں: تکبر ایک تو دل میں ہوتا ہے اپنے آپ کو بڑا جاننا لوگوں کو حقیر خیال کرنا اور حق کا انکار کر دینا اور ایک ظاہر کا تکبر ہے۔ مثلا منہ پھلا کر رکھنا، کسی کو پوری نظر سے دیکھنے کی بجائے گوشئہ چشم سے دیکھنا، چال میں تکبر اختیار کرنا، لباس میں تکبر یعنی اسے ٹخنے سے نیچے لٹکانا یہ سب چیزیں اللہ کے غضب کو دعوت دیتی ہیں۔ فرمایا: «وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا» [31-لقمان:18] ”اور اپنا گال لوگوں کے لیے نہ پھلا اور نہ زمین میں تکبر سے چل۔“
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 220