وعن انس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من كف غضبه كف الله عنه عذابه» . اخرجه الطبراني في الاوسط. وله شاهد من حديث ابن عمر عند ابن ابي الدنيا.وعن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من كف غضبه كف الله عنه عذابه» . أخرجه الطبراني في الأوسط. وله شاهد من حديث ابن عمر عند ابن أبي الدنيا.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جس کسی نے اپنے غصے کو روک لیا اللہ تعالیٰ اس سے اپنا عذاب روک لے گا۔“ اسے طبرانی نے الاوسط میں نکالا ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث اس کی شاہد ہے جسے ابن ابی الدنیا نے نقل کیا ہے۔
हज़रत अनस रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! ’’ जिस किसी ने अपने ग़ुस्से को रोक लिया अल्लाह तआला उस से अपना अज़ाब रोक लेगा।” इसे तिब्रानी ने अलअवसत में निकाला है। इब्न उमर रज़ि अल्लाहु अन्हुमा की हदीस इस की गवाह है जिसे इब्न अबी अद-दुनिया ने लिखा किया है।
تخریج الحدیث: «أخرجه الطبراني في الأوسط كما في مجمع الزاوئد:10 /298، وأبويعلي في مسنده:7 /302، حديث:1583 وسنده ضعيف، وحديث ابن عمر: أخرجه ابن أبي الدنيا في الصمت (21) وسند ضعيف، ضعفه السيوطي، وحسنه العراقي، وللحديث شواهد ضعيفة عند الضياء وغيره.»
Anas (RAA) narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“If one restrained his anger, Allah will keep His punishment from him (on the Day of Resurrection).” Related by At-Tabarani in al-Awsat.
The aforementioned hadith is supported by a narration on the authority of Ibn ’Umar related by Ibn Abi Ad-Dunia.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1302
تخریج: «أخرجه الطبراني في الأوسط كما في مجمع الزاوئد:10 /298، وأبويعلي في مسنده:7 /302، حديث:1583 وسنده ضعيف، وحديث ابن عمر: أخرجه ابن أبي الدنيا في الصمت (21) وسند ضعيف، ضعفه السيوطي، وحسنه العراقي، وللحديث شواهد ضعيفة عند الضياء وغيره.»
تشریح: 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے اور انھوں نے اس کے مختلف طریق بیان کیے ہیں۔ ان میں سے ایک طریق کو انھوں نے حسن قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کے کلام سے یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ روایت کم از کم حسن درجے کی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الصحیحۃ للألباني:۵ /۴۷۵. ۴۷۷‘ رقم:۲۳۶۰) 2. اس حدیث میں غصے پر قابو پانے کی فضیلت ہے۔ 3. اپنے زیر دست اور ماتحت افراد کی کسی غلطی پر غصہ نہ کھانا بلکہ انھیں معاف کر دینا اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1302
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1302
تخریج: طبرانی کی ”المعجم الاوسط“ کی فہرست میں یہ حدیث مجھے نہیں ملی۔ البتہ اس میں عمر رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی حدیث کے ضمن میں یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں: «من كف غضبه ستر الله عورته» ”جو شخص اپنے غصے کو روک لے اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں پر پردہ ڈال دے گا۔“[المعجم الاوسط للطبراني حديث 2033]
شیخ البانی نے سلسلہ صحیحہ [906] میں معجم کبیر کے حوالے سے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کرنے کے بعد فرمایا (یاد رہے اوسط اور کبیر دونوں کی سند ایک ہی بات ہے) یہ بہت ہی ضعیف سند ہے، پھر اس کے ضعف کی تفصیل کے بعد فرمایا کہ یہ حدیث اس سے بہتر سند کے ساتھ بھی آئی ہے۔ چنانچہ ابن ابی الدنیا نے ”قضاء الحوائج“[ص: 80 رقم 36] میں ابواسحاق مزکی نے ”الفوائد المنتخبہ“[2/147/1] میں (اس کا کچھ حصہ) اور ابن عساکر [1/444/11] نے کی سندوں کے ساتھ بکر بن خنیس سے انہوں نے عبداللہ بن دینار سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ سے (ابن ابی الدنیا میں اسی طرح ہے) اور باقی دونوں کتابوں میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ روایت بیان کی ہے۔ میں (البانی) کہتا ہو اور یہ اسناد حسن ہے کیونکہ بکر بن خنیس صدوق ہے جس کی کچھ غلطیاں (بھی) ہیں جیسا کہ حافظ نے فرمایا اور عبداللہ بن دینار ثقہ ہیں بخاری مسلم کے راوی ہیں چنانچہ حدیث ثابت ہو گئی۔ «والحمد الله» دیکھئے: سلسلہ الاحادیث الصحیحہ حدیث [906]
یہ پوری حدیث چونکہ بہت سے آداب کی جامع ہے اس لئے یہاں نقل کی جاتی ہے: «احب الناس إلى الله تعالى انفعهم للناس واحب الاعمال إلى الله عز وجل سرور يدخله على مسلم او يكشف عنه كربة او يقضي عنه دينا او تطرد عنه جوعا ولان امشي مع اخ فى حاجة احب إلى من ان اعتكف فى هذا المسجد، (يعني مسجد المدينة) شهرا ومن كف غضبه ستر الله عورته ومن كظم غيظه ولو شاء ان يمضيه امضاه ملا الله قلبه رجاء يوم القيامة ومن مشى مع اخيه فى حاجة حتى تتهيا له اثبت الله قدمه يوم تزول الاقدام (وإن سوء الخلق يفسد العمل كما يفسد الخل العسل)» ”ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب شخص کون ہے اور اعمال میں اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے محبوب عمل کون سا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو لوگوں میں سب سے محبوب وہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہے اور اللہ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب عمل وہ خوشی ہے جو آدمی کسی مسلم کو پہنچائے یا اس سے کوئی تکلیف دور کرے یا اس کا قرض ادا کرے یا اس سے بھوک کو دور کرے اور کسی بھائی کے ساتھ اس کی کسی ضرورت کے لئے جانا مجھے اس مسجد (مسجد نبوی) میں مہینہ بھر اعتکاف سے زیادہ محبوب ہے اور جو شخص اپنے غصے کو روکے اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا اور جو شخص اپنے غصے کو ایسی حالت میں پی جائے کہ اگر وہ غصہ پورا کرنا چاہتا تو کر سکتا تھا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو امید سے بھر دے گا اور جو شخص اپنے بھائی کے ساتھ کسی ضرورت کے سلسلے میں چلے یہاں تک کہ وہ اس کے لئے مہیا ہو جائے اللہ تعالیٰ اس کے قدم کو اس دن ثابت رکھے گا جس دن قدم پھسل جائیں گے۔“(انتھی) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بلوغ المرام میں اس مقام پر انس رضی اللہ عنہ جو الفاظ ذکر فرمائے ہیں: «من كف غضبه كف الله عنه عذابه»[كنز العمال 7164] میں اس کا حوالہ یہ لکھا ہے «ابن ابي الدنيا فى ذم الغضب، ابويعلي فى مسنده و ابن شاهين والخرائطي فى مساوي الاخلاق وسعيد بن منصور فى سننه عن انس رضي الله عنه» اور اس کا شاہد یہ لکھا ہے «من ملك غضبه وقاه الله عذابه ابن ابي الدنيا عن عمر»[كنز العمال7165 ] غصے کے متعلق اس سے پہلے تفصیلی گفتگو ہو چکی ہے دیکھیے اسی کتاب کی حدیث [1396] اور [1406]
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 214