بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر

بلوغ المرام
बुलूग़ अल-मराम
قاضی ( جج ) وغیرہ بننے کے مسائل
क़ाज़ी यानि न्यायाधीश के नियम
2. باب الشهادات
2. شہادتوں (گواہیوں) کا بیان
२. “ गवाहियों के नियम ”
حدیث نمبر: 1203
Save to word مکررات اعراب Hindi
وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏لا تجوز شهادة خائن ولا خائنة ولا ذي غمر على اخيه ولا تجوز شهادة القانع لاهل البيت» ‏‏‏‏ رواه احمد وابو داود.وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏لا تجوز شهادة خائن ولا خائنة ولا ذي غمر على أخيه ولا تجوز شهادة القانع لأهل البيت» ‏‏‏‏ رواه أحمد وأبو داود.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خائن مرد و عورت کی گواہی جائز نہیں اور دشمن اور کینہ ور شخص کی اپنے بھائی کے خلاف بھی گواہی جائز نہیں اور جو شخص کسی دوسرے کے زیر کفالت ہو اس کی گواہی کفیل خاندان کے حق میں جائز نہیں ہے۔ (مسند احمد، ابوداؤد)
हज़रत अब्दुल्लाह बिन उमर रज़ि अल्लाहु अन्हुमा से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! ’’ ख़यानत करने वाले मर्द और औरतों की गवाही जायज़ नहीं और दुश्मन और बैर रखने वाले व्यक्ति की अपने भाई के विरुद्ध भी गवाही जायज़ नहीं और जो व्यक्ति किसी दूसरे की ज़िम्मेदारी में हो उस की गवाही ज़िम्मेदार ख़ानदान के हक़ में जायज़ नहीं है।” (मसनद अहमद, अबू दाऊद)

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، القضاء، باب من ترد شهادة، حديث:3600 وأحمد:2 /181، 203.»

Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): Allah's Messenger (ﷺ) said: "It is not permissible to accept the testimony of a man or a woman who does not fulfill their trusts, or of one who harbors a grudge against his brother, or the testimony of one who is dependent on a family (to testify) for members of the family." [Reported by Ahmad and Abu Dawud].
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: حسن

   سنن أبي داود3600عبد الله بن عمرورد شهادة الخائن والخائنة وذي الغمر على أخيه ورد شهادة القانع لأهل البيت وأجازها لغيرهم
   سنن ابن ماجه2366عبد الله بن عمرولا تجوز شهادة خائن ولا خائنة ولا محدود في الإسلام ولا ذي غمر على أخيه
   بلوغ المرام1203عبد الله بن عمرو لا تجوز شهادة خائن ولا خائنة ولا ذي غمر على أخيه ولا تجوز شهادة القانع لأهل البيت

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1203 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1203  
تخریج:
«أخرجه أبوداود، القضاء، باب من ترد شهادة، حديث:3600 وأحمد:2 /181، 203.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خائن‘ دشمن اور کینہ ور کی شہادت ناجائز ہے۔
اسی طرح جو شخص کسی کے زیرکفالت ہو اس کی گواہی بھی اس شخص اور اس کے اہل خانہ کے حق میں قبول نہیں تاکہ جانب داری کا شبہ نہ رہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1203   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3600  
´کس کی گواہی نہیں مانی جائے گی؟`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیانت کرنے والے مرد، خیانت کرنے والی عورت اور اپنے بھائی سے بغض و کینہ رکھنے والے شخص کی شہادت رد فرما دی ہے، اور خادم کی گواہی کو جو اس کے گھر والوں (مالکوں) کے حق میں ہو رد کر دیا ہے اور دوسروں کے لیے جائز رکھا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «غمر» کے معنیٰ: کینہ اور بغض کے ہیں، اور «قانع» سے مراد پرانا ملازم مثلاً خادم خاص ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3600]
فوائد ومسائل:
توضیح: خائن یا خائنہ کی گواہی مطلقاً مردود ہے۔
اس میں مالی خیانت اور زبانی خیانت (جھوٹ) دونوں ایک جیسے ہیں۔
لیکن کینہ پرور اور بغیض کی گواہی میں اس صورت میں مردود ہے۔
جب معاملہ ان کے ساتھ ہو جن کے ساتھ اس کی دشمنی ہو۔
اگر سچا ہے تو دوسرے لوگوں میں مقبول ہوگی۔
اسی طرح ہی نوکر اور غلام کی طرح کے تابع قسم کے لوگوں کی گواہی اپنے ولی کے حق میں قبول نہیں۔
اگر سچے ہیں تو دوسروں کے حق میں قبول ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3600   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2366  
´جن لوگوں کی گواہی جائز نہیں ہے ان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ خائن مرد کی گواہی جائز ہے اور نہ خائن عورت کی، اور نہ اس کی جس پر اسلام میں حد نافذ ہوئی ہو، اور نہ اس کی جو اپنے بھائی کے خلاف کینہ و عداوت رکھے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2366]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
مذکورہ روایت کوہمارے فاضل محقق نےسنداً ضعیف قرار دے کرکہا ہے کہ اس حدیث کی اصل صحیح ہے نیزسنن ابوداود میں عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سےمروی روایت کوحسن قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (سنن ابوداؤد (اردو)
طبع دارالسلام، حدیث: 3600، 3601)

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ہمارے فاضل محقق کےنزدیک قابل عمل اروقابل حجت ہے، علاوہ ازیں دیگرمحقیقین نے بھی اسے حسن قراردیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگرشواہد کی بنا پرقابل عمل اورقابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کےلیے دیکھیے::
(الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 11، 299، 300، والإرواء للألبانی، رقم: 2669، وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، حدیث: 2366)

(2)
امانت میں خیانت کرنے والا قابل اعتماد نہیں ہوتا، لہٰذا عدالت میں اس کی گواہی قبول نہیں۔

(3)
حدبعض خاص جرائم کی سزاوں کوکہا جاتا ہے جو اللہ کی طرف سے مقرر کی گئی ہیں۔
عدالت کو ان میں کمی بیشی کا حق نہیں۔
ان کےعلاوہ دیگر سزاوں کوتعزیرکہتےہیں جن میں حالات کےمطابق تبدیلی کی جا سکتی ہے۔

(4)
جب یہ ثابت ہوجائے کہ گواہ نے جس کے خلاف گواہی دی ہے، اس سے اس کی پہلے سے ناراضی ہے توی ہ بات گواہی کومشکوک بنا دیتی ہے ممکن ہےکہ وہ پرانی دشمنی کی وجہ سےاس کے خلاف گواہی دے کراپنا بدلہ لینا چاہتا ہو۔

(5)
بھائی سےمراد دینی بھائی یعنی مسلمان ہے۔
اس میں حقیقی بھائی بھی شامل ہے کیونکہ مسلمان ہونے کی صورت میں وہ بھی دینی بھائی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2366   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.