سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کے اس قول ”اور جو رؤیا (عینی رؤیت) ہم نے آپ کو دکھلائی تھی وہ لوگوں کے لیے صاف آزمائش ہی تھی ”(بنی اسرائیل: 60) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں رؤیا سے مراد (خواب نہیں بلکہ) آنکھ سے دیکھنا مراد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رات دکھایا گیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس تک لے جایا گیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کا یہ قول کہ ”اور وہ درخت، جس سے قرآن میں اظہار نفرت کیا گیا ہے۔“(بنی اسرائیل: ”60) میں درخت سے تھوہر کا درخت مراد ہے۔