- (تفضل صلاة الجميع صلاة احدكم وحده بخمس وعشرين جزءا، وتجتمع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الفجر).- (تفضل صلاة الجميع صلاة أحدكم وحده بخمس وعشرين جزءاً، وتجتمع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الفجر).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز باجماعت، اکیلے آدمی کی نماز سے پچیس گنا افضل ہے۔ رات اور دن کے فرشتے نماز فجر میں جمع ہوتے ہیں۔“
हज़रत अबु हुरैरा रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “नमाज़ ज्माअत के साथ, अकेले आदमी की नमाज़ से पच्चीस (25) गुना अफ़ज़ल है। रात और दिन के फ़रिश्ते फ़जर की नमाज़ में जमा होते हैं।”
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 3618
قال الشيخ الألباني: - (تفضل صلاة الجميع صلاة أحدكم وحده بخمس وعشرين جزءاً، وتجتمع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الفجر) . _____________________ جاء من حديث أبي هريرة، ورواه عنه جماعة: 1- 2- سعيد بن المسيب وأبو سلمة: رواه البخاريّ (648 و 4717) - عنهما -، ومسلم (2/122) ، والنسائي (1/241) ، وأحمد (2/233) - ثلاثتهم- عن سعيد بن المسيب- وحده- بتمامه. ورواه أحمد (2/266) عن أبي سلمة- وحده- بتمامه. وروى القطعة الأولى منه عن سعيد عنه: مسلم (2/122) ، والترمذي (216) ، مالك (1/150) ، وابن ماجه (787) ، وابن خزيمة في "صحيحه " (1472) ، وابن حبان (2053) ، وابن شيبة (2/ 480) ، والدارمي (1/ 292) ، وأ بو عوانة (2/ 2) ، وأحمد (2/ 264 و 396 و 473) ، والبيهقي __________جزء : 7 /صفحہ : 1632__________ (2/302) ، والبغوي (786) ، والطبراني في " المعجم الصغير" (1099- " الروض النضير") . وروى القطعة الأولى- أيضاً- عن أبي سلمة عنه: ابن حبان (2051) ، وعبد الرزاق (2001) ، وأحمد (2/501) ، وابن أبي شيبة (2/480) . 3- أبو صالح: رواه البخاري (477 و 647 و2119) ، ومسلم (2/128) ، وأبو داود (559) ، والترمذي (603) ، وابن ماجه (786) ، وابن خزيمة (1490) ، وابن حبان (2043) ، وأبوعوا نة (1/388 و 2/ 4) ، وأحمد (2/252 و520) ، والطيالسي (2412 و2414) بالقطعة الأولى منه. وروى ابن خزيمة (322) ، وابن حبان (2061) ، وأحمد (2/396) من طريق أبي صالح عنه القطعة الثانية منه بأطول منه. 4- سليمان الأغر: رواه مسلم (2/122) ، وأحمد (2/475 و485) ، وأبو عوا نة (2/2) ، والبيهقي (3/ 61) بالقطعة الأولى أيضاً. 5- أبو الأ حوص: رواه أحمد (2/328) - بلفظ: "سبعاً وعشرين درجة " -، و (2/ 454) - بلفظ: "سبعاً وعشرين درجة، أو خمساً وعشرين درجة "- بالقطعة الأولى أيضاً. وقد أشرت في "الروض النضير" (2/469) - قديماً- إلى اضطراب أبي الأحوص __________جزء : 7 /صفحہ : 1633__________ في روايته، مبيناً وجه الصواب في ذلك. 6- الأعرج: رواه الشافعي في "الأم " (1/137) ، ومن طريقه: البيهقي في "السنن " (3/ 51) بالقطعة الأولى أيضاً. 7- أبوجعفر: رواه ابن أبي شيبة (2/480) عن خلف بن خليفة عن أبي مالك الأشجعي عن أبي جعفر، عن أبي هريرة موقوفاً بالقطعة الأولى أيضاً. وأبو جعفر: هو المدني؛ ثقة. ولكن خلف بن خليفة صدوق اختلط في الآخر، كما قال الحافظ في "التقريب "؛ فلعل روايته الحديث موقوفاً- دون جماعة الثقات- من تخاليطه! وفي الباب- في فضل صلاة الجماعة- عن أبي سعيد الخدري؛ وقد تقدم تخريجه في هذه "السلسلة" (3475) . وفي اجتماع الملائكة عن أبي هريرة رواية أخرى، وهي مخرجة في "ظلال الجنة" (491) . * ¤
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 526 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ اعوان حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سلسله احاديث صحيحه 526
� فوائد و مسائل: نماز باجماعت روح کو جلا بخشتی ہے، جماعت کے بہانے نمازی کا زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں گزرتا ہے، نماز کی ادائیگی کے لیے جماعت کی پروا نہ کرنا انتہا درجہ کی غفلت، سستی اور کاہلی ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ آدمی شیطان کے نرغے میں ہے، ممکن ہے وہ اسے جلد نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائے اور اس سے بڑا نقصان کیا ہو سکتا ہے کہ وہ کئی سعادتوں سے محروم ہو جاتا ہے، سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ما من ثلاثة فى قرية ولا بدو لا تقام فيهم الصلاة إلا قد استحوذ عليهم الشيطان فعليك بالجماعة فإنما ياكل الذئب القاصية»[ابوداؤد، نسائي] ”جس گاؤں یا بستی میں تین آدمی ہوں اور وہاں نماز باجماعت کا اہتمام نہ کیا جاتا ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان ان پر غالب آ چکا ہے۔ آپ جماعت کا التزام کریں، (وگرنہ ذہن نشین کر لیں کہ) بھیڑیا (ریوڑ سے) دور چلی جانے والی بکری کو کھا جاتا ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «صلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة»[بخاري و مسلم] ”نماز باجماعت، اکیلے آدمی کی نماز سے ستائیس گنا افضل ہے۔“
نماز باجماعت اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی و انکساری کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ نماز ہے، جیسا کہ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:: «يعجب ربك من راعي غنم فى راس شظية الجبل يؤذن بالصلاة ويصلي فيقول الله عز وجل: انظروا إلى عبدي هذا يؤذن ويقيم الصلاة يخاف مني قد غفرت لعبدي وادخلته الجنة»[ابوداؤد، نسائي] ”تمہارا رب بکریوں کے اس چرواہے پر تعجب کرتا ہے، جو پہاڑ کی چوٹی پر (بکریاں چرا رہا ہوتا ہے، جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو) وہ اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ (اس کے اس عمل کو دیکھ کر) کہتے ہیں: میرے بندے کی طرف دیکھو، اذان دیتا ہے اور نماز کے لیے اقامت کہتا ہے (پھر نماز ادا کرتا ہے) یہ مجھ سے ڈرتا ہے۔ میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا۔“
انسان کی نیکیوں اور برائیوں کو نوٹ کرنے والے دو فرشتے فجر اور عصر کی نمازوں میں اپنی باریاں تبدیل کرتے ہیں، یعنی دن کو اپنے فرائض سرانجام دینے والے فرشتے نماز فجر کی ادائیگی سے پہلے آتے ہیں اور نماز عصر کے بعد واپس جاتے ہیں اور رات والے نماز عصر سے پہلے آتے ہیں اور نماز فجر کے بعد واپس جاتے ہیں اور نماز باجماعت ادا کرنے والے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں: جب ہم گئے تھے تو تیرے بندے نماز پڑھ رہے تھے اور اب جب ہم آئے ہیں تو تیرے بندے نماز پڑھ رہے تھے۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 526