-" اركع ركعتين ولا تعودون لمثل هذا. يعني الإبطاء عن الخطبة. قاله لسليك الغطفاني".-" اركع ركعتين ولا تعودون لمثل هذا. يعني الإبطاء عن الخطبة. قاله لسليك الغطفاني".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کی گواہی کثرت سے دیتے رہا کرو، قبل اس کے کہ تمہارے اور اس کے مابین کوئی رکاوٹ حائل ہو جائے اور قریب المرگ لوگوں کو اس کی تلقین کیا کرو۔“
हज़रत अबु हुरैरा रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “अल्लाह तआला के ईश्वर होने की गवाही अधिक देते रहा करो, इस से पहले कि तुम्हारे और उसके बीच में कोई बाधा आजाए और मरने वाले लोगों को इसकी नसीहत किया करो।”
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 467
تخریج الحدیث: «أخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 6147/8/11، وابن عدى فى ”الكامل“: 2/204، عنه وعن غيره، وابن حمصة فى ”جزء البطاقة“: 1/69، والخطيب فى ”تاريخ بغداد“: 38/3، وابن عساكر فى ”تاريخ دمشق“: 2/207/17، والحديث فى صحيح مسلم و غيره بلفظ: ولقنوا موتاكم لا اله الا الله»
قال الشيخ الألباني: - " اركع ركعتين ولا تعودون لمثل هذا. يعني الإبطاء عن الخطبة. قاله لسليك الغطفاني ". _____________________ أخرجه ابن حبان (569) والدارقطني (169) من طريق يعقوب بن إبراهيم حدثنا أبي عن ابن إسحاق حدثني أبان بن صالح عن مجاهد عن جابر بن عبد الله قال: " دخل سليك الغطفاني المسجد يوم الجمعة، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب الناس، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ... " فذكره. وقال ابن حبان: " أراد الإبطاء ". قلت: وإسناده حسن قد صرح عنده ابن إسحاق بالتحديث بخلاف __________جزء : 1 /صفحہ : 835__________ الدارقطني، وهي فائدة من أجلها خرجت الحديث هنا، وقد أورده عبد الحق الإشبيلي في " أحكامه " (رقم 1753 - بتحقيقي) من طريق الدارقطني وسكت عليه مشيرا بذلك إلى صحته! ¤
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 34 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 34
فوائد:
مختلف احادیث سے ثابت ہوتا کہ اس کلمے کے فضائل ثابت ہوتے ہیں، مثلا: جنت میں داخل کرنا، جہنم سے آزاد کرنا، شرک سے پاک کرنا۔ وغیرہ
اس حدیث مبارکہ میں «أَشْهَدُ لَا إِلَهَ إِلَّا الله» کا زندگی میں کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے، تا کہ مسلمان اس ذکر کے عظیم ثواب سے محروم نہ رہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ معلوم نہیں کہ آیا موت کے وقت کلمۂ شہادت کا موقع ملتا ہے یا نہیں، اس لیے موت سے پہلے ہی آخرت کی مکمل تیاری کر لینی چاہیے۔
قارئین کرام! آپ نے دیکھا ہو گا کہ کئی افراد حادثات اور بعض بیماریوں کی وجہ سے اچانک لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور بعض افراد ہمارے سامنے مر رہے ہوتے ہیں، لیکن وہ یہ کلمہ ادا نہیں کر رہے ہوتے۔ سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایسے مراحل عبور کرنے سے پہلے ہی توشہ آخرت تیار کر لینا چاہیے، حدیث کے دوسرے حصے میں قریب المرگ آدمی کو کلمہ توحید کی تلقین کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 34