صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
The Book of The Two Eid (Prayers and Festivals).
12. بَابُ التَّكْبِيرِ أَيَّامَ مِنًى وَإِذَا غَدَا إِلَى عَرَفَةَ:
12. باب: تکبیر منیٰ کے دنوں میں اور جب نویں تاریخ کو عرفات میں جائے۔
(12) Chapter. To say Takbir on the days of Mina and while proceeding to Arafat.
حدیث نمبر: Q970
Save to word اعراب English
وكان عمر رضي الله عنه يكبر في قبته بمنى فيسمعه اهل المسجد فيكبرون ويكبر اهل الاسواق حتى ترتج منى تكبيرا وكان ابن عمر يكبر بمنى تلك الايام وخلف الصلوات وعلى فراشه وفي فسطاطه ومجلسه وممشاه تلك الايام جميعا وكانت ميمونة تكبر يوم النحر وكن النساء يكبرن خلف ابان بن عثمان، وعمر بن عبد العزيز ليالي التشريق مع الرجال في المسجد.وَكَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُكَبِّرُ فِي قُبَّتِهِ بِمِنًى فَيَسْمَعُهُ أَهْلُ الْمَسْجِدِ فَيُكَبِّرُونَ وَيُكَبِّرُ أَهْلُ الْأَسْوَاقِ حَتَّى تَرْتَجَّ مِنًى تَكْبِيرًا وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُكَبِّرُ بِمِنًى تِلْكَ الْأَيَّامَ وَخَلْفَ الصَّلَوَاتِ وَعَلَى فِرَاشِهِ وَفِي فُسْطَاطِهِ وَمَجْلِسِهِ وَمَمْشَاهُ تِلْكَ الْأَيَّامَ جَمِيعًا وَكَانَتْ مَيْمُونَةُ تُكَبِّرُ يَوْمَ النَّحْرِ وَكُنَّ النِّسَاءُ يُكَبِّرْنَ خَلْفَ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ، وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ لَيَالِيَ التَّشْرِيقِ مَعَ الرِّجَالِ فِي الْمَسْجِدِ.
‏‏‏‏ اور عمر رضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے ڈیرے کے اندر تکبیر کہتے تو مسجد میں موجود لوگ اسے سنتے اور وہ بھی تکبیر کہنے لگتے پھر بازار میں موجود لوگ بھی تکبیر کہنے لگتے اور سارا منیٰ تکبیر سے گونج اٹھتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما منیٰ میں ان دنوں میں نمازوں کے بعد، بستر پر، خیمہ میں، مجلس میں، راستے میں اور دن کے تمام ہی حصوں میں تکبیر کہتے تھے اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا دسویں تاریخ میں تکبیر کہتی تھیں اور عورتیں ابان بن عثمان اور عبدالعزیز کے پیچھے مسجد میں مردوں کے ساتھ تکبیر کہا کرتی تھیں۔

حدیث نمبر: 970
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا مالك بن انس، قال: حدثني محمد بن ابي بكر الثقفي، قال: سالت انسا ونحن غاديان من منى إلى عرفات عن التلبية، كيف كنتم تصنعون مع النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال:" كان يلبي الملبي لا ينكر عليه ويكبر المكبر فلا ينكر عليه".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الثَّقَفِيّ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسًا وَنَحْنُ غَادِيَانِ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَاتٍ عَنِ التَّلْبِيَةِ، كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:" كَانَ يُلَبِّي الْمُلَبِّي لَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ وَيُكَبِّرُ الْمُكَبِّرُ فَلَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک بن انس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن ابی بکر ثقفی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے تلبیہ کے متعلق دریافت کیا کہ آپ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اسے کس طرح کہتے تھے۔ اس وقت ہم منیٰ سے عرفات کی طرف جا رہے تھے، انہوں نے فرمایا کہ تلبیہ کہنے والے تلبیہ کہتے اور تکبیر کہنے والے تکبیر۔ اس پر کوئی اعتراض نہ کرتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Muhammad bin Abi Bakr Al-Thaqafi: While we were going from Mina to `Arafat, I asked Anas bin Malik, about Talbiya, "How did you use to say Talbiya in the company of the Prophet?" Anas said: "People used to say Talbiya and their saying was not objected to and they used to say Takbir and that was not objected to either. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 15, Number 87


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري970أنس بن مالكيلبي الملبي لا ينكر عليه ويكبر المكبر فلا ينكر عليه
   صحيح البخاري1659أنس بن مالكيهل منا المهل فلا ينكر عليه ويكبر منا المكبر فلا ينكر عليه
   صحيح مسلم3097أنس بن مالكيهل المهل منا فلا ينكر عليه ويكبر المكبر منا فلا ينكر عليه
   صحيح مسلم3098أنس بن مالكمنا المكبر ومنا المهلل ولا يعيب أحدنا على صاحبه
   سنن النسائى الصغرى3003أنس بن مالكالملبي يلبي فلا ينكر عليه ويكبر المكبر فلا ينكر عليه
   سنن النسائى الصغرى3004أنس بن مالكمنهم المهل ومنهم المكبر فلا ينكر أحد منهم على صاحبه
   سنن ابن ماجه3008أنس بن مالكمنا من يكبر ومنا من يهل فلم يعب هذا على هذا ولا هذا على هذا وربما قال هؤلاء على هؤلاء ولا هؤلاء على هؤلاء
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم322أنس بن مالكيهل المهل منا فلا ينكر عليه، ويكبر المكبر فلا ينكر عليه
   بلوغ المرام619أنس بن مالككان يهل منا المهل فلا ينكر عليه ويكبر منا المكبر فلا ينكر عليه
   بلوغ المرام619أنس بن مالكيهل منا المهل فلا ينكر عليه ويكبر منا المكبر فلا ينكر عليه
   مسندالحميدي1245أنس بن مالكغدونا في هذا اليوم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من منى إلى عرفة، فمنا المكبر ومنا الملبي، لا يعيب ذلك بعضنا على بعض

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 970 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 970  
حدیث حاشیہ:
لفظ منیٰ کی تحقیق حضرت علامہ قسطلانی شارح بخاری ؒ کے لفظوں میں یہ ہے:
منى بکسر المیم یذکر ویؤنث فإن قصد الموضع فمذکر ویکتب بالألف وینصرف وإن قصد البقعة فمؤنث ولا ینصرف ویکتب بالیاء والمختارتذکیرہ۔
یعنی لفظ منا میم کے زیر کے ساتھ اگر اس سے منا موضع مراد لیا جائے تو یہ مذکر ہے اور منصرف ہے اور یہ الف کے ساتھ (منا)
لکھا جائے گا اور اگر اس سے مراد بقعہ (مقام خاص)
لیا جائے تو پھر یہ مؤنث ہے اور لفظ یاءکے ساتھ منی لکھا جائے گا مگر مختار یہی ہے کہ یہ مذکر ہے اور منا کے ساتھ اس کی کتابت بہتر ہے۔
پھر فرماتے ہیں:
وسمي منی لما یمنی فیي أي یراق من الدماء۔
یعنی یہ مقام لفظ منی سے اس لیے موسوم ہوا کہ یہاں خون بہانے کا قصد ہوتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 970   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:970  
حدیث حاشیہ:
(1)
عیدین کی روح یہی ہے کہ ان میں بآواز بلند اللہ کی کبریائی اور اس کی عظمت کا اظہار کیا جائے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان (ذوالحجہ کے)
دنوں تلبیہ ترک کر دی جائے بلکہ تلبیہ کے ساتھ تکبیرات بھی بآواز بلند کہی جائیں۔
ان دنوں تکبیرات نویں ذوالحجہ سے شروع کر کے تیرہ ذوالحجہ تک ہیں۔
ہاں! اگر کوئی بارہ ذوالحجہ کو واپس آنا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایام منیٰ میں تکبیرات ہر وقت کہی جائیں، نمازوں کے بعد، خواہ وہ نفل ہوں یا فرض۔
اسی طرح مردوزن، مقیم و مسافر، الغرض ہر آدمی ہر حالت میں تکبیرات کہے۔
امام بخاری ؒ نے اس کے لیے کوئی استثناء نہیں کیا بلکہ اس حکم کو عام رکھا ہے جیسا کہ آپ کے پیش کردہ آثار سے بھی واضح ہے۔
(3)
یہ تکبیرات تشریق کہلاتی ہیں، البتہ یوم عرفہ کے دن منیٰ سے عرفات جاتے وقت تلبیہ کہنا بھی درست ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے کتاب الحج میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
(باب التلبية والتكبير إذا غدا من منى إلى عرفة)
منیٰ سے عرفہ جاتے وقت تلبیہ و تکبیر کہنے کا بیان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 970   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 322  
´آثار سلف صالحین سے استدلال جائز ہے`
«. . . مالك عن محمد بن ابى بكر الثقفي: انه سال انس بن مالك وهما غاديان من منى إلى عرفة: كيف كنتم تصنعون فى مثل هذا اليوم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: كان يهل المهل منا فلا ينكر عليه، ويكبر المكبر فلا ينكر عليه . . .»
. . . محمد بن ابی بکر الثقفی رحمہ اللہ نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس وقت پوچھا: جب وہ دونوں صبح کے وقت منیٰ سے عرفات جا رہے تھے: آپ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا؛ ہم میں سے بعض لوگ لبیک کہتے تھے تو اس کا انکار نہیں کیا جاتا تھا اور بعض لوگ تکبیر کہتے تھے تو اس کا انکار نہیں کیا جاتا تھا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 322]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1659، ومسلم 1285، من حديث مالك به]

تفقه
➊ حاجی آٹھ (8) ذوالحجہ کو حج کی ادائیگی کے لئے منٰی (مکہ کی ایک وادی) میں پہنچ جاتے ہیں۔ پھر اگلے دن نو (9) ذوالحجہ کو منٰی سے عرفات جاتے ہیں۔
➋ منٰی سے عرفات جاتے وقت لبیک کہنا اور تکبیریں پڑھنا دونوں طرح جائز ہے۔
➌ جائز امور میں دوسرے بھائیوں کا رد نہیں کرنا چاہئے۔
➍ جو مسئلہ معلوم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھ لینا چاہئے۔
➎ علماء کو چاہئے کہ جواب قرآن و حدیث اور ادلۂ شرعیہ سے دیں۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ کرام کے عمل سے استدلال کرنا جائز ہے بشرطیکہ یہ عمل کسی واضح وصحیح نص (دلیل) کے خلاف نہ ہو۔
➐ حج و عمرہ میں تلبیہ و تکبیر بلند آواز سے ہونی چاہئے۔
➑ آثار سلف صالحین سے استدلال جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 100   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 619  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ «لا إله إلا الله» کہتے تھے، اسے بھی برا نہیں سمجھا جاتا تھا اور بعض ہم میں سے تکبیریں کہتے تھے ان کو بھی برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 619]
619 فائدہ:
اس حدیث میں منیٰ سے عرفات جانے کی کیفیت کا بیان ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس مقام پر تلبیہ کی جگہ تکبیر کہنا بھی صحیح اور درست ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 619   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3008  
´(نویں ذی الحجہ کی) صبح سویرے منیٰ سے عرفات جانے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ سے عرفات کے لیے چلے، تو ہم میں سے کچھ لوگ اللہ اکبر کہتے تھے اور کچھ لوگ لبیک پکارتے تھے، تو اس نے نہ اس پر عیب لگایا اور نہ اس نے اس پر، اور بسا اوقات انہوں نے یوں کہا: نہ انہوں نے ان لوگوں پر عیب لگایا، اور نہ ان لوگوں نے ان پر۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3008]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
منی سے عرفات جاتے وقت لبیک پکارنا بھی جائز ہے اور تکبیرات کہنا بھی۔

(2)
یہ بھی درست ہے کہ آدمی کچھ دیر لبیک پڑھے اور کچھ دیر تکبیرات کہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3008   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1245  
1245- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: آج کے دن ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ سے عرفہ کی طرف روانہ ہوئے تھے، ہم میں سے کچھ لوگ تکبیر کہہ رہے تھے اور کچھ لوگ تلبیہ پڑھ رہے تھے اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو غلط نہیں سمجھ رہا تھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1245]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ منٰی سے عرفہ کی طرف صبح کے وقت جانا چاہیے، اور منٰی سے عرفہ جاتے وقت تکبیر اور تلبیہ دونوں میں سے کوئی بھی چیز پڑھ سکتا ہے، اور جو کوئی اچھا کام کرے اس پر عیب نہیں لگانا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1243   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3098  
محمد بن ابی بکر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرفہ کی صبح، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا، آپ اس دن تلبیہ کہنے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا، میں نے یہ مسافت یا سفر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے ساتھ طے کیے ہے ہم میں سے کوئی (اَللہُ اَکْبَر) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3098]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
منیٰ سے عرفات کی طرف جاتے ہوئے،
تلبیہ،
تکبیر اور (لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللہ)
کہنا درست ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3098   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1659  
1659. حضرت محمد بن ابی بکر ثقفی سے روایت ہے، انھوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے دریافت کیا، جب یہ دونوں منیٰ سے عرفات کی طرف جارہے تھے آپ حضرات رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جاتے وقت اس دن کیا کرتے تھے؟حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ ہم میں سے کچھ تلبیہ کہتے تھے، انھیں کوئی بُرا نہیں کہتا تھا جبکہ کچھ اللہ أکبر کہتے تھے، انھیں بھی کوئی بُرا خیال نہیں کرتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1659]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے یہ حدیث کتاب العیدین میں بھی ذکر کی ہے اور وہاں بایں الفاظ عنوان قائم کیا تھا:
(باب التكبير أيام منى و إذا غدا إلی عرفة)
منیٰ میں قیام کے وقت اور عرفہ جاتے ہوئے اللہ أکبر کہنا۔
(2)
ایک روایت میں ہے کہ راوی حدیث عبداللہ بن ابو سلمہ نے عبیداللہ سے کہا:
مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ تم لوگ رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے متعلق دریافت نہیں کرتے۔
ان کا مطلب یہ تھا کہ مذکورہ حدیث سے اختیار معلوم ہوتا ہے افضل کی نشاندہی نہیں ہوتی، رسول اللہ ﷺ کے عمل سے افضل عمل معلوم ہو گا۔
بہرحال اس وقت تکبیر اور تلبیہ دونوں ہی ثابت ہیں، انسان جسے چاہے اختیار کرے یا دونوں کو عمل میں لے آئے۔
(فتح الباري: 644/3) (3)
دراصل امام بخاری ؒ اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کا موقف ہے کہ حجاج کرام کو میدان عرفات روانگی کے وقت تلبیہ بند کر دینا چاہیے جبکہ یہ موقف حدیث کے خلاف ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1659   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.