(مرفوع) وكان يوم عيد يلعب السودان بالدرق والحراب فإما سالت النبي صلى الله عليه وسلم وإما قال: تشتهين تنظرين فقلت: نعم، فاقامني وراءه خدي على خده وهو يقول: دونكم يا بني ارفدة حتى إذا مللت، قال: حسبك، قلت: نعم، قال: فاذهبي".(مرفوع) وَكَانَ يَوْمَ عِيدٍ يَلْعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ فَإِمَّا سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِمَّا قَالَ: تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَأَقَامَنِي وَرَاءَهُ خَدِّي عَلَى خَدِّهِ وَهُوَ يَقُولُ: دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ حَتَّى إِذَا مَلِلْتُ، قَالَ: حَسْبُكِ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاذْهَبِي".
اور یہ عید کا دن تھا۔ حبشہ کے کچھ لوگ ڈھالوں اور برچھوں سے کھیل رہے تھے۔ اب خود میں نے کہا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم یہ کھیل دیکھو گی؟ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔ میرا رخسار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار پر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کھیلو کھیلو اے بنی ارفدہ یہ حبشہ کے لوگوں کا لقب تھا پھر جب میں تھک گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بس!“ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ۔
It was the day of `Id, and the Black people were playing with shields and spears; so either I requested the Prophet (p.b.u.h) or he asked me whether I would like to see the display. I replied in the affirmative. Then the Prophet (p.b.u.h) made me stand behind him and my cheek was touching his cheek and he was saying, "Carry on! O Bani Arfida," till I got tired. The Prophet (p.b.u.h) asked me, "Are you satisfied (Is that sufficient for you)?" I replied in the affirmative and he told me to leave.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2 , Book 15 , Number 70
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 950
حدیث حاشیہ: بعض لوگوں نے کہا کہ حدیث اور ترجمۃ الباب میں مطابقت نہیں۔ وأجاب ابن المنیر في الحاشیة بأن مراد البخاري رحمه اللہ الاستدلال علی أن العید ينتضر فیه من الانبساط مالا ینتضرفي غیرہ ولیس في الترجمة أیضاً تقیید بحال الخروج إلی العید بل الظاھر أن لعب الحبشة إن کان بعد رجوعه صلی اللہ علیه وسلم عن المصلی لأنه کان یخرج أول النھار۔ (فتح الباري) یعنی ابن منیر نے یہ جواب دیا ہے کہ حضرت امام بخاری ؒ کا استدلال اس امر کے لیے ہے کہ عید میں اس قدر مسرت ہوتی ہے جو اس کے غیر میں نہیں ہوتی اور ترجمہ میں حبشیوں کے کھیل کا ذکر عید سے قبل کے لیے نہیں ہے بلکہ ظاہر ہے کہ حبشیوں کا یہ کھیل عیدگاہ سے واپسی پر تھا کیونکہ آنحضرت ﷺ شروع دن ہی میں نماز عید کے لیے نکل جایا کرتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 950
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:950
حدیث حاشیہ: (1) یہ دراصل ایک ہی حدیث ہے۔ چونکہ اس میں دو قسم کے مضامین تھے، اس لیے اس حدیث کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ پہلی حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ انصار کی بچیاں عید کے دن گیت گا رہی تھیں۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 952) ایک روایت میں ہے کہ حج کے موقع پر قیام منیٰ کے دوران میں ایسا ہوا اور وہ گانے کے ساتھ دف بھی بجا رہی تھیں۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 987) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے ابوبکر! ہر قوم کا ایک تہوار ہوتا ہے جس میں وہ خوش ہوتے اور جشن مناتے ہیں اور ہماری عید آج کے دن ہے۔ “(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3931)(2) اس حدیث سے بعض روشن خیال حضرات نے گانے بجانے اور آلات موسیقی کے جائز ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اس کے متعلق ہماری گزارشات یہ ہیں کہ گانے والی بچیاں پیشہ ور گلوکارائیں نہیں تھیں بلکہ وہ اپنے اسلاف کی شجاعت و بہادری پر مشتمل اشعار پڑھ رہی تھیں جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 952) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں گانے بجانے کے فن سے ناواقف تھیں جس طرح عام طور پر گانے بجانے کا کام کرنے والی لڑکیاں واقف ہوا کرتی ہیں۔ مغنیہ اسے کہتے ہیں جو خاص طور پر اپنے فن کے مطابق گائے، جس میں لے اور زیروبم ہوتا ہے جس سے جذبات میں ہیجان پیدا ہوتا ہے اور اس میں فواحش و منکرات کی تصریح یا تعریض ہوتی ہے، جبکہ مذکورہ واقعے میں ایسا نہیں تھا۔ اس حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل شرائط ملحوظ رکھتے ہوئے خوشی کے موقع پر دف بجایا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ اشعار بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔ ٭ دف صرف ایک طرف سے بجائی جاتی ہے اور اس کے بجانے سے سادہ سی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ گھنگرو کی جھنکار نہیں ہوتی۔ ٭ دف بجاتے وقت دیگر آلات موسیقی استعمال نہ کیے جائیں، کیونکہ آلات موسیقی کی حرمت پر قرآن مجید کی واضح نصوص موجود ہیں۔ قرآن کریم نے انہیں "لهو الحدیث" کہہ کر ان سے نفرت کا اظہار کیا ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے قرب قیامت کی یہ علامت بتائی ہے کہ لوگ اسے جائز سمجھ کر استعمال کرنا شروع کر دیں گے۔ ٭ رزمیہ، یعنی شجاعت و بہادری پر مشتمل اشعار ہوں، بزمیہ اشعار، یعنی ہیجان انگیز اور عشقیہ غزلیں نہ گائی جائیں۔ ٭ جوان عورتیں اس میں حصہ نہ لیں بلکہ نابالغ بچیاں اس طرح خوشی کا اظہار کر سکتی ہیں۔ ٭ یہ اہتمام بھی ایسے حلقے میں ہونا چاہیے جہاں اپنے ہی عزیز و اقارب ہوں، اجنبی لوگوں کے سامنے ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ٭ گیت اور اشعار خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ اس قسم کے اشعار پڑھنا حرام اور ناجائز ہے۔ ٭ اس کے باوجود اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو اس طرح کا مباح کام کرنا بھی ناجائز قرار پائے گا۔ مذکورہ شرائط کی پابندی کرتے ہوئے خوشی کے موقع پر دف کے ساتھ اشعار پڑھے جا سکتے ہیں۔ (3) اس حدیث پر ایک دوسرے پہلو سے بھی غور کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بچیوں کے گاتے اور دف بجاتے وقت اپنا چہرہ مبارک دوسری طرف پھیر لیا تھا اور بعض روایات کے مطابق اسے کپڑے سے ڈھانپ لیا تھا، گویا چشم پوشی کے ساتھ اپنی ناپسندیدگی ظاہر فرما دی اور یہ بھی تاثر دیا کہ آپ اس گیت اور دف کی آواز سے کسی طرح بھی محظوظ نہیں ہو رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے حالات میں گانا اور دف بجانا بھی اباحت مرجوح کے درجے میں تھا۔ واللہ أعلم۔ (4) امام بخاری ؒ نے حدیث کے دوسرے حصے سے عنوان کو ثابت کیا ہے کہ عید کے موقع پر ہتھیاروں کی مشق اور اسلحہ کے کھیل جائز ہیں، البتہ اس کے بعد ایک دوسرا عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب ما يكره من حمل السلاح في العيد والحرم) ”عید کے دن اور حرم میں ہتھیار لے جانا مکروہ ہے۔ “ ان دونوں عنوانات میں بظاہر تعارض ہے۔ اسے یوں حل کیا گیا ہے کہ ہتھیاروں سے کھیلنے کی اجازت حالت امن کے ساتھ خاص ہے اور ہتھیار ساتھ لے کر چلنے کی ممانعت بدامنی کے پیش نظر ہے۔ بعض شارحین نے بایں طور تطبیق دی ہے کہ کھیلنے کی اجازت مسجد سے باہر نماز عید سے فراغت کے بعد ہے، عید کے دن اظہار سرور کے پیش نظر ایسا کرنا جائز ہے، البتہ عید کو جاتے وقت یا حرم میں اجتماع کے موقع پر ہتھیار لے کر چلنا منع ہے مبادا بے پروائی میں کسی کو نقصان پہنچ جائے۔ (5) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورتوں کا اجنبی مردوں کی جہادی مشقیں دیکھنا جائز ہے، کیونکہ ناجائز وہ نظر ہے جو غیر مردوں کے محاسن کی طرف ہو یا بطور لذت کے ہو، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب نظر المرأة إلی الحبش و نحوهم من غير ريبة) ”کسی قسم کے شک و شبہ کے بغیر عورت کا اہل حبشہ اور دوسرے لوگوں کو دیکھنا“ واضح رہے کہ اس وقت پردے کے احکام بھی نازل ہو چکے تھے۔ جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنی چادر سے چھپا رکھا تھا۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 454)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 950
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2065
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر میں) داخل ہوئے جبکہ میرے پاس دو بچیاں جنگ بعاث کے اشعار بلند آواز سے سنا رہی تھیں۔ آپ بستر پرلیٹ گئے اور اپنا چہرہ پھیر لیا۔ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے۔ تو انھوں نے مجھے سرزنش کی اور کہا: شیطانی آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا: ”انھیں چھوڑیئے“ جب ان کی توجہ ہٹی تو میں ان کو اشارہ کیا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2065]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) دَرَق: درقة کی جمع ہے چمڑے کی ڈھال، حِرَاب، حَربة کی جمع بھالا، چھوٹا نیزہ۔ (2) بنو ارفده: حبشیوں کا لقب ہے۔