صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: نماز خوف کا بیان
The Book of Salat-Ul-Khauf (Fear Prayer).
4. بَابُ الصَّلاَةِ عِنْدَ مُنَاهَضَةِ الْحُصُونِ وَلِقَاءِ الْعَدُوِّ:
4. باب: اس بارے میں کہ اس وقت (جب دشمن کے) قلعوں کی فتح کے امکانات روشن ہوں اور جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو رہی ہو تو اس وقت نماز پڑھنے کا حکم۔
(4) Chapter. Salat at the time of besieging a fort and at the time of meeting the enemy.
حدیث نمبر: Q945-2
Save to word اعراب English
وقال الاوزاعي: إن كان تهيا الفتح ولم يقدروا على الصلاة صلوا إيماء كل امرئ لنفسه، فإن لم يقدروا على الإيماء اخروا الصلاة حتى ينكشف القتال او يامنوا فيصلوا ركعتين، فإن لم يقدروا صلوا ركعة وسجدتين، فإن لم يقدروا لا يجزئهم التكبير ويؤخروها حتى يامنوا وبه، قال مكحول:وَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: إِنْ كَانَ تَهَيَّأَ الْفَتْحُ وَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَى الصَّلَاةِ صَلَّوْا إِيمَاءً كُلُّ امْرِئٍ لِنَفْسِهِ، فَإِنْ لَمْ يَقْدِرُوا عَلَى الْإِيمَاءِ أَخَّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّى يَنْكَشِفَ الْقِتَالُ أَوْ يَأْمَنُوا فَيُصَلُّوا رَكْعَتَيْنِ، فَإِنْ لَمْ يَقْدِرُوا صَلَّوْا رَكْعَةً وَسَجْدَتَيْنِ، فَإِنْ لَمْ يَقْدِرُوا لَا يُجْزِئُهُمُ التَّكْبِيرُ وَيُؤَخِّرُوهَا حَتَّى يَأْمَنُوا وَبِهِ، قَالَ مَكْحُولٌ:
اور امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا کہ جب فتح سامنے ہو اور نماز پڑھنی ممکن نہ رہے تو اشارہ سے نماز پڑھ لیں۔ ہر شخص اکیلے اکیلے اگر اشارہ بھی نہ کر سکیں تو لڑائی کے ختم ہونے تک یا امن ہونے تک نماز موقوف رکھیں، اس کے بعد دو رکعتیں پڑھ لیں۔ اگر دو رکعت نہ پڑھ سکیں تو ایک ہی رکوع اور دو سجدے کر لیں اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو صرف تکبیر تحریمہ کافی نہیں ہے، امن ہونے تک نماز میں دیر کریں۔ مکحول تابعی کا یہ قول ہے۔

حدیث نمبر: Q945
Save to word اعراب English
وقال انس بن مالك: حضرت عند مناهضة حصن تستر عند إضاءة الفجر واشتد اشتعال القتال فلم يقدروا على الصلاة فلم نصل إلا بعد ارتفاع النهار فصليناها ونحن مع ابي موسى ففتح لنا، وقال انس بن مالك: وما يسرني بتلك الصلاة الدنيا وما فيها.وَقَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: حَضَرْتُ عِنْدَ مُنَاهَضَةِ حِصْنِ تُسْتَرَ عِنْدَ إِضَاءَةِ الْفَجْرِ وَاشْتَدَّ اشْتِعَالُ الْقِتَالِ فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَى الصَّلَاةِ فَلَمْ نُصَلِّ إِلَّا بَعْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ فَصَلَّيْنَاهَا وَنَحْنُ مَعَ أَبِي مُوسَى فَفُتِحَ لَنَا، وَقَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: وَمَا يَسُرُّنِي بِتِلْكَ الصَّلَاةِ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا.
اور انس بن مالک نے کہا کہ صبح روشنی میں تستر کے قلعہ پر جب چڑھائی ہو رہی تھی اس وقت میں موجود تھا۔ لڑائی کی آگ خوب بھڑک رہی تھی تو لوگ نماز نہ پڑھ سکے۔ جب دن چڑھ گیا اس وقت صبح کی نماز پڑھی گئی۔ ابوموسیٰ اشعری بھی ساتھ تھے پھر قلعہ فتح ہو گیا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس دن جو نماز ہم نے پڑھی (گو وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھی) اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ ساری دنیا ملنے سے اتنی خوشی نہ ہو گی۔

حدیث نمبر: 945
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى، قال: حدثنا وكيع، عن علي بن مبارك، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة، عن جابر بن عبد الله، قال: جاء عمر يوم الخندق فجعل يسب كفار قريش ويقول: يا رسول الله ما صليت العصر حتى كادت الشمس ان تغيب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" وانا والله ما صليتها بعد، قال: فنزل إلى بطحان فتوضا وصلى العصر بعد ما غابت الشمس، ثم صلى المغرب بعدها".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُبَارَكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَ عُمَرُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ وَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا صَلَّيْتُ الْعَصْرَ حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ أَنْ تَغِيبَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَأَنَا وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا بَعْدُ، قَالَ: فَنَزَلَ إِلَى بُطْحَانَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَابَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ بَعْدَهَا".
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا کہ ہم سے وکیع نے علی بن مبارک سے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ عمر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے دن کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے آئے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ! سورج ڈوبنے ہی کو ہے اور میں نے تو اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخدا میں نے بھی ابھی تک نہیں پڑھی انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ بطحان کی طرف گئے (جو مدینہ میں ایک میدان تھا) اور وضو کر کے آپ نے وہاں سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jabir bin `Abdullah: On the day of the Khandaq `Umar came, cursing the disbelievers of Quraish and said, "O Allah's Apostle! I have not offered the `Asr prayer and the sun has set." The Prophet replied, "By Allah! I too, have not offered the prayer yet. "The Prophet then went to Buthan, performed ablution and performed the `Asr prayer after the sun had set and then offered the Maghrib prayer after it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 14, Number 67


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري945جابر بن عبد اللهنزل إلى بطحان فتوضأ وصلى العصر بعد ما غابت الشمس ثم صلى المغرب بعدها
   صحيح البخاري641جابر بن عبد اللهنزل النبي إلى بطحان وأنا معه فتوضأ ثم صلى يعني العصر بعد ما غربت الشمس ثم صلى بعدها المغرب
   صحيح البخاري4112جابر بن عبد اللهنزلنا مع النبي بطحان فتوضأ للصلاة وتوضأنا لها فصلى العصر بعدما غربت الشمس ثم صلى بعدها المغرب
   سنن النسائى الصغرى1367جابر بن عبد اللهنزلنا مع رسول الله إلى بطحان فتوضأ للصلاة وتوضأنا لها فصلى العصر بعد ما غربت الشمس ثم صلى بعدها المغرب

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 945 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 945  
حدیث حاشیہ:
باب کا ترجمہ اس حدیث سے نکلا کہ آنحضرت ﷺ کو لڑائی میں مصروف رہنے سے بالکل نماز کی فرصت نہ ملی تھی تو آپ نے نماز میں دیر کی۔
قسطلانی ؒ نے کہا ممکن ہے کہ اس وقت تک خوف کی نماز کا حکم نہیں اترا ہوگا۔
یا نماز کا آپ کو خیال نہ رہا ہو گا یا خیال ہو گا مگر طہارت کرنے کا موقع نہ ملا ہو گا۔
وقيل:
أخرها عمداً؛ لأنه كانت قبل نزول صلاة الخوف، ذهب إليه الجمهور، كما قال ابن رشد، وبه جزم ابن القيم في الهدي، والحافظ في الفتح، والقرطبي في شرح مسلم، وعياض في الشفاء، والزيلعي في نصب الراية، وابن القصار. وهذا هو الراجح عندنا. (مرعاة المفاتیح، ج: 2، ص318)
یعنی کہا گیا (شدت جنگ کی وجہ سے)
آپ ﷺ نے عمدا نماز عصر کو مؤخر فرمایا، اس لیے کہ اس وقت تک صلوۃ خوف کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔
بقول ابن رشد جمہور کا یہی قول ہے اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس خیال پر جزم کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اور قرطبی نے شرح مسلم میں اور قاضی عیاض نے شفاءمیں اور زیلعی نے نصب الرایہ میں اور ابن قصار نے اسی خیال کو ترجیح دی ہے اور حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مؤلف مرعاۃ المفاتیح فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک بھی اسی خیال کو ترجیح حاصل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 945   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:945  
حدیث حاشیہ:
(1)
غزوۂ خندق کے موقع پر نماز عصر مؤخر کر دینے کی کئی ایک وجوہات ممکن ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ سہو و نسیان کی بنا پر ایسا ہوا کہ نماز پڑھنے کا خیال نہ آیا۔
٭ درج ذیل وجوہات کی بنا پر دانستہ ایسا کیا-
٭ جنگی مصروفیات کی وجہ سے نماز پڑھنے کا موقع نہ مل سکا۔
٭ حالات کی سنگینی کی وجہ سے وضو کا وقت میسر نہ آ سکا۔
٭ نماز خوف کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔
امام بخاری ؒ کے نزدیک نماز خوف کے احکام نازل ہو چکے تھے لیکن جنگی مصروفیات کی وجہ سے نماز باجماعت یا الگ الگ پڑھنے کا موقع نہ مل سکا اور نہ اشارے ہی سے پڑھنے کی قدرت تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے نماز عصر کو مؤخر کر دیا۔
(2)
اس سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ جنگی مصروفیات کی وجہ سے اگر نماز باجماعت پڑھنے کی قدرت نہ ہو تو الگ الگ ہر شخص اشارے سے پڑھ لے۔
اگر اشارے سے نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو نماز کو مؤخر کر دیا جائے اور حالات کے سازگار ہونے کا انتظار کیا جائے۔
ایسے حالات میں تسبیح، تحلیل اور تکبیر وغیرہ نماز ادا کرنے کے قائم مقام نہیں ہو گی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 945   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1367  
´جب کسی آدمی سے پوچھا جائے تم نے نماز پڑھی؟ تو کیا وہ کہہ سکتا ہے کہ نہیں؟۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے دن سورج ڈوب جانے کے بعد کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نماز نہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا، تو رسول اللہ نے فرمایا: قسم اللہ کی! میں نے بھی نہیں پڑھی ہے، چنانچہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی بطحان میں اترے، پھر آپ نے نماز کے لیے وضو کیا، اور ہم نے بھی وضو کیا پھر آپ نے سورج ڈوب جانے کے باوجود (پہلے) عصر پڑھی، پھر اس کے بعد مغرب پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1367]
1367۔ اردو حاشیہ:
➊ باب کا مقصد دراصل کچھ فقہاء کے اس خیال کی تردید ہے کہ اگر نماز نہ پڑھی ہو تو یوں نہ کہے: میں نے نماز نہیں پڑھی۔ بلکہ یوں کہے: ابھی پڑھنی ہے۔ کیونکہ پہلے جملے میں کچھ بے نیازی سی جھلکتی ہے، جب کہ دوسرے جملے میں اپنی کوتاہی کا اعتراف اور تلافی کا عزم ہے۔ امام صاحب کا خیال ہے کہ اس طرح بھی کہہ سکتا ہے۔ یہ حدیث دلیل ہے۔
➋ فوت شدہ نمازوں کی جماعت کرانا مشروع ہے، نیز اگر فوت شدہ نمازیں ایک سے زیادہ ہوں تو انہیں ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1367   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 641  
641. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر حضرت عمر بن خطاب نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں نماز نہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہو گیا۔ یہ گفتگو روزے دار کے روزہ افطار کرنے کے بعد ہوئی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں بھی نماز نہیں پڑھ سکا۔ چنانچہ آپ نیچے اترے اور وادی بطحان میں چلے، میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ آپ نے وضو کیا اور آفتاب غروب ہونے کے بعد پہلے نماز عصر پڑھی، اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کی [صحيح بخاري، حديث نمبر:641]
حدیث حاشیہ:
یہ باب لاکر امام بخاری ؒ نے حضرت ابراہیم نخعی ؒ کا ردکیاہے۔
جنھوں نے یہ کہنا مکروہ قرار دیا کہ یوں کہاجائے کہ ہم نے نماز نہیں پڑھی۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ ابراہیم نے یہ کہنا اس شخص کے لیے مکروہ جانا جو نماز کا انتظار کررہاہو۔
کیونکہ وہ گویا نماز ہی میں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 641   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:641  
641. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر حضرت عمر بن خطاب نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں نماز نہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہو گیا۔ یہ گفتگو روزے دار کے روزہ افطار کرنے کے بعد ہوئی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں بھی نماز نہیں پڑھ سکا۔ چنانچہ آپ نیچے اترے اور وادی بطحان میں چلے، میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ آپ نے وضو کیا اور آفتاب غروب ہونے کے بعد پہلے نماز عصر پڑھی، اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کی [صحيح بخاري، حديث نمبر:641]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ بعض اوقات ایک ایسا عنوان قائم کرتے ہیں جس کا بظاہر کوئی فائدہ معلوم نہیں ہوتا جیسا کہ اس عنوان کے متعلق کہا جاتا ہے لیکن جب غور کیا جاتا ہے تو اس کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔
قبل ازیں حضرت ابن سیرین ؒ کے متعلق امام بخاری ؒ نے بیان کیا تھا کہ وہ ان الفاظ کو ناپسند کرتے ہیں کہہماری نماز رہ گئی۔
اسی طرح امام ابراہیم نخی ؒ کہتے ہیں کہہم نے نماز نہیں پڑھی کہنا مکروہ ہے کیونکہ یہ ایک قسم کی بے اعتنائی ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید فرمائی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ بوقت ضرورت ایسے الفاظ ادا کرنے میں چند حرج نہیں۔
اگرچہ مذکورہ روایت کے مطابق حضرت عمر ؓ نے یہ الفاظ استعمال نہیں فرمائے، لیکن ان کا مقولہ مفہوم اور نتیجے کے اعتبار سے (ما صليت)
میں نے نماز نہیں پڑھی ہی کے معنی دے رہا ہے۔
دراصل امام بخاری ؒ کا محل استدلال ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں جس میں وضاحت کے ساتھ حضرت عمر ؓ نے (ما صليت)
کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
(صحیح البخاري، صلاة الخوف، حدیث: 945)
مذکورہ روایت میں بھی رسول اللہ ﷺ نے (ما صليت)
کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
(2)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ امام بخارى ؒ اللہ اس سے تہذیب الفاظ کا سبق دینا چاہتے ہیں لیکن اگر استدلال رسول اللہ ﷺ کے ارشاد (والله ما صليتها)
سے ہوتا تو زیادہ مناسب تھا۔
علامہ ابن بطال ؒ نے حضرت امام نخعی ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ نے اس قسم کے الفاظ اس شخص کے لیے مکروہ خیال کیے ہیں جو نماز کے انتظار میں ہو کیونکہ حدیث کے مطابق نماز کا انتظار کرنے والا نماز ہی میں ہوتا ہے، اس لیے اسے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں نے نماز نہیں پڑھی، کیونکہ اس سے ایک ایسی چیز کا انکار لازم آتا ہے جسے شریعت نے ثابت کیا ہے۔
(شرح ابن بطال: 267/1)
ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ ایسے الفاظ کا استعمال اس شخص کے لیے جائز قرر یتے ہوں جو بھول کر نماز چھوڑ بیٹھا ہو یا کسی ہنگامی اور جنگی حالات کی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکا ہو، وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے نماز نہیں پڑھی۔
امام ابراہیم نخعی ؒ بھی علي الاطلاق اس کی کراہت کے قائل نہیں ہیں۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 641   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4112  
4112. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ خندق کے دن حضرت عمر ؓ سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں تو نماز نہیں پڑھ سکا تا آنکہ سورج غروب ہو گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے بھی نماز عصر نہیں پڑھی۔ اس کے بعد ہم نبی ﷺ کے ہمراہ وادی بطحان میں ٹھہرے اور آپ نے نماز کے لیے وضو کیا تو ہم نے بھی نماز کے لیے وضو کیا۔ پھر آپ نے سورج غروب ہونے کے بعد نماز عصر پڑھی۔ پھر اس کے بعد آپ نے نماز مغرب ادا کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4112]
حدیث حاشیہ:

صلوۃ وسطیٰ کے متعلق صراحت ہے کہ اس سے مراد نمازِعصر ہے۔
رسول اللہ ﷺ کو اس نماز کے فوت ہونے کی اس قدر تکلیف تھی کہ آپ نے مشرکین پر بددعا فرمائی۔
(صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6396)
ایک روایت میں ہے:
مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کو ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کی ادائیگی سے مصروف رکھا، چنانچہ آپ نے یہ تمام نمازیں ترتیب کے مطابق یکجا کرکے پڑھیں۔
(سنن النسائي، الأذان، حدیث: 663)

ان مختلف روایات سے میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ جنگ خندق کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا، کسی دن پانچوں رہ گئیں اور کسی دن نمازِ عصر بروقت نہ پڑھ سکے۔
(شرح نووي: 111/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4112   

  الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 641  
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے دن حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! قسم اللہ کی سورج غروب ہونے کو ہی تھا کہ میں اب عصر کی نماز پڑھ سکا ہوں۔ آپ جب حاضر خدمت ہوئے تو روزہ افطار کرنے کا وقت آ چکا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم اللہ کی میں نے بھی تو نماز عصر نہیں پڑھی ہے۔ پھر... [صحيح بخاري ح: 641]
فائدہ:
اس حدیث کی شرح (596) میں ملاحظہ فرمائیں۔ بظاہر اس باب کا کوئی فائدہ معلوم نہیں ہوتا مگر دراصل ایسے ابواب سے امام بخاری کسی شخص کی کسی بات کا رو کر رہے ہوتے ہیں، جیسا کہ اس سے پہلے ابن سیرین کے اس قول کا حدیث کے ساتھ رد کیا تھا کہ ہم سے نماز رہ گئی۔ یہاں فتح الباری میں ابراہیم نخعی کا قول ذکر کیا ہے کہ یہ کہنا مکروہ ہے کہ ہم نے نماز نہیں پڑھی۔ ان کے خیال میں اس سے نماز تے بے امتنائی کا اظہار ہوتا ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ باب میں ہے آدمی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنا جب کہ اس حدیث میں کسی آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی (عمر رضی اللہ عنہ) سے کہا: «وَاللهِ! مَا صَلَّيْتُهَا» اللہ کی قسم! میں نے بھی نماز نہیں پڑھی۔ جواب اس کا یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ وہ حدیث کے کسی اور طریق کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں، چنانچہ صحیح بخاری میں اسی حدیث میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ کہے: «يَا رَسُولَ اللهِ مَا صَلَّيْتُ الْعَصْرَ حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ أَنْ تَغِيْبَ» [بخاري: 945] یا رسول اللہ! میں نے عصر نہیں پڑھی، یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہو گیا۔ خلاصہ یہ کہ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ہم نے نماز نہیں پڑھی، خصوصاً اس لیے کہ اس حدیث میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کہے ہیں۔
   فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 641   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.