ہم سے محمد بن مسکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بشر بن بکر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ انصاری نے، ان سے ان کے والد ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں، میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز لمبی کروں لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کہ مجھے اس کی ماں کو تکلیف دینا برا معلوم ہوتا ہے۔
Narrated `Abdullah bin Abi Qatada Al-Ansari: My father said, "Allah's Apostle said, "Whenever I stand for prayer, I want to prolong it but on hearing the cries of a child, I would shorten it as I dislike to put its mother in trouble."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 827
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 868
حدیث حاشیہ: فأتجوز أي فأخفف قال ابن سابط التجوز ھھنا یراد به تقلیل القراءة والدلیل علیه مارواہ ابن أبي شیبة أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قرأ في الرکعة الأولی بسورة نحو ستین آیة فسمع بکاء صبي فقرأ في الثانیة بثلاث آیات ومطابقة الحدیث للترجمة تفھم من قوله کراھیة أن أشق علی أمة لأنه یدل علی حضور النساء إلی المساجد مع النبي صلی اللہ علیه وسلم وھو أعم من أن یکون باللیل أو بالنھار قاله العینی۔ (حاشیہ بخاری شریف، ص: 120) یعنی یہاں تخفیف کرنے سے قرات میں تخفیف مراد ہے جیسا کہ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ آنحضرت نے پہلی رکعت میں تقریباً ساٹھ آیتیں پڑھیں جب کسی بچے کارونا معلوم ہوا تو دوسری رکعت میں آپ نے صرف تین آیتوں پر اکتفافرمایااور باب اور حدیث میں مطابقت اس سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں عورتوں کی تکلیف کو مکروہ جانتاہوں۔ معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عورتیں مساجد میں حاضر ہوا کرتی تھیں رات ہو یا دن یہ عام ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 868
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 789
´کسی حادثہ کے پیش آ جانے پر نماز ہلکی کر دینے کا بیان۔` ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ اسے لمبی کروں پھر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں، تو اسے مختصر کر دیتا ہوں، اس اندیشہ سے کہ میں اس کی ماں کو مشقت میں نہ ڈال دوں۔“[سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 789]
789۔ اردو حاشیہ: ➊ نماز کو طویل کر کے خشوع و خضوع سے پڑھنا مستحب ہے، مگر امام کے لئے شرط ہے کہ اپنے مقتدیوں میں سے کمزور افراد کا خیال رکھے۔ ➋ نماز میں کسی مستحب عمل کی نیت کر کے اسے پورا کرنا لازمی نہیں ہے، نیت میں اسی طرح کی تبدیلی جائز ہے۔ مثلاًً کسی نے قیام لمبا کرنے کی نیت کی تو اسے مختصر کر دیا، کھڑے ہو کر نفل پڑھنے کی نیت کی تو ضروری نہیں کہ کھڑے ہو کر مکمل کرے۔ بیٹھ کر بھی مکمل کر سکتا ہے۔ ➌ عورتیں بھی جماعت میں شامل ہوں تو بہتر ہے اور چھوٹے بچوں کو بھی مسجد میں لایا جا سکتا ہے۔ ➍ نماز کو ہلکا کرنے سے مراد یہ ہے کہ قرأت مختصر اور دیگر اذکار کو مناسب حد تک کم کر دیا جائے نہ کہ ارکان نماز کو جلدی جلدی اداکیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 789
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 826
´امام نماز کتنی ہلکی پڑھے؟` ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں اور بچوں کا رونا سنتا ہوں تو اپنی نماز ہلکی کر دیتا ہوں، اس ڈر سے کہ میں اس کی ماں کو مشقت میں نہ ڈال دوں۔“[سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 826]
826 ۔ اردو حاشیہ: ➊ فرض نماز ہر ایک نے باجماعت پڑھنی ہوتی ہے لوگ ہر قسم کے ہوتے ہیں ان میں معذور بھی ہو سکتے ہیں فطرتاً کمزور بھی مریض وغیرہ بھی بوڑھے بھی بچے بھی بچوں والی عورتیں بھی کام کاج کرنے والے لوگ بھی اور مصروفیت والے بھی لہٰذا امام کو چاہیے کہ فرض نماز ہلکی پڑھائے۔ اس قدر کہ مندرجہ بالا نمازی بھی آسانی سے نماز ادا کرسکیں۔ دل تنگ نہ ہوں ورنہ نماز کا مقصد فوت ہو جائے گا البتہ نفل نماز جو ہر ایک پر ضروری نہیں بلکہ نشاط پر موقوف ہے اسے مناسب لمبا کیا جا سکتا ہے مگر اس قدر نہیں کہ نمازی نماز سے بیزار ہو جائے۔ تراویح اگرچہ فرض نہیں مگر امت مسلمہ کا شعار ہے لہٰذا اس میں بھی تخفیف ضروری ہے۔ ➋ اکیلا آدمی اپنی چستی اور نشاط کے مطابق نماز لمبی کر سکتا ہے۔ ➌ کسی مقتدی کی تکلیف کے مدنظر یا کسی حادثے کی بنا پر نماز مختصر کی جا سکتی ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر ہوا۔ اسی طرح نمازیوں کے مفاد میں نماز لمبی بھی کی جا سکتی ہے مثلا: کثیر لوگ وضو کر رہے ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی وجہ سے پہلی رکعت لمبی پڑھایا کرتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 826
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:707
707. حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں نماز شروع کرتا ہوں اسے طول دینا چاہتا ہوں، پھر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز کو مختصر کر دیتا ہوں۔ اس کو ناپسند کرتے ہوئے کہ اس (بچے) کی ماں کو تکلیف میں مبتلا کروں۔“ بشر بن بکر، ابن مبارک اور بقیہ نے امام اوزاعی سے اس روایت کو بیان کرنے میں ولید بن مسلم کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:707]
حدیث حاشیہ: (1) حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا قیام، رکوع اور سجود تقریبا برابر ہوتے تھے، اس لیے نماز میں اعتدال ضروری ہے۔ لیکن اگر نماز شروع کرنے کے بعد کوئی عارضہ پیش آجائے، مثلاً: بچہ رونے لگے یا بارش ہونے لگے تو تخفیف کرنے کی شرعا اجازت ہے یا شروع ہی سے کسی عارضے کی وجہ سے ہلکی نماز پڑھانے کا ارادہ کرے تو بھی جائز ہے۔ اختصار مذکور کی طرح امام کو تطویل کا بھی اختیار ہے، تاکہ لوگ رکعت پالیں لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بعد میں آنے والے کو امام اپنی دوستی یا رفاقت کی وجہ سے یہ رعایت دے۔ اس کے علاوہ بعض فقہاء نے یہ بھی شرط رکھی ہے کہ بعد میں شامل ہونے والوں کو تطویل کی رعایت دینا اس صورت میں ہے کہ پہلے سے شرکائے نماز کو اس کی تطویل سے تکلیف نہ ہو کیونکہ ان کا حق بعد میں آنے والوں سے زیادہ ہے۔ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ تطویل کی رعایت دنیادار اور امراء طبقے کے لیے خاص نہ ہو۔ اگر ایسا کیا گیا تو بعض فقہاء نے اسے شرک تک قرار دیا ہے، کیونکہ اس طرح عبادت میں زیادتی غیراللہ کے لیے ہوگی جبکہ عبادت کا کچھ حصہ بھی غیر اللہ کے لیے جائز نہیں، تاہم نے جن حضرات نے اسے شرک قرار دیا ہے، اس سے مراد شرکِ اصغر، یعنی ریاکاری ہوسکتا ہے۔ (فتح الباري: 263/2) والله أعلم۔ (2) حضرت انس ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے محل تخفیف کی بھی نشاندہی کی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ دوران قیام چھوٹی سورت پڑھ لیتے۔ بعض روایات میں اس کی مقدار بھی بیان ہوئی ہے کہ آپ پہلی رکعت میں لمبی سورت تلاوت فرماتے، پھر بچے کے رونے کی آواز سن کر دوسری رکعت میں تین آیات پڑھ کر رکوع میں چلے جاتے۔ یہ روایت اگرچہ مرسل ہے، تاہم تائید کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔ (فتح الباري: 262/2)(3) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں چند ایک متابعات کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان میں سے بشر بن بکیر کی متابعت خود امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں موصولا بیان کی ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 868) ابن مبارک کی روایت کو امام نسائی نے بیان کیا ہے جبکہ بقیہ بن ولید کی متابعت کا ہمیں علم نہیں ہوسکا۔ (فتح الباري: 262/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 707