صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
50. بَابُ ذِكْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِوَايَتِهِ عَنْ رَبِّهِ:
50. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رب سے روایت کرنا۔
(50) Chapter. What the Prophet (p.b.u.h.) mentioned and narrated of his Lord’s Sayings.
حدیث نمبر: 7540
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن ابي سريج، اخبرنا شبابة، حدثنا شعبة، عن معاوية بن قرة، عن عبد الله بن مغفل المزني، قال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفتح على ناقة له يقرا سورة الفتح، او من سورة الفتح، قال: فرجع فيها، قال: ثم قرا معاوية يحكي قراءة ابن مغفل، وقال: لولا ان يجتمع الناس عليكم لرجعت كما رجع ابن مغفل يحكي النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت لمعاوية: كيف كان ترجيعه؟، قال: آ آ آ ثلاث مرات".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ، أَخْبَرَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ الْمُزَنِيِّ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ عَلَى نَاقَةٍ لَهُ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفَتْحِ، أَوْ مِنْ سُورَةِ الْفَتْحِ، قَالَ: فَرَجَّعَ فِيهَا، قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ مُعَاوِيَةُ يَحْكِي قِرَاءَةَ ابْنِ مُغَفَّلٍ، وَقَالَ: لَوْلَا أَنْ يَجْتَمِعَ النَّاسُ عَلَيْكُمْ لَرَجَّعْتُ كَمَا رَجَّعَ ابْنُ مُغَفَّلٍ يَحْكِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لِمُعَاوِيَةَ: كَيْفَ كَانَ تَرْجِيعُهُ؟، قَالَ: آ آ آ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ".
ہم سے احمد بن ابی سریح نے بیان کیا، کہا ہم کو شبابہ نے خبر دی، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن قرہ نے، ان سے عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنی ایک اونٹنی پر سوار تھے اور سورۃ الفتح پڑھ رہے تھے یا سورۃ الفتح میں سے کچھ آیات پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ نے اس میں ترجیع کی۔ شعبہ نے کہا یہ حدیث بیان کر کے معاویہ نے اس طرح آواز دہرا کر قرآت کی جیسے عبداللہ بن مغفل کیا کرتے تھے اور معاویہ نے کہا اگر مجھ کو اس کا خیال نہ ہوتا کہ لوگ تمہارے پاس جمع ہو کر ہجوم کریں گے تو میں اسی طرح آواز دہرا کر قرآت کرتا جس طرح عبداللہ بن مغفل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح آواز دہرانے کو نقل کیا تھا۔ شعبہ نے کہا میں نے معاویہ سے پوچھا ابن مغفل کیوں کر آواز دہراتے تھے؟ انہوں نے کہا آآآ تین تین بار مد کے ساتھ آواز دہراتے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Shu`ba: Mu'awiya bin Qurra reported that `Abdullah bin Al-Maghaffal Al-Muzani said, "I saw Allah's Apostle on the day of the Conquest of Mecca, riding his she-camel and reciting Surat-al-Fath (48) or part of Surat-al-Fath. He recited it in a vibrating and pleasant voice. Then Mu'awiya recited as `Abdullah bin Mughaffal had done and said, "Were I not afraid that the people would crowd around me, I would surely recite in a vibrating pleasant voice as Ibn Mughaffal did, imitating the Prophet." I asked Muawiya, "How did he recite in that tone?" He said thrice, "A, A , A."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 631


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري5034عبد الله بن مغفليقرأ على راحلته سورة الفتح
   صحيح البخاري5047عبد الله بن مغفليقرأ وهو على ناقته أو جمله وهي تسير به وهو يقرأ سورة الفتح أو من سورة الفتح قراءة لينة يقرأ وهو يرجع
   صحيح البخاري4281عبد الله بن مغفللولا أن يجتمع الناس حولي لرجعت كما رجع
   صحيح البخاري4835عبد الله بن مغفلقرأ النبي يوم فتح مكة سورة الفتح فرجع فيها قال معاوية لو شئت أن أحكي لكم قراءة النبي لفعلت
   صحيح البخاري7540عبد الله بن مغفلعلى ناقة له يقرأ سورة الفتح قال فرجع فيها قال ثم قرأ معاوية يحكي قراءة ابن مغفل وقال لولا أن يجتمع الناس عليكم لرجعت كما رجع ابن مغفل يحكي النبي فقلت لمعاوية كيف كان ترجيعه قال آ آ آ ثلاث مرات
   صحيح مسلم1853عبد الله بن مغفلقرأ النبي عام الفتح في مسير له سورة الفتح على راحلته فرجع في قراءته
   صحيح مسلم1854عبد الله بن مغفلرأيت رسول الله يوم فتح مكة على ناقته يقرأ سورة الفتح
   سنن أبي داود1467عبد الله بن مغفليقرأ بسورة الفتح وهو يرجع

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7540 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7540  
حدیث حاشیہ:
آواز کو دہرا دہرا کر پہلے پست پھر بلند سے پڑھنا ترجیع کہلاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7540   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7540  
حدیث حاشیہ:

آواز کو باربار دہرا کر پہلے پست، پھر بلند آواز سے پڑھنا ترجیع کہلاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس انداز سے قرآن مجید کی تلاوت کرنا اونٹنی پر بیٹھنے کی وجہ سے اضطراری نہیں تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادے اور اختیار سے خوش الحانی کے طور پر یہ انداز اپنایا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع کے علاوہ بھی قرآن مجید کی تلاوت اس انداز سے فرمائی ہے، چنانچہ حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرماتی ہیں کہ میں نےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز قرآن خوانی کو ملاحظہ کیا۔
میں اپنے بستر پر سوئی ہوئی تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ترجیع کے ساتھ قرآن مجید پڑھ رہے تھے۔
(أصل صفة الصلاة للألباني: 568/2 وشرح کتاب التوحید للغنیمان: 581/2)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت ترجیع کو اختیار کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار کیا ہوا اپنا انداز اور فعل تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان اور ہونٹوں کو حرکت دے کر اپنی آواز کو گلے میں بار بار پھیرتے اور کلام باری تعالیٰ کو دہراتے۔
اس انداز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو اپنے رب کا کلام پہنچایا۔
آواز تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔
اور کلام اللہ تعالیٰ کا تھا جوغیر مخلوق ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7540   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1467  
´قرآت میں ترتیل کے مستحب ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے روز ایک اونٹنی پر سوار دیکھا، آپ سورۃ الفتح پڑھ رہے تھے اور (ایک ایک آیت) کئی بار دہرا رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1467]
1467. اردو حاشیہ: صحیح حدیث میں ہے کہ جناب معاویہ بن قرۃ نے حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت پڑھ کر سنائی۔ اور کہا کہ اگر لوگوں کے اکھٹے ہوجانے کا اندیشہ نہ ہوتا۔ تو میں تمھیں سیدنا ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت سناتا جو انہوں نے مجھے نبی کریمﷺ سے سنائی تھی۔ شعبہ کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا ان کی ترجیح کس طرح تھی؟ انہوں نے کہا: آآآ تین بار [صحیح بخاری، التوحید، حدیث: 7540]
ترجیع سے مراد آواز کو حلق میں لوٹانا اور بلند کرنا ہے۔ تاکہ لحن لزیز بن جائے۔ معلوم ہوا ترجیع اور عمدہ لحن سے قرآن پڑھنا مستحب اور مطلوب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1467   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1853  
حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے سال راستہ میں اپنی سواری پر سورہ فتح کی تلاوت فرمائی اور اپنی قراءت میں آواز کو دہرایا۔ معاویہ بن قرۃ کہتے ہیں، اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ میرے گرد جمع ہو جائیں گے تو میں تمھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کی نقل اتار کر سناتا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1853]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ترجیع تکرار یا دہرانے کو کہتے ہیں چونکہ آپﷺ سواری پر تھے اس لیے آواز میں زیرو بم پیدا ہوتا تھا سواری کی حرکت سے آواز میں لرزش پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ حسنِ صوت میں اضافہ ہوتا ہے اور سننے والے کو لذت و سرور حاصل ہوتا ہے آپﷺ کی آواز اور ترجیع سے عجیب کیفیت پیدا ہوئی تھی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1853   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1854  
حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے دن اپنی اونٹنی پر بیٹھے ہوئے سورہ فتح پڑھتے ہوئے دیکھا، عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد کہتے ہیں کہ ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قراءت میں ترجیع کی یعنی گنگناہٹ پیدا کی، معاویہ کہتے ہیں اگر مجھے لوگوں (کے اجتماع) کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تمھارے لئے وہی طریقہ اپناتا کرتا جو حضرت ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1854]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپﷺ کی قرآءت کی حکایت و نقل کرتے ہوئے آواز کو کھینچا جیسے آآآ۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1854   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5034  
5034. سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت انہوں نے کہا کہ میں فتح مکہ والے دن، رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اپنی سواری پر سورہ فتح تلاوت کررہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5034]
حدیث حاشیہ:
قرآن پاک کی تلاوت بھی ایک قسم کا ذکر الٰہی ہے جو آیت ﴿الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ﴾ (آل عمران: 191)
کے تحت ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5034   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5047  
5047. سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا آپ اپنی اونٹنی یا اونٹ پر سوار ہو کر تلاوت کر رہے تھے۔ سواری چل رہی تھی اور آپ نہایت نرمی اور آہستگی کے ساتھ سورہ فتح کی تلاوت میں مصروف تھے۔ تلاوت کے وقت آپ ﷺ اپنی آواز کو حلق میں پھیرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5047]
حدیث حاشیہ:
دہرانے سے حروف قرآنی میں مد و جزر پیدا کر نا مراد ہے جوحسن صورت کی صورت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5047   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4281  
4281. حضرت عبد اللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کو اونٹنی پر سوار دیکھا۔ آپ اس وقت سورہ فتح بڑی خوش الحانی سے پڑح رہے تھے۔ راوی کہتا ہے: اگر میرے گرد لوگوں کے جمع ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں بھی اسی طرح خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سناتا جیسے انہوں نے پڑھ کر سنایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4281]
حدیث حاشیہ:

ایک لفظ کو پہلے آہستہ، پھر اسے بآواز بلند پڑھنے کو ترجیع کہتے ہیں۔
راوی حدیث حضرت معاویہ بن قرہ نےحضرت عبداللہ بن مغفل ؓ کے لب ولہجے کے مطابق تھوڑی سی قراءت کی پھر وضاحت فرمائی جو حدیث میں مذکور ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دھیمے لہجے سے اس سورت کو پڑھا۔
(صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5047۔
)

بعض روایات میں مزید تفصیل اور صوتی طریقے کی وضاحت ہے۔
حضرت شعبہ بیان کرتے ہیں کہ پھرمعاویہ بن قرہ نے حضرت ابن مغفل ؓ کے لب ولہجے کے مطابق قراءت کی اور فرمایا:
اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہو کہ لوگوں کا ہجوم ہوگا تو میں ترجیع سے پڑھ کر تمھیں سناؤں۔
شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ سے پوچھا:
ترجیع کیا ہوتی ہے؟تو انھوں نے بتایا کہ تین مرتبہ حلق میں آواز کو پھیرا جائے۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7540۔
)


واضح رہے کہ یہ ترجیع سواری پر بیٹھنے کی وجہ سے غیر اختیاری نہ تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے اختیار سے پڑھاتھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4281   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4835  
4835. حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فتح مکہ کے دن سورہ فتح کی تلاوت فرمائی۔ تلاوت کرتے وقت خوش الحانی کو ملحوظ رکھا۔ حضرت معاویہ بن قرہ نے کہا: اگر میں چاہوں کہ تمہارے سامنے نبی ﷺ کی اس موقع پر طرز قراءت کی نقل کروں تو کر سکتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4835]
حدیث حاشیہ:

ترجیع گلے میں آواز پھیرنے کو کہتے ہیں جیسے خوش الحان لوگ کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس انداز سے قرآن پڑھنا اونٹنی پر بیٹھنے کی وجہ سے اضطراری نہیں تھا بلکہ آپ نے ارادہ اور اختیار سے خوش الحانی کے طورپر اس انداز کو اختیار کیا تھا کیونکہ ایک روایت میں ہے کہ آپ بڑی نرمی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کررہے تھے۔
(صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5047)

آپ نے اس موقع کے علاوہ بھی قرآن مجید کی تلاوت اس انداز سےفرمائی ہے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ کسی نے پوچھا:
آپ ترجیع کیسے کرتے تھے؟ تو بتایا گیا کہ آآآ تین بار مد کے ساتھ آواز کو دہراتے تھے۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7540)
اس انداز سے تلاوت کرنے میں خوشی کے جذبات بھی شامل تھے کیونکہ آپ فاتحانہ طور پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4835   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5034  
5034. سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت انہوں نے کہا کہ میں فتح مکہ والے دن، رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اپنی سواری پر سورہ فتح تلاوت کررہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5034]
حدیث حاشیہ:
بعض اسلاف سے سواری پر تلاوت کرنے کے متعلق کراہت منقول ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تردید کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے شارح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ثابت کرنا ہےکہ سواری پر تلاوت کرنا مسنون امر ہے اور اس سنت کی بنیاد درج ذیل ارشادباری تعالیٰ ہے۔
پھر تم اس پر ٹھیک طرح بیٹھ جاؤ تو اپنے پروردگار کا احسان یاد کرو اور کہو:
پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارےلیے اسے مسخر کر دیا اور ہم تو اسے قابو میں نہ لاسکتےتھے۔
(الزخرف: 43۔
13)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سواری پر بیٹھتے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔
(سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ (13)
وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ)

اس سے معلوم ہوا کہ سواری پر قرآن پڑھا جا سکتا ہے اس کا اصل قرآن میں موجود ہے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3275۔
(1342، فتح الباري: 97/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5034   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5047  
5047. سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا آپ اپنی اونٹنی یا اونٹ پر سوار ہو کر تلاوت کر رہے تھے۔ سواری چل رہی تھی اور آپ نہایت نرمی اور آہستگی کے ساتھ سورہ فتح کی تلاوت میں مصروف تھے۔ تلاوت کے وقت آپ ﷺ اپنی آواز کو حلق میں پھیرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5047]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترجیع کے دو احتمال حسب ذیل ہیں۔
۔
چونکہ آپ اونٹنی پر سوار تھے اور وہ تیز رفتار تھی اس کی تیز رفتاری کی وجہ سے آپ کی آواز میں ترجیع معلوم ہوتی تھی۔
۔
آپ مد کے مقام پر جب حروف مدہ کو کھینچتے تو اس سے ترجیع ظاہر ہوتی تھی اور آپ جان بوجھ کر ایسا کرتے تھے۔
ایک روایت میں اس کی کیفیت بیان ہوئی ہے یعنی اَااَ ہمزہ مفتوحہ اس کے بعد الف پھر ہمزہ مفتوحہ۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7540)

سواری کے علاوہ بھی آپ کا ترجیع سے پڑھنا ثابت ہے، جیسا کہ حضرت اُم ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں اپنے بسترپر سوئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ترجیع کے ساتھ قرآن پڑھ رہے تھے۔
(فتح الباري: 115/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5047   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.