(قدسي) حدثنا محمد بن سنان، حدثنا فليح، حدثنا هلال، عن عطاء بن يسار، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم" كان يوما يحدث وعنده رجل من اهل البادية ان رجلا من اهل الجنة استاذن ربه في الزرع، فقال له: اولست فيما شئت؟، قال: بلى، ولكني احب ان ازرع، فاسرع وبذر، فتبادر الطرف نباته واستواؤه واستحصاده وتكويره امثال الجبال، فيقول الله تعالى: دونك يا ابن آدم، فإنه لا يشبعك شيء، فقال الاعرابي: يا رسول الله، لا تجد هذا إلا قرشيا او انصاريا، فإنهم اصحاب زرع، فاما نحن فلسنا باصحاب زرع، فضحك رسول الله".(قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، حَدَّثَنَا هِلَالٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَوْمًا يُحَدِّثُ وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ فِي الزَّرْعِ، فَقَالَ لَهُ: أَوَلَسْتَ فِيمَا شِئْتَ؟، قَالَ: بَلَى، وَلَكِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَزْرَعَ، فَأَسْرَعَ وَبَذَرَ، فَتَبَادَرَ الطَّرْفَ نَبَاتُهُ وَاسْتِوَاؤُهُ وَاسْتِحْصَادُهُ وَتَكْوِيرُهُ أَمْثَالَ الْجِبَالِ، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: دُونَكَ يَا ابْنَ آدَمَ، فَإِنَّهُ لَا يُشْبِعُكَ شَيْءٌ، فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا تَجِدُ هَذَا إِلَّا قُرَشِيًّا أَوْ أَنْصَارِيًّا، فَإِنَّهُمْ أَصْحَابُ زَرْعٍ، فَأَمَّا نَحْنُ فَلَسْنَا بِأَصْحَابِ زَرْعٍ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ".
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہلال بن علی نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گفتگو کر رہے تھے، اس وقت آپ کے پاس ایک بدوی بھی تھا (فرمایا) کہ اہل جنت میں سے ایک شخص نے اللہ تعالیٰ سے کھیتی کی اجازت چاہی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا وہ سب کچھ تمہارے پاس نہیں ہے جو تم چاہتے ہو؟ وہ کہے گا کہ ضرور لیکن میں چاہتا ہوں کہ کھیتی کروں۔ چنانچہ بہت جلدی وہ بیج ڈالے گا اور پلک جھپکنے تک اس کا اگنا، برابر کٹنا اور پہاڑوں کی طرح غلے کے انبار لگ جانا ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: ابن آدم! اسے لے لے، تیرے پیٹ کو کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ دیہاتی نے کہا: یا رسول اللہ! اس کا مزہ تو قریشی یا انصاری ہی اٹھایں گے کیونکہ وہی کھیتی باڑی والے ہیں، ہم تو کسان ہیں نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات سن کر ہنسی آ گئی۔
Narrated Abu Huraira: Once the Prophet was preaching while a bedouin was sitting there. The Prophet said, "A man from among the people of Paradise will request Allah to allow him to cultivate the land Allah will say to him, 'Haven't you got whatever you desire?' He will reply, 'yes, but I like to cultivate the land (Allah will permit him and) he will sow the seeds, and within seconds the plants will grow and ripen and (the yield) will be harvested and piled in heaps like mountains. On that Allah will say (to him), "Take, here you are, O son of Adam, for nothing satisfies you.' "On that the bedouin said, "O Allah's Apostle! Such man must be either from Quraish or from Ansar, for they are farmers while we are not." On that Allah's Apostle smiled .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 610
ألست فيما شئت قال بلى ولكني أحب أن أزرع قال فبذر فبادر الطرف نباته واستواؤه واستحصاده فكان أمثال الجبال فيقول الله دونك يا ابن آدم فإنه لا يشبعك شيء فقال الأعرابي والله لا تجده إلا قرشيا أو أنصاريا فإنهم أصحاب زرع وأما نحن فلسنا بأصحاب زرع فضحك النبي
أولست فيما شئت قال بلى ولكني أحب أن أزرع فأسرع وبذر فتبادر الطرف نباته واستواؤه واستحصاده وتكويره أمثال الجبال فيقول الله دونك يا ابن آدم فإنه لا يشبعك شيء فقال الأعرابي يا رسول الله لا تجد هذا إلا قرشيا أو أنصاريا فإنهم أصحاب زرع
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7519
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان دنیا میں جو کام کرتا ہے وہ اس سے اتنا مانوس ہو جاتا ہے۔ کہ بعض اوقات وہ جنت میں بھی اسے کرنے کی خواہش کرے گا۔ حالانکہ وہاں اس قسم کی خواہش کی نہ تو کوئی ضرورت ہوگی اور نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہو گا۔ تاہم اللہ تعالیٰ جنت میں اہل جنت کی خواہش کا احترام کرے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”وہاں (جنت میں) تمھارے لیے وہ کچھ ہے جو تمھارے دل چاہیں گے اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تم مانگو گے۔ “(حم السجدة: 41) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے ہم کلام ہوگا اور صفت کلام، علامت کمال ہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت سے متعلق ہے۔ وہ جب چاہے گا۔ جس سے چاہے کا کلام کرے گا۔ جن لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے یا دوراز کار تاویل کی ہے وہ راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7519
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2348
2348. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کے پاس ایک دیہاتی بیٹھا تھا اور آپ یہ بیان فرمارہے تھے: ”اہل جنت میں سے ایک شخص اپنے رب سے کاشتکاری کی اجازت طلب کرے گا تواللہ تعالیٰ اسے فرمائے گا: کیا تو موجودہ حالت پر خوش نہیں ہے؟وہ کہے گا: کیوں نہیں (خوش ہوں) لیکن مجھے کھیتی باڑی سے محبت ہے۔ آپ نے فرمایا: وہ بیج کاشت کرے گا تو پل جھپکنے میں وہ اگ آئے گا، فوراً سیدھا ہوجائے گا اور کاٹنے کے قابل ہوجائے گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پہاڑ کی طرح انبار لگ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم ؑ کے بیٹے!یہ لے لے، تجھے کوئی چیز سیر نہیں کرسکتی۔“ یہ سن کر دیہاتی کہنے لگا: اللہ کی قسم!وہ شخص قریشی یا انصاری ہوگا کیونکہ یہی لوگ کھیتی باڑی کرنے والے ہیں، ہم تو کھیتی باڑی والے لوگ نہیں۔ یہ سن کرنبی کریم ﷺ ہنس پڑے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2348]
حدیث حاشیہ: حقیقت میں آدمی ایسا ہی حریص ہے۔ کتنی بھی دولت اور راحت ہو، وہ اس پر قناعت نہیں کرتا۔ زیادہ طلبی اس کے خمیر میں ہے۔ اسی طرح تلون مزاجی، حالانکہ جنت میں سب کچھ موجود ہوگا۔ پھر بھی کچھ لوگ کھیتی کی خواہش کریں گے، اللہ پاک اپنے فضل سے ان کی یہ خواہش بھی پوری کر دے گا۔ جیسا کہ راویت مذکور میں ہے۔ جو اپنے معانی اور مطالب کے لحاظ سے حقائق پر مبنی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2348
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2348
2348. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کے پاس ایک دیہاتی بیٹھا تھا اور آپ یہ بیان فرمارہے تھے: ”اہل جنت میں سے ایک شخص اپنے رب سے کاشتکاری کی اجازت طلب کرے گا تواللہ تعالیٰ اسے فرمائے گا: کیا تو موجودہ حالت پر خوش نہیں ہے؟وہ کہے گا: کیوں نہیں (خوش ہوں) لیکن مجھے کھیتی باڑی سے محبت ہے۔ آپ نے فرمایا: وہ بیج کاشت کرے گا تو پل جھپکنے میں وہ اگ آئے گا، فوراً سیدھا ہوجائے گا اور کاٹنے کے قابل ہوجائے گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پہاڑ کی طرح انبار لگ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم ؑ کے بیٹے!یہ لے لے، تجھے کوئی چیز سیر نہیں کرسکتی۔“ یہ سن کر دیہاتی کہنے لگا: اللہ کی قسم!وہ شخص قریشی یا انصاری ہوگا کیونکہ یہی لوگ کھیتی باڑی کرنے والے ہیں، ہم تو کھیتی باڑی والے لوگ نہیں۔ یہ سن کرنبی کریم ﷺ ہنس پڑے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2348]
حدیث حاشیہ: اس حدیث پر امام بخاری ؒ نے کوئی عنوان قائم نہیں کیا۔ یہ ضروری نہیں کہ جہاں بھی عنوان نہ ہو، وہ سابق عنوان کا تکملہ ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس پر تم خود کوئی عنوان قائم کر لو کیونکہ یہ موضوع سے متعلق تو ہے۔ دراصل امام بخاری زراعت کی فضیلت پر تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ایسی پسندیدہ چیز ہے کہ جنت میں بھی اس کی خواہش کی جا سکے گی اور اسے عمل میں لایا جا سکے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ جنت میں کاشتکاری کے نتائج حاصل کرنے میں دیر نہیں لگے گی بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے فصل تیار ہو کر کاٹنے کے قابل ہو جائے گی پھر خود بخود اناج کا ڈھیر لگ جائے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2348