حدیث حاشیہ: 1۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زبان میں کچھ تیزی تھی جس کا ان کے شوہر نامدار حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شکوہ تھا اس بنا پر انھیں طلاق دینے کا ارادہ کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ وہ اسے طلاق نہ دیں بلکہ اسے بیوی کے طور پر اپنے پاس رکھیں۔
اس واقعے کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
”اور جب آپ اس شخص کو جس پر اللہ تعالیٰ نے بھی احسان کیا اورآپ نے بھی، یہ کہہ رہے تھے کہ اپنی بیوی اپنے پاس روکے رکھ اور اللہ سے ڈر اور اس وقت آپ ایک ایسی بات اپنے دل میں چھپا رہے تھے جسے اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا تھا۔
آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ
(اس بات کا) زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔
پھر جب زید نے اس عورت سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے آپ سے اس عورت کا نکاح کر دیا تاکہ اہل ایمان پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکےہوں اور اللہ کا حکم ہو کر رہنے والا ہے۔
“ (الأحزاب: 33۔
37) 2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو علو ذات باری تعالیٰ کے ثبوت کے لیے پیش کیا ہے کہ رب العزت آسمانوں کے اوپر ہے جیسا کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے صراحت کی ہے کہ میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے ساتوں آسمانوں کے اوپر کیا ہے۔
یہ بات تمام اہل اسلام بلکہ تمام مخلوق کے ہاں ثابت شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے صفت علو ثابت ہے اور وہ ہم سے بلند و بالا ہے۔
اس بات کی شہادت فعل و نقل اور فطرت سے ملتی ہے لیکن جن لوگوں کی فطرت سے ملتی ہے۔
جن لوگوں کی فطرت مسخ ہو چکی ہے ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اوپر نہیں بلکہ ہر چیز میں حلول کیے ہوئے ہے۔
اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا شرعی دلائل سے ثابت ہے لیکن علو باری تعالیٰ کے لیے صرف شرعی دلائل ہی نہیں بلکہ انسانی فطرت بھی اس کی گواہی دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے لیے صفت علو ثابت کرنے پر سلف صالحین کا اجماع ہے۔
اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے شایان شان علو ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
”اوروہ بلند تر سب سے عظمت والا ہے۔
“ (البقرة: 255) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحالت سجدہ پڑھا کرتے تھے۔
(سبحان ربي الأعلى) ”پاک ہے میرا رب جو سب سے بلند ہے۔
“ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1814(772)
اس بنا پر اللہ تعالیٰ کے لیے صفت علو کو بلا تحریف و تعطیل اور بلا تکیف و تمثیل ثابت کرنا ضروری ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔
علو صفت:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات بلند پایہ اور اعلیٰ ہیں۔
ان میں کسی بھی طرح کا کوئی نقص یا عیب نہیں ہے۔
علو ذات:
اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تمام مخلوقات سے اوپر ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ)
”کیا تم اس ذات سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے۔
“ (الملك: 67۔
16)
3۔
اللہ تعالیٰ کے آسمانوں میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آسمانوں کے اوپر ہے۔
آیت کریمہ میں (فِي، عَلَى)
کے معنی میں ہےکیونکہ آسمان ذات باری تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتے یا پھر السماء سے مراد آسمان نہیں بلکہ مطلق بلندی ہے یعنی اللہ تعالیٰ بلندی میں ہے اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لونڈی سے اللہ تعالیٰ کے متعلق سوال کیا تھا کہاں ہے؟ تو اس نےجواب دیا کہ وہ آسمان میں ہے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اسے آزاد کردو یہ مومنہ ہے۔
“ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1199(537)
لیکن معطلہ اللہ تعالیٰ کے لیے جہت علو کا انکار کرتے ہیں وہ اس کے معنی کرتے ہیں کہ آسمانوں میں اللہ تعالیٰ کی حکومت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی حکومت زمین میں بھی ہے پھر آسمان کی تخصیص کا کیا مطلب؟ اس کے متعلق تفصیلی گفتگو ہم آئندہ کریں گے۔