(مرفوع) حدثنا احمد، حدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن انس، قال:" جاء زيد بن حارثة يشكو، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: اتق الله وامسك عليك زوجك"، قال انس: لو كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كاتما شيئا لكتم هذه، قال: فكانت زينب تفخر على ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، تقول: زوجكن اهاليكن وزوجني الله تعالى من فوق سبع سموات، وعن ثابت، وتخفي في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس سورة الاحزاب آية 37 نزلت في شان زينب، وزيد بن حارثة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" جَاءَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ يَشْكُو، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: اتَّقِ اللَّهَ وَأَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ"، قَالَ أَنَسٌ: لَوْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَاتِمًا شَيْئًا لَكَتَمَ هَذِهِ، قَالَ: فَكَانَتْ زَيْنَبُ تَفْخَرُ عَلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولْ: زَوَّجَكُنَّ أَهَالِيكُنَّ وَزَوَّجَنِي اللَّهُ تَعَالَى مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ، وَعَنْ ثَابِتٍ، وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ سورة الأحزاب آية 37 نَزَلَتْ فِي شَأْنِ زَيْنَبَ، وَزَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ.
ہم سے احمد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن ابی بکر المقدمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (اپنی بیوی کی) شکایت کرنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی بات کو چھپانے والے ہوتے تو اسے ضرور چھپاتے۔ بیان کیا چنانچہ زینب رضی اللہ عنہا تمام ازواج مطہرات پر فخر سے کہتی تھی کہ تم لوگوں کی تمہارے گھر والوں نے شادی کی۔ اور میری اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے شادی کی اور ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آیت «وتخفي في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس»”اور آپ اس چیز کو اپنے دل میں چھپاتے ہیں جسے اللہ ظاہر کرنے والا ہے۔“ زینب اور زید بن حارث رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
Narrated Anas: Zaid bin Haritha came to the Prophet complaining about his wife. The Prophet kept on saying (to him), "Be afraid of Allah and keep your wife." Aisha said, "If Allah's Apostle were to conceal anything (of the Qur'an he would have concealed this Verse." Zainab used to boast before the wives of the Prophet and used to say, "You were given in marriage by your families, while I was married (to the Prophet) by Allah from over seven Heavens." And Thabit recited, "The Verse:-- 'But (O Muhammad) you did hide in your heart that which Allah was about to make manifest, you did fear the people,' (33.37) was revealed in connection with Zainab and Zaid bin Haritha."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 516
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7420
حدیث حاشیہ: حدیث سے اللہ تعالیٰ کا ساتوں آسمانوں کے اوپر ہونا ثابت ہے۔ باب سے یہی مناسبت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7420
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7420
فقہ الحدیث: سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا مقام، سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی فضیلت: ➊ سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (اپنی بیوی کی) شکایت کرنے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اتق الله وأمسك عليك زوجك» اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھو۔ [بخاري: 7420] ➋ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت «وَتُخْفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللهُ مُبْدِيْهِ» سیدہ زینب بنت جحش اور زید بن حارثہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ [بخاري: 4787] ➌ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ چھپانے والے ہوتے تو اس (مذکورہ آیت) کو چھپاتے۔ [بخاري: 7420] ➍ اللہ تعالیٰ نے اولاً اہل اسلام پر منہ بولے بیٹے کی حیثیت کو منکشف کیا، ديكهئے: [الحديث شماره: 12] پھر متبنیٰ کی (سابقہ) اہلیہ سے نکاح کروا کر یہ واضح کر دیا کہ منہ بولے بیٹے کی حقیقت «اِنّما المُؤمِنُونَ اِخوَةٌ» سے زیادہ نہیں ہے۔ ➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شرم و حیا کے پیکر تھے۔ ➏ حق کی نشر و اشاعت میں لوگوں کے طعن و تشنیع سے بے پروا ہو کر خوف الٰہی کو اختیار کرتے ہوئے اس کی تبلیغ و ترویج میں کوشاں رہنا چاہئیے۔ ➐ سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام قرآن مجید میں درج کر کے قیامت تک کے لئے مومنوں کی زبان پر جاری کر دیا۔ ➑ سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نکاح (سات) آسمانوں پر (سے) طے پایا۔ [بخاري: 7420]
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3212
´سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ آیت «وتخفي في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس»”تم اس چیز کو اپنے جی میں چھپا کر رکھ رہے ہو جس کو اللہ ظاہر کرنے والا ہے، اور تم (اللہ سے ڈرنے کی بجائے) لوگوں سے ڈر رہے ہو“(الاحزاب: ۳۷)، زینب بنت جحش رضی الله عنہا کی شان میں نازل ہوئی ہے (ان کے شوہر) زید شکایت لے کر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) آئے اور انہوں نے زینب کو طلاق دینے کا ارادہ کر لیا، اس پر انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ لیا تو آپ نے فرمایا: «أمسك عليك زوجك واتق الله»”اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو (طلاق نہ دو) اور اللہ سے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3212]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: تم اس چیز کو اپنے جی میں چھپا کر رکھ رہے ہو جس کو اللہ ظاہر کرنے والا ہے، اور تم (اللہ سے ڈرنے کی بجائے) لوگوں سے ڈر رہے ہو) (الأحزاب: 37)
2؎: اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو (طلاق نہ دو) اور اللہ سے ڈرو (الأحزاب: 37) یہاں ایک جھوٹی روایت لوگوں نے گھڑ رکھی ہے کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺنے اپنے دل میں ان کی بات چھپا رکھی تھی وہ یہ کہ وہ زینب سے محبت کرتے تھے اورخود ان سے شادی چاہتے تھے اس لیے چاہتے تھے کہ زید جلد طلاق دے دیں معاذاللہ، حالانکہ جس بات کے چھپانے کی طرف اللہ آپﷺ کو اشارہ کر رہا ہے، وہ یہ تھی کہ: اچھا ہوتا کہ زید زینب کو نہیں چھوڑتے، ورنہ بحکم الٰہی زینب سے مجھے ہی شادی کرنی ہو گی، تب لوگ کہیں گے: لو محمد نے اپنے لے پالک بیٹے کی مطلقہ سے شادی کر لی (یہ چیز ان کے یہاں معیوب سمجھی جاتی تھی) اسی کو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ایک دن اللہ اس کو ظاہر کر دے گا، اس شادی میں سماج سے ایک غلط روایت کو دور کرنا ہے، اور لوگوں کو صحیح بات بتانی ہے کہ لے پالک بیٹا صلبی بیٹا نہیں ہوتا کہ اس کی مطلقہ یا بیوہ حرام ہو جائے، اسی طرح لے پالک سے، دیگرخونی معاملات میں حرمت وحلت کی بات صحیح نہیں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3212