(مرفوع) حدثنا إسحاق بن نصر، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام، سمع ابا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لو كان عندي احد ذهبا، لاحببت ان لا ياتي علي ثلاث وعندي منه دينار ليس شيء ارصده في دين علي اجد من يقبله".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَوْ كَانَ عِنْدِي أُحُدٌ ذَهَبًا، لَأَحْبَبْتُ أَنْ لَا يَأْتِيَ عَلَيَّ ثَلَاثٌ وَعِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ لَيْسَ شَيْءٌ أَرْصُدُهُ فِي دَيْنٍ عَلَيَّ أَجِدُ مَنْ يَقْبَلُهُ".
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام بن منبہ نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہوتا تو میں پسند کرتا کہ اگر ان کے لینے والے مل جائیں تو تین دن گزرنے سے پہلے ہی میرے پاس اس میں سے ایک دینار بھی نہ بچے، سوا اس کے جسے میں اپنے اوپر قرض کی ادائیگی کے لیے روک لوں۔“
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "If I had gold equal to the mountain of Uhud, I would love that, before three days had passed, not a single Dinar thereof remained with me if I found somebody to accept it excluding some amount that I would keep for the payment of my debts.''
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 90, Number 334
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7228
حدیث حاشیہ: بس اصل درویشی یہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی کہ کل کے لیے کچھ نہ رکھ چھوڑے‘ جو روپیہ یا مال متاع آئے وہ غرباء اور مستحقین کو فوراً تقسیم کردے۔ اگر کوئی شخص خزانہ اپنے لیے جمع کرے اور تین دن سے زیادہ روپیہ پیسہ اپنے پاس رکھ چھوڑے تو اس کو درویش نہ کہیں گے بلکہ دینار دار کہیں گے۔ ایک بزرگ کے پاس روپیہ آیا‘ انہوں نے پہلے چالیسواں حصہ اس میں سے زکوٰۃ کا نکالا پھر باقی 39 حصے بھی تقسیم کر دیے اور کہنے لگے میں نے زکوٰۃ کا ثواب حاصل کرنے کے لیے پہلے چالیسواں حصہ نکالا اگر سب ایکبار گی خیرات کردیتا تو اس فرض کے ثواب سے محروم رہتا۔ حیدر آباد میں بہت سے مشائخ اور درویش ایسے نظر آتے ہیں کہ دنیار اور ان سے بمراتب بہتر ہیں۔ افسوس انکو اپنے تئیں درویش کہتے ہوئے شرم نہیں آتی وہ تو ساہو کاروں کی طرح مال ودولت اکٹھا کرتے ہیں ان کو مہاجن یا سا ہوا کار کا لقب دینا چاہیے نہ کہ شاہ اور فقیر کا۔ (وحید ی) إلاماشاءاللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7228
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7228
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہوتو میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہوگی کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے اسے فی سبیل اللہ خرچ کردوں اور میرے پاس اس میں سے کچھ نہ بچے۔ “(صحیح البخاري۔ الاستقراض، حدیث: 2369) حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اُحد پہاڑ کو دیکھا تو فرمایا: ”کاش! میرے پاس اس پہاڑ کے برابر سونا ہوتو میں ایک یاتین راتیں گزرنے سے پہلے پہلے اللہ کے بندوں میں اس طرح، اس طرح خرچ کردوں، آپ نے دونوں ہاتھوں سے اشارہ فرمایا۔ “(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6444) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ الفاظ میں ایسے عنوان بیان کرتے ہیں جن سے روایت کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے۔ اس عنوان میں بھی انھوں نے یہی انداز اختیار کیاہے۔ (فتح الباري: 268/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7228
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4132
´مالداروں کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نہیں چاہتا کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرا دن آئے تو میرے پاس اس میں سے کچھ باقی رہے، سوائے اس کے جو میں قرض ادا کرنے کے لیے رکھ چھوڑوں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4132]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس حدیث میں نبی ﷺ کی سخاوت کا بیان اور امت کے لیے ترغیب ہے۔
(2) احد ایک بڑا پہاڑ ہےاتنا سونا دو تین دن میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا اس کے باوجود نبی ﷺ کی خواہش یہی تھی کہ اگر اتنا مال بھی ہو تو وہ بھی دو تین دن میں تقسیم نہیں کيا جاسکتا، اس کے باوجود نبیﷺ کی خواہش یہی تھی کہ اگر اتنا مال بھی ہوتو وہ بھی دو تین دن میں مکمل طور پر تقسیم کردیاجائے۔
(3) قرض کی ادائیگی قرض خواہ کا حق ہےاس کی ادائیگی سخاوت سے اہم ہے۔
(4) قرض لینا دینا جائز ہے لیکن قرض لیتے وقت یہ نیت ہونی چاہیےکہ جلد از جلد ادا کردیا جائے گا۔
(5) سنبھال رکھنے کی ضرورت تب پیش آسکتی ہے جب ادائیگی کا مقرر وقت آنے میں کچھ وقفہ باقی ہو تاکہ جب قرض خواہ مطالبہ کرے تو ادئیگی کا اہتمام کرتے ہوئے ادائیگی میں تاخیر نہ ہوجائے۔
(6) اگر قرض خواہ قریب موجود ہوتو مقررہ وقت سے پہلے خود جاکر ادائیگی کردینا افضل ہے لیکن اگر اس سے رابطہ مشکل ہوتو رقم سنبھال مناسب ہے۔ تاکہ ادائیگی جلد از جلد کی جاسکے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4132
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6445
6445. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہوتو مجھے یہ پسند ہے کہ تین راتیں بھی اس پر نہ گزرنے پائیں کہ اس میں سے میرے پاس کچھ باقی ہو، اگر کسی کا قرض دور کرنے کے لیے کچھ رکھ چھوڑوں تو الگ بات ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6445]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ ادائيگی قرض کے لئے سرمایہ جمع کرنا شرعاً معیوب نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6445
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2389
2389. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہ پسند نہیں کہ مجھ پر تین دن گرز جائیں اور اس میں سے کوئی چیز میرے پاس باقی رہے۔ ہاں، قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ رکھ لوں تو اور بات ہے۔“ اس روایت کو صالح اور عقیل نے زہری سے بیان کیاہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2389]
حدیث حاشیہ: باب کا مطلب اس فقرے سے نکلتا ہے۔ مگر وہ دینار تو رہے جس کو میں نے قرضہ ادا کرنے کے لیے رکھ لیا ہو۔ کیوں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرض ادا کرنے کی فکر ہر شخص کو کرنا چاہئے۔ اور اس کا ادا کرنا خیرات کرنے پر مقدم ہے۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ خیرات کرنے کے لیے کوئی شخص بلا ضرورت قرض لے تو جائز ہے یا نہیں۔ اور صحیح یہ ہے کہ ادا کرنے کی نیت ہو تو جائز ہے بلکہ ثواب ہے۔ عبداللہ بن جعفر بے ضرورت قرض لیا کرتے تھے۔ لوگوں نے پوچھا، انہوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ قرض دار کے ساتھ ہے یہاں تک کہ وہ اپنا قرض ادا کردے۔ میں چاہتا ہوں کہ اللہ میرے ساتھ رہے اور تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ جو شخص نیک کاموں میں خرچ کرنے کی وجہ سے قرض دار ہو جائے تو پروردگار اس کا قرض غیب سے ادا کرا دیتا ہے۔ مگر ایسی کیمیا صفت شخصیتیں آج کل نایاب ہیں۔ بہ حالات موجود قرض کسی حال میں بھی اچھا نہیں ہے یوں مجبوری میں سب کچھ کرنا پڑتا ہے مگر خیر خیرات کرنے کے لیے قرض نکالنا تو آج کسی طرح بھی زیبا نہیں۔ کیوں کہ ادائیگی کا معاملہ بہت ہی پریشان کن بن جاتا ہے۔ پھر ایسا مقروض آدمی دین اور دنیا ہر لحاظ سے گر جاتا ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو قرض سے بچائے۔ اور مسلمان قرض داروں کا غیب سے قرض ادا کرائے۔ آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2389
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2389
2389. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہ پسند نہیں کہ مجھ پر تین دن گرز جائیں اور اس میں سے کوئی چیز میرے پاس باقی رہے۔ ہاں، قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ رکھ لوں تو اور بات ہے۔“ اس روایت کو صالح اور عقیل نے زہری سے بیان کیاہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2389]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے بھی ادائیگی قرض کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اُحد پہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی آرزو فرمائی، صرف اتنا رکھ لینے کی تمنا کی جس سے قرض ادا ہو سکے۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ خیرات کرنے کے لیے قرض لیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اگر ادا کرنے کی نیت ہو تو خیرات کرنے کے لیے قرض لیا جا سکتا ہے بلکہ ایسا کرنا باعث ثواب ہے۔ جو شخص نیک کاموں میں خرچ کرنے کی وجہ سے مقروض ہو جائے تو اللہ تعالیٰ خزانۂ غیب سے اس کے قرض کی ادائیگی کا ضرور بندوبست کر دیتا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے بتایا ہے کہ اس حدیث کو یونس کے علاوہ صالح اور عقیل نے بھی امام زہری ؒ سے بیان کیا ہے۔ ان دونوں کی مرویات کو محمد بن یحییٰ ذہلی کی کتاب "زہریات" میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ (فتح الباري: 71/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2389
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6445
6445. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہوتو مجھے یہ پسند ہے کہ تین راتیں بھی اس پر نہ گزرنے پائیں کہ اس میں سے میرے پاس کچھ باقی ہو، اگر کسی کا قرض دور کرنے کے لیے کچھ رکھ چھوڑوں تو الگ بات ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6445]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے مال و متاع سے کوئی دلچسپی نہ تھی، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ اس پر کوئی بستر وغیرہ بھی نہیں تھا اور اس چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر نمایاں تھے اور آپ نے چمڑے کے تکیے پر ٹیک لگا رکھی تھی۔ میں آپ کی اس حالت کو دیکھ کر رو پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے رونے کی وجہ پوچھی۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اہل فارس اور اہل روم کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر کشادگی دی ہے اور آپ تو اس کے رسول ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم خوش نہیں کہ ان کے لیے دنیا میں ہوں اور ہمارے لیے آخرت میں۔ “(صحیح البخاره، التفسیر، حدیث: 4913) ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کی امت پر کشادگی فرمائے کیونکہ اہل فارس اور اہل روم پر تو اس کی بہت سی نوازشات ہیں، حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: ”اے ابن خطاب! کیا تم ابھی تک اسی مقام پر ہو؟ یہ کفار وہ لوگ ہیں کہ انہیں ان کی لذتیں اس دنیا کی زندگی میں جلد عطا کر دی گئی ہیں۔ “(صحیح البخاري، المظالم، حدیث: 2468)(2) امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُحد پہاڑ کے برابر سونا مل جائے تو اسے بھی اپنے پاس نہ رکھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیں، صرف اتنی دولت باقی رکھیں جس سے قرض کی ادائیگی ہو سکے۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6445