صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: فتنوں کے بیان میں
The Book of Al-Fitan
3. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلاَكُ أُمَّتِي عَلَى يَدَيْ أُغَيْلِمَةٍ سُفَهَاءَ»:
3. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمایا ”میری امت کی تباہی چند بیوقوف لڑکوں کے ہاتھوں ہو گی“۔
(3) Chapter. The statement of Prophet: “The destruction of my followers will be through the hands of foolish young men.”
حدیث نمبر: 7058
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عمرو بن يحيى بن سعيد بن عمرو بن سعيد، قال: اخبرني جدي، قال:" كنت جالسا مع ابي هريرة في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة ومعنا مروان، قال ابو هريرة: سمعت الصادق المصدوق، يقول:" هلكة امتي على يدي غلمة من قريش"، فقال مروان: لعنة الله عليهم غلمة، فقال ابو هريرة: لو شئت ان اقول بني فلان وبني فلان لفعلت، فكنت اخرج مع جدي إلى بني مروان حين ملكوا بالشام، فإذا رآهم غلمانا احداثا، قال لنا: عسى هؤلاء ان يكونوا منهم، قلنا: انت اعلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَدِّي، قَالَ:" كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ وَمَعَنَا مَرْوَانُ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: سَمِعْتُ الصَّادِقَ الْمَصْدُوقَ، يَقُولُ:" هَلَكَةُ أُمَّتِي عَلَى يَدَيْ غِلْمَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ"، فَقَالَ مَرْوَانُ: لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ غِلْمَةً، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: لَوْ شِئْتُ أَنْ أَقُولَ بَنِي فُلَانٍ وَبَنِي فُلَانٍ لَفَعَلْتُ، فَكُنْتُ أَخْرُجُ مَعَ جَدِّي إِلَى بَنِي مَرْوَانَ حِينَ مُلِّكُوا بِالشَّأْمِ، فَإِذَا رَآهُمْ غِلْمَانًا أَحْدَاثًا، قَالَ لَنَا: عَسَى هَؤُلَاءِ أَنْ يَكُونُوا مِنْهُمْ، قُلْنَا: أَنْتَ أَعْلَمُ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے دادا سعید نے خبر دی، کہا کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بیٹھا تھا اور ہمارے ساتھ مروان بھی تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے صادق و مصدوق سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کی تباہی قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھ سے ہو گی۔ مروان نے اس پر کہا ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں ان کے خاندان کے نام لے کر بتلانا چاہوں تو بتلا سکتا ہوں۔ پھر جب بنی مروان شام کی حکومت پر قابض ہو گئے تو میں اپنے دادا کے ساتھ ان کی طرف جاتا تھا۔ جب وہاں انہوں نے نوجوان لڑکوں کو دیکھا تو کہا کہ شاید یہ انہی میں سے ہوں۔ ہم نے کہا کہ آپ کو زیادہ علم ہے۔

Narrated Abu Huraira: I heard the truthful and trusted by Allah (i.e., the Prophet ) saying, "The destruction of my followers will be through the hands of young men from Quraish."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 88, Number 180


   صحيح البخاري3605عبد الرحمن بن صخرهلاك أمتي على يدي غلمة من قريش
   صحيح البخاري7058عبد الرحمن بن صخرهلكت أمتي على يدي غلمة من قريش
   المعجم الصغير للطبراني777عبد الرحمن بن صخرهلاك أمتي على يدي أغيلمة من سفهاء قريش
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7058 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7058  
حدیث حاشیہ:
انہوں نے نام بنام ظالم حاکموں کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے تھے مگر ڈر کی وجہ سے بیان نہیں کر سکتے تھے۔
قسطلانی نے کہا اس بلا سے مراد وہ اختلاف ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اخیر خلافت میں ہوا یا وہ جنگ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں ہوئی۔
ابن ابی شیبہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نکالا ہے کہ میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں چھوکروں کی حکومت سے۔
اگر تم ان کا کہنا مانو تو دین کی تباہی ہے اور اگر نہ مانو تو وہ تم کو تباہ کر دیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7058   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7058  
حدیث حاشیہ:

حکومتی معاملات چلانے کے لیے جہاں وسیع تجربے،عقل وبصیرت اور وسیع علم کی ضرورت ہے وہاں بردباری اور بڑے حوصلے کی بھی ضرورت ہے۔
لیکن جب کم عقل،جاہل،ناتجربہ کاراور جذباتی قسم کے کھلنڈرے حکومت پر قابض ہوجائیں تو وہاں تباہی یقینی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی امر کی نشاندہی کی ہے کہ میری اُمت کی ہلاکت قریش کے بے وقوف چھوکروں کے ہاتھوں سے ہوگی جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" میری اُمت کی تباہی قریش کے بےوقوف کم عقل چھوکروں کے ہاتھوں سے ہوگی۔
" (مسند أحمد: 45/2)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس سے مراد حکمرانوں کا جسمانی طور پر نابالغ ہونا نہیں بلکہ عقلی طور پر ناپختہ کار، دینی اعتبار سے نااہل اور حکومت کے لحاظ سے نالائق لوگ مراد ہیں جیسا کہ امت سے مراد اس وقت کے لوگ یا اس کے قرب وجوار کے لوگ ہیں، نیز ہلاکت سے مراد بھی اخلاقی بربادی ہے۔
(فتح الباري: 13/13)
ابن بطال نے کہا ہے کہ ہلاکت کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
میں بچوں کی حکومت سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
لوگوں نے کہا:
اس سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے کہا کہ اگر تم ان کا کہا مانو گے تو تمہارے دین کی تباہی اور اگر تم ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تمھیں تباہ کر دیں گے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ ایسے حالات میں بغاوت کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ تباہی کا راستہ ہے، البتہ کلمہ حق کہنے میں کوتاہی نہ کی جائے۔
(سلسلة الأحادیث الصحیحة، رقم: 3191 والمصنف لابن أبي شیبة: 49/5، رقم: 19082 وفتح الباري: 14/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7058   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3605  
3605. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے صادق ومصدوق ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میری امت کی ہلاکت قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھوں ہوگی۔ مروان نے ازراہ تعجب کہا: نوجوانوں کے ہاتھوں سے؟حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا: اگر تو چاہتا ہے تو میں ان کے نام ذکر کیے دیتا ہوں: وہ فلاں فلاں کے بیٹے ہوں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3605]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ کو آنحضرت ﷺ نے ان کے نام بھی بتلائے ہوں گے جب تو ابوہریرہ ؓ کہتے تھے کہ 60ھ سے یا اللہ! مجھ کو بچائے رکھنا اور چھوکروں کی حکومت سے بچانا، یہی سال یزید کے بادشاہ ہونے کا ہے۔
اکثر نوجوان تجربات سے نہیں گزرنے پاتے، اس لیے بسا اوقات سیادت وقیادت میں وہ مخرب یعنی خرابیاں پیدا کرنے والے ثابت ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر رسولوں کو مقام رسالت چالیس سال کی عمر کے بعد ہی دیا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3605   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3605  
3605. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے صادق ومصدوق ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میری امت کی ہلاکت قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھوں ہوگی۔ مروان نے ازراہ تعجب کہا: نوجوانوں کے ہاتھوں سے؟حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا: اگر تو چاہتا ہے تو میں ان کے نام ذکر کیے دیتا ہوں: وہ فلاں فلاں کے بیٹے ہوں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3605]
حدیث حاشیہ:

ہلاکت سے مراد یہ ہے کہ بنو امیہ کے جوان ایسے کام کرنے لگیں گے جو لوگوں کی ہلاکت کا باعث ہوں گے اور ان کی وجہ سے لوگوں میں جنگ وجدال اور قتل و غارت ہو گی۔

امت سے مراد قیامت تک ہونے والے لوگ نہیں بلکہ اس وقت موجود یا قرب وجوار کے لوگ مراد ہیں۔

بعض لوگوں نے مروان کو بھی اس حدیث کا مصداق ٹھہرایا ہے حالانکہ ایک روایت میں ہے کہ جب مروان نے یہ حدیث سنی تو کہنے لگے۔
ان لڑکوں پر اللہ کی لعنت ہو۔
(صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7058)
اسی روایت میں کچھ اضافہ یوں ہے کہ راوی حدیث عمرو بن یحییٰ نے کہا:
میں اپنے دادا کے ہمراہ مروان کے پاس گیا جبکہ وہ ملک شام پر قابض ہو چکے تھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ نوجوان لڑکے تھے جو منصب حکومت پر برا جمان ہیں انھوں نے ہمیں فرمایا ممکن ہے کہ یہی اس حدیث کا مصداق ہوں۔
ہم نے کہا آپ ہی بہتر جانتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7058)
ممکن ہے کہ حدیث میں(غِلْمَةُ)
سے مراد بنو امیہ کے نوجوان ہوں کیونکہ شہادت عثمان ؓ کے بعد بنو امیہ کے ہاتھوں بہت سے مسلمان مارے گئے بہر حال اس حدیث میں بھی امور مستقبلہ کی خبر ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے جو خبر دی اس کےمطابق ہی ہوا جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3605   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.