(مرفوع) حدثني عبد الله بن محمد، حدثنا ازهر، عن ابن عون. ح وحدثني خليفة، حدثنا معاذ، حدثنا ابن عون، عن محمد، حدثنا قيس بن عباد، عن عبد الله بن سلام، قال:" رايت كاني في روضة ووسط الروضة عمود في اعلى العمود عروة، فقيل لي، ارقه، قلت، لا استطيع، فاتاني وصيف فرفع ثيابي، فرقيت، فاستمسكت بالعروة، فانتبهت وانا مستمسك بها، فقصصتها على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: تلك الروضة روضة الإسلام، وذلك العمود عمود الإسلام، وتلك العروة عروة الوثقى، لا تزال مستمسكا بالإسلام حتى تموت".(مرفوع) حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ. ح وحَدَّثَنِي خَلِيفَةُ، حَدَّثَنَا مُعَاذٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ عُبَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ:" رَأَيْتُ كَأَنِّي فِي رَوْضَةٍ وَوَسَطَ الرَّوْضَةِ عَمُودٌ فِي أَعْلَى الْعَمُودِ عُرْوَةٌ، فَقِيلَ لِي، ارْقَهْ، قُلْتُ، لَا أَسْتَطِيعُ، فَأَتَانِي وَصِيفٌ فَرَفَعَ ثِيَابِي، فَرَقِيتُ، فَاسْتَمْسَكْتُ بِالْعُرْوَةِ، فَانْتَبَهْتُ وَأَنَا مُسْتَمْسِكٌ بِهَا، فَقَصَصْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تِلْكَ الرَّوْضَةُ رَوْضَةُ الْإِسْلَامِ، وَذَلِكَ الْعَمُودُ عَمُودُ الْإِسْلَامِ، وَتِلْكَ الْعُرْوَةُ عُرْوَةُ الْوُثْقَى، لَا تَزَالُ مُسْتَمْسِكًا بِالْإِسْلَامِ حَتَّى تَمُوتَ".
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ازہر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عون نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے خلیفہ نے بیان کیا، ان سے معاذ نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے محمد نے، ان سے قیس بن عباد نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے (خواب) دیکھا کہ گویا میں ایک باغ میں ہوں اور باغ کے بیچ میں ایک ستون ہے جس کے اوپر کے سرے پر ایک حلقہ ہے۔ کہا گیا کہ اس پر چڑھ جاؤ۔ میں نے کہا کہ میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ پھر میرے پاس خادم آیا اور اس نے میرے کپڑے چڑھا دئیے پھر میں اوپر چڑھ گیا اور میں نے حلقہ پکڑ لیا، ابھی میں اسے پکڑے ہی ہوئے تھا کہ آنکھ کھل گئی۔ پھر میں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ باغ اسلام کا باغ تھا اور وہ ستون اسلام کا ستون تھا اور وہ حلقہ «عروة الوثقى» تھا، تم ہمیشہ اسلام پر مضبوطی سے جمے رہو گے یہاں تک کہ تمہاری وفات ہو جائے گی۔
Narrated `Abdullah bin Salam: (In a dream) I saw myself in a garden, and there was a pillar in the middle of the garden, and there was a handhold at the top of the pillar. I was asked to climb it. I said, "I cannot." Then a servant came and lifted up my clothes and I climbed (the pillar), and then got hold of the handhold, and I woke up while still holding it. I narrated that to the Prophet who said, "The garden symbolizes the garden of Islam, and the handhold is the firm Islamic handhold which indicates that you will be adhering firmly to Islam until you die."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 87, Number 142
رأيت كأني في روضة ووسط الروضة عمود في أعلى العمود عروة فقيل لي ارقه قلت لا أستطيع فأتاني وصيف فرفع ثيابي فرقيت فاستمسكت بالعروة فانتبهت وأنا مستمسك بها فقصصتها على النبي فقال تلك الروضة روضة الإسلام وذلك العمود عمود الإسلام وتلك العروة عروة الوثقى لا تزال
رأيت رؤيا على عهد النبي فقصصتها عليه ورأيت كأني في روضة ذكر من سعتها وخضرتها وسطها عمود من حديد أسفله في الأرض وأعلاه في السماء في أعلاه عروة فقيل له ارقه قلت لا أستطيع فأتاني منصف فرفع ثيابي من خلفي فرقيت حتى كنت في أعلاها فأخذت بالعروة فقيل له استمسك فا
رأيتني في روضة ذكر سعتها وعشبها وخضرتها ووسط الروضة عمود من حديد أسفله في الأرض وأعلاه في السماء في أعلاه عروة فقيل لي ارقه فقلت له لا أستطيع فجاءني منصف قال ابن عون والمنصف الخادم فقال بثيابي من خلفي وصف أنه رفعه من خلفه بيده فرقيت حتى كنت في أعلى العمود
من سره أن ينظر إلى رجل من أهل الجنة فلينظر إلى هذا فأعجبني أن أكون معك قال الله أعلم بأهل الجنة وسأحدثك مم قالوا ذاك إني بينما أنا نائم إذ أتاني رجل فقال لي قم فأخذ بيدي فانطلقت معه قال فإذا أنا بجواد عن شمالي قال فأخذت لآخذ فيها فقال لي لا تأخذ فيها فإنه
رأيت خيرا أما المنهج العظيم فالمحشر وأما الطريق التي عرضت عن يسارك فطريق أهل النار ولست من أهلها وأما الطريق التي عرضت عن يمينك فطريق أهل الجنة وأما الجبل الزلق فمنزل الشهداء وأما العروة التي استمسكت بها فعروة الإسلام فاستمسك بها حتى تموت فأنا أرجو أن أكو
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7014
حدیث حاشیہ: اہل تعبیر کہتے ہیں کہ حلقہ اور عروہ سے مراد پکڑنے والے کی دینی قوت اور اس کا اخلاق ہے۔ حدیث میں عروہ ثقی سے درج ذیل آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔ ”جو شخص طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایسے مضبوط حلقے کو تھام لیا جو کسی صورت میں ٹوٹ نہیں سکتا۔ “(البقرة: 256/2) حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بیدار ہوئے تو عروہ ثقی ان کے ہاتھ میں تھا۔ شارحین نے دو طرح سے اس کا مفہوم بیان کیا ہے۔
میں اسے پکڑے ہوئے تھا کہ میری آنکھ کھل گئی یعنی خواب میں اسے پکڑے ہوئے تھا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ بیداری کے وقت اللہ تعالیٰ کی قدرت سے حلقے اور کڑے کو پکڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا کرنا مشکل نہیں۔ (عمدة القاري: 295/16)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7014
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3920
´خواب کی تعبیر کا بیان۔` خرشہ بن حرر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ آیا تو مسجد نبوی میں چند بوڑھوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا، اتنے میں ایک بوڑھا اپنی لاٹھی ٹیکتے ہوئے آیا، تو لوگوں نے کہا: جسے کوئی جنتی آدمی دیکھنا پسند ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے، پھر اس نے ایک ستون کے پیچھے جا کر دو رکعت نماز ادا کی، تو میں ان کے پاس گیا، اور ان سے عرض کیا کہ آپ کی نسبت کچھ لوگوں کا ایسا ایسا کہنا ہے؟ انہوں نے کہا: الحمدللہ! جنت اللہ کی ملکیت ہے وہ جسے چاہے اس میں داخل فرمائے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک خواب دیکھا تھا، میں نے دیکھا، گویا ایک شخص میرے پاس آیا،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3920]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے یہودی مذہب پر تھےاور ان کے بہت بڑے عالم تھے۔
(2) دین پر مرتے وقت دم تک قائم رہنا نجات کا باعث ہے۔
(3) شہادت کے منصب کو پھسلواں پہاڑ سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جس طرح پھسلن والے پہاڑ پر چڑھنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح جہاد کرکے شہادت حاصل کرنا، مشکل ہے لیکن وہ پہاڑ کی طرح بلند اور عظیم مقام ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3920
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6381
قیس بن عباد رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں،میں مدینہ منورہ میں کچھ لوگوں کےساتھ تھا جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی تھے،پھر ایک شخص آیا جس کے چہرے پر خشوع کا اثر(نظر آتا) تھا،لوگوں میں سے ایک نے کہا:یہ اہل جنت میں سے ایک آدمی ہے۔اس آدمی نے دو رکعت نماز پڑھی جن میں اختصار کیا پھر چلاگیا۔میں بھی اس کے پیچھے گیا،پھر وہ اپنے گھر میں داخل ہوگیا،میں بھی (اجازت) لے کر اندر گیا،پھر ہم نے آپس میں باتیں کیں۔جب وہ کچھ میرے ساتھ مانوس ہوگئے تو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6381]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: ما ينبغي لاحد ان يقول مالايعلم: کسی کو کوئی بات بلا سند و دلیل نہیں کرنی چاہیے، انہوں نے تجھے یہ تو بتا دیا کہ یہ جنتی ہے، لیکن اس کی دلیل اور سند بیان نہیں کی، اس لیے میں تمہیں اس کا سبب اور پس منظر بتاتا ہوں، تاکہ تم بات دلیل سے کر سکو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6381
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6383
خرشہ بن حر رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں مدینہ منورہ کی مسجد کے اندر ایک حلقے میں بیٹھا ہوا تھا،کہا:اس میں خوبصورت ہیت والے ایک حسین وجمیل بزرگ بھی موجود تھے۔وہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،کہا:انھوں نے ان لوگوں کو خوبصورت احادیث سنانی شروع کردیں،کہا: جب وہ کھڑے ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا معلوم ہو، وہ اس کو دیکھے۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اللہ کی قسم میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور ان کا گھر دیکھوں گا۔ پھر میں ان کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6383]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) جواد: جادة کی جمع ہے، دال پر شد ہے، شاہراہ عام، وہ کھلا راہ جس پر لوگ چلتے ہوں۔ (2) جواد، منهج: شاہراہ عام جو مستقیم اور سیدھی ہو۔ کیونکہ نهج سیدھے راستہ کو کہتے ہیں، کھلا، واضح اور سیدھا راستہ۔ (3) زجل بي: مجھے پھینک دیا، یعنی اوپر چڑھا دیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6383
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3813
3813. حضرت قیس بن عباد سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں مسجد نبوی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بزرگ مسجد میں داخل ہوئے جن کے چہرے پر خشوع کے اثرات تھے۔ لوگوں نے کہا: یہ بزرگ جنتی ہیں۔ انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں۔ ان میں اختصار کیا۔ پھر وہ باہر چلے گئے تو میں ان کے پیچھے ہو لیا اور عرض کی: جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں نے کہا تھا کہ یہ بزرگ جنتی ہیں۔ انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! کسی کے لیے ایسی بات منہ سے نکالنا جائز نہیں جسے وہ نہ جانتا ہو۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ دراصل میں نے نبی ﷺ کے عہد مبارک میں ایک خواب دیکھا اور آپ ﷺ سے اسے بیان کیا۔ میں نے دیکھا گویا میں ایک باغ میں ہوں۔ انہوں نے اس کی کشادگی اور شادابی بیان کی۔ پھر کہا: اس باغ کے درمیان ایک لوہے کا ستون ہے جس کا نچلا حصہ زمین میں اور اوپر والا آسمان میں ہے، اوپر کی طرف ایک کنڈا لگا ہوا ہے۔ خواب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3813]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ جب خواب سے بیدار ہوئے تھے تو عروہ وثقیٰ کو تھامے ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کنڈا پکڑنے کے بعد اور اسے چھوڑنے سے پہلے بیدار ہوگئے، یعنی کنڈا پکڑنے اور بیدارہونے میں کوئی فاصلہ واقع نہیں ہواتھا یا بیدا رہونے کےبعد مٹھی بھرے ہوئے تھے جیسا کہ کوئی چیز پکڑے ہوئے ہیں۔ 2۔ اس عروہ وثقیٰ سے مراد ایمان ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اب جو شخص طاغوت سے کفر کرے اوراللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایسے مضبوط حلقے کو تھام لیا جو ٹوٹ نہیں سکتا۔ “(البقرة: 256/2) 3۔ اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کی فضیلت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تم مرتے دم تک اسلام پر قائم رہو گے۔ “ واللہ اعلم۔ (فتح الباري: 166/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3813