الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q7015
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: Q7015 باب: «بَابُ عَمُودِ الْفُسْطَاطِ تَحْتَ وِسَادَتِهِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب تکیہ کے نیچے خیمہ کا ستون دیکھنے پر قائم فرمایا اور تحت الباب بیاض چھوڑ دیا، یعنی کسی حدیث کا ذکر نہیں فرمایا، شاہ ولی اللہ محدث الدہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «أشار لهذه الترجمة إلى حديث أخرجه أحمد بسند صحيح عن أبى الدرداء عن النبى صلى الله عليه وسلم بينا أنا نائم رأيت عمود الكتاب احتمل من تحت رأسي فاتبعته بصري فإذا هو قد عمد به إلى الشام.»(1) ”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کے ذریعے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ نے صحیح سند سے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا ہے کہ میں سو رہا تھا تو میں نے دیکھا خواب میں عمود الکتاب کو کہ وہ میرے سر کے نیچے سے بلند ہوئی، مجھے خیال ہوا کہ کہیں یہ مجھے لے جا رہی ہے تو نظر پیچھے لگائی تو شام کی طرف رواں دواں تھی۔“ اسی مفہوم کی اور بھی احادیث کتب احادیث میں منقول ہیں، جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں نقل فرمایا ہے، ایک حدیث سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: «عن عبدالله بن عمرو بن العاص رضي الله عنه سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: بينا أنا نائم رأيت عمود الكتاب أحتمل من تحت رأسي فأتبعته بصري فإذا هو قد عهد به إلى الشام، الا و إن الايمان حين تقع الفتن بالشام.» دوسری روایت بھی انہی سے مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: «أخذوا عمود الكتاب فعمدوا به إلى الشام.» سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ایک اور حدیث وارد ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: «بينا أنا نائم رأيت عمود الكتاب احتمل من تحت رأسي فظننت أنه مذهوب به فأتبعته بصري فعمد به إلى الشام.» ایک اور حدیث اسی کے مفہوم سے ملتی جلتی ہے جسے امام طبرانی رحمہ اللہ نے حسن سند سے ذکر فرمایا ہے، سیدنا عبداللہ بن خوالۃ رضی اللہ عنہ اس کے راوی ہیں، آپ فرماتے ہیں: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: رأيت ليلة أسري لي عمودًا أبيض كأنه لواء تحمله الملائكة، فقلت ما تحملون؟ قالوا عمود الكتاب أمرنا أن نضعه بالشام.»(1) چوتھی حدیث وہ ہے جو ہم نے ابتداء میں ذکر کی ہے جس کی طرف شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے، اب ان چاروں احادیث کے طریق میں امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود اشارہ کس حدیث کی طرف ہے؟ تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس بابت تحریر فرماتے ہیں: «و أقربها إلى شرط البخاري حديث أبى درداء فانه أخرج لرواية إلا أن فيه اختلافًا على يحيي بن حمزة من شيخه هل هو ثور بن يزيد أو زيد بن واقد، و هو غير قادح لأن كلا منهما ثقة من شرطه فلعله كتب الترجمة وبيض للحديث لينظر فيه فلم يتهيأ له أن يكتبه.»(2) ”امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے قریب (ان احادیث میں) ابوداؤد رحمہ اللہ کی حدیث ہے، البتہ اس میں یحیی بن حمزہ پر ان کے شیخ کی نسبت سے اختلاف ہے کہ آیا یہ ثور بن یزید ہیں یا زید بن واقد؟ اور یہ غیر قادح ہیں کیوں کہ یہ دونوں ان کی شرط پر ہیں، تو شاید ترجمۃ الباب لکھ کر حدیث کے لیے جگہ خالی چھوڑی ہوئی تھی تاکہ کوئی مناسب طریق نقل کریں مگر اس کی مہلت مل سکی۔“ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس تفصیلی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ والی حدیث کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں، مگر پھر بھی ترجمۃ الباب اور حدیث سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے۔ حدیث پر ایک اشکال اور اس کا جواب: ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے «عمود الفسطاط» کا ذکر فرمایا ہے جبکہ جس حدیث کی طرف آپ اشارہ فرمارہے ہیں، اس میں «عمود الكتاب» کے الفاظ ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے قمطراز ہیں: «و انما ترجم ترجم بعمود الفسطاط و لفظ الخبر ”في عمود الكتاب“ إشارة إلى أن من رأي عمود الفسطاط فى منامه فإنه يعبر بنحو ما وقع فى الخبر المذكور.»(1) ”ترجمہ میں «عمود الفسطاط» ہے جبکہ روایت میں «عمود الكتاب» ہے، دراصل یہ لفظ یہ باور کروانے کے لیے لکھا ہے کہ جو خواب میں «عمود الفسطاط»(خیمے کا ستون) دیکھے تو اس کی تعبیر اس مذکورہ روایت کے خواب کی مانند ہو گی، ماہرین تعمیرات کا یہی کہنا ہے کہ جو خواب میں ستون دیکھے اس کی تعبیر دین کے ساتھ ہے یا ایسے شخص کے ساتھ کی جائے گی جو دین کے سلسلہ میں معتمد ہو۔“
(مرفوع) حدثنا معلى بن اسد، حدثنا وهيب، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" رايت في المنام كان في يدي سرقة من حرير لا اهوي بها إلى مكان في الجنة إلا طارت بي إليه، فقصصتها على حفصة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ فِي يَدِي سَرَقَةً مِنْ حَرِيرٍ لَا أَهْوِي بِهَا إِلَى مَكَانٍ فِي الْجَنَّةِ إِلَّا طَارَتْ بِي إِلَيْهِ، فَقَصَصْتُهَا عَلَى حَفْصَةَ.
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میرے ہاتھ میں ریشم کا ایک ٹکڑا ہے اور میں جنت میں جس جگہ جانا چاہتا ہوں وہ مجھے اڑا کر وہاں پہنچا دیتا ہے۔ میں نے اس کا ذکر حفصہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔
Narrated Ibn `Umar: I saw in a dream a piece of silken cloth in my hand, and in whatever direction in Paradise I waved it, it flew, carrying me there. I narrated this (dream) to (my sister)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 87, Number 143
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7015
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7015 کا باب: «بَابُ الإِسْتَبْرَقِ وَدُخُولِ الْجَنَّةِ فِي الْمَنَامِ:» باب اورحدیث میں مناسبت: بظاہر باب اور حدیث میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہے مگر غور کیا جائے تو ترحمۃ الباب میں «الاستبرق» کا ذکر ہے جبکہ حدیث میں یہ لفظ مذکور نہیں ہے۔ لہٰذا اس جگہ باب اور حدیث میں اختلاف نظر آتا ہے۔ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «فكأن البخاري أشار إلى روايته فى الترجمة وقد أخرجه أيضًا فى ”باب من تعار من الليل“ من كتاب التهجد.»[فتح الباري لابن حجر: 345/13] ”یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث میں استبرق کا ذکر نہیں ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اس حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جسے «كتاب التهجد، باب تعار من الليل» میں نقل فرمایا ہے جس میں صاف طور پر یہ الفاظ موجود ہیں: «كان بيدي قطعة استبرق» اور اسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی نقل فرمایا ہے کہ «كأنما فى يدي قطعة استبرق» گویا کہ میرے ہاتھ میں استبرق کا ٹکڑا ہے۔“ لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسب ہو گی۔