وقال اهل العلم: يقتل الرجل بالمراة، ويذكر عن عمر: تقاد المراة من الرجل في كل عمد يبلغ نفسه فما دونها من الجراح، وبه قال عمر بن عبد العزيز، وإبراهيم وابو الزناد، عن اصحابه، وجرحت اخت الربيع إنسانا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: القصاص.وَقَالَ أَهْلُ الْعِلْمِ: يُقْتَلُ الرَّجُلُ بِالْمَرْأَةِ، وَيُذْكَرُ عَنْ عُمَرَ: تُقَادُ الْمَرْأَةُ مِنَ الرَّجُلِ فِي كُلِّ عَمْدٍ يَبْلُغُ نَفْسَهُ فَمَا دُونَهَا مِنَ الْجِرَاحِ، وَبِهِ قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَإِبْرَاهِيمُ وَأَبُو الزِّنَادِ، عَنْ أَصْحَابِهِ، وَجَرَحَتْ أُخْتُ الرُّبَيِّعِ إِنْسَانًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْقِصَاصُ.
اہل علم نے کہا ہے کہ مرد کو عورت کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عورت سے مرد کے قتل مثل عمد یا اس سے کم دوسرے زخموں کا قصاص لیا جائے۔ یہی قول عمر بن عبدالعزیز، ابراہیم، ابوالزناد کا اپنے اساتذہ سے منقول ہے۔ اور ربیع کی بہن نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کو زخمی کر دیا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ فرمایا تھا۔
(مرفوع) حدثنا عمرو بن علي بن بحر، حدثنا يحيى، حدثنا سفيان، حدثنا موسى بن ابي عائشة، عن عبيد الله بن عبد الله، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" لددنا النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه، فقال: لا تلدوني، فقلنا: كراهية المريض للدواء، فلما افاق، قال: لا يبقى احد منكم إلا لد غير العباس فإنه لم يشهدكم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيِّ بْنِ بَحْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" لَدَدْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ، فَقَالَ: لَا تُلِدُّونِي، فَقُلْنَا: كَرَاهِيَةُ الْمَرِيضِ لِلدَّوَاءِ، فَلَمَّا أَفَاقَ، قَالَ: لَا يَبْقَى أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَّا لُدَّ غَيْرَ الْعَبَّاسِ فَإِنَّهُ لَمْ يَشْهَدْكُمْ".
ہم سے عمر بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں (مرض الوفات کے موقع پر) آپ کی مرضی کے خلاف ہم نے دوا ڈالی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے حلق میں دوا نہ ڈالو لیکن ہم نے سمجھا کہ مریض ہونے کی وجہ سے دوا پینے سے نفرت کر رہے ہیں لیکن جب آپ کو ہوش ہوا تو فرمایا کہ تم جتنے لوگ گھر میں ہو سب کے حلق میں زبردستی دوا ڈالی جائے سوا عباس رضی اللہ عنہ کے کہ وہ اس وقت موجود نہیں تھے۔
Narrated `Aisha: We poured medicine into the mouth of the Prophet during his ailment. He said, "Don't pour medicine into my mouth." (We thought he said that) out of the aversion a patient usually has for medicines. When he improved and felt better he said, "There is none of you but will be forced to drink medicine, except Al-`Abbas, for he did not witness your deed."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 83, Number 25
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6886
حدیث حاشیہ: (1) یہ مرض وفات کا واقعہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روکنے کے باوجود تمام اہل خانہ نے آپ کے منہ میں زبردستی دوا ڈال دی تو آپ نے بدلے کے طور پر تمام اہل مجلس کے منہ میں دوائی ڈالنے کا حکم دیا۔ چونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہما اس وقت وہاں موجود نہ تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس سزا سے الگ رکھا۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس حدیث میں اشارہ ہے کہ اگر عورت کسی مرد کو کو زخمی کرتی ہے تو اس سے بھی بدلہ لیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں مرد اور عورتیں ہر قسم کے لوگ تھے، چنانچہ بعض روایات میں تصریح ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کے منہ میں بھی دوائی ڈالی گئی تھی، حالانکہ وہ روزے سے تھیں کیونکہ وہ بھی اس مجلس میں موجود تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی امر دیا تھا جس کی زد میں وہ بھی آگئیں۔ (فتح الباري: 268/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6886
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5761
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہہ ہم نے رسول اللہ ﷺ بیماری میں آپﷺ کو منہ کے ایک طرف سے دوائی پلانی چاہی تو رسول اللہ ﷺ نے اشارہ سے فرمایا: ”مجھے منہ کے ایک طرف سے دوائی نہ پلاؤ تو ہم نے کہا بیمار دوا لینا پسند نہیں کرتاہے تو جب آپﷺ کو افاقہ ہوا، آپﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر فرد کو سوائے عباس کے لدود کیا جائے کیونکہ وہ تمھارے ساتھ موجود نہیں تھے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5761]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: لددنا: ہم نے(آپ کی مرضی کےخلاف) آپ کے منہ ایک طرف سے دوائی پلائی، کیونکہ لدود، اس دوا کو کہتے ہیں، جو منہ کے ایک جانب سے دی جائے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، سمجھ میں آنے والا، اشارہ تصریح کے قائم مقام ہے، چونکہ لُدُود، آپ کی بیماری کے مناسب نہ تھا، اس لیے آپ نے اس سے منع فرمایا، لیکن ازواج مطہرات نے خیال کیا، آپﷺ بیمار ہونے کے باعث دوا لینا پسند نہیں کر رہے، اس لیے انہوں نے آپ کے حکم پر عمل نہ کیا تو آپ نے آئندہ حرکت سے باز رہنے کے لیے تادب و سرزنش کے طور پر سب حاضرین کو لدود کروایا، یہ قصاص یا انتقام کے جذبہ کے تحت نہ تھا، کیونکہ آپ کا معمول تو عفو و درگزر تھا، انتقام لینا نہ تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے، لدود کو ناپسند کرنا مخصوص حالات و ظروف کی بنا پر تھا، اس لیے اس سے لدود کی ناپسندیدگی پر استدلال زیادہ وزنی نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5761
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4458
4458. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم نے آپ ﷺ کو بصورت لدود دوا پلانا چاہی تو آپ نے منع فرمایا۔ ہم سمجھے کہ آپ کا منع کرنا ایسا ہے جیسے ہر مریض دوا سے کراہت کرتا ہے۔ پھر آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں منع نہیں کرتا رہا کہ مجھے لدود کی صورت میں دوا مت پلاؤ؟“ ہم نے عرض کی: مریض تو منع کیا ہی کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”گھر میں کوئی آدمی باقی نہ رہے، سب کے منہ میں دوا ڈالی جائے، صرف حضرت عباس کو چھوڑ دو کیونکہ وہ اس وقت تمہارے ساتھ موجود نہیں تھے۔“ یہ روایت ابو الزناد نے بھی بیان کی ہے ہشام سے، انہوں نے اپنے والد (عروہ) سے، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4458]
حدیث حاشیہ: 1۔ منہ کے ایک کنارے سے دوائی ڈالنے کو لدود، جو دوائی حلق میں ڈالی جائے اسے وجور اور جو ناک میں ڈالی جائے اسے سعوط کہا جاتا ہے۔ آپ کو نمونیا کی شکایت تھی۔ حضرت اُم سلمہ ؓ اور حضرت اسماء بنت عمیس ؓ نے کہا کہ قسط ہندی کو تیل میں ملا کر لدود کیا جائے۔ چنانچہ بصورت لدود آپ کو دوادی گئی تو آپ نے فرمایا۔ یہ عورتوں کا ٹوٹکا ہے۔ میرے روکنے کے باوجود تم نے ایسا کیا ہے اب تمھارے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا حتی کہ اُم المومنین حضرت میمونہ ؓ روزے کی حالت میں تھیں ان کے ساتھ بھی یہ برتاؤ کیا گیا۔ 2۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تمام اہل خانہ کو ادب سکھانے کے لیے بصورت لدود ان کے منہ میں دوا ڈالنے کا حکم دیا، تاکہ آئندہ ایسی حرکت نہ کریں۔ یہ اقدام قصاص یا انتقام کی وجہ سے نہ تھا۔ (فتح الباري: 185/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4458
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6897
6897. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ ﷺ کی بیماری کے وقت آپ کے منہ میں دوائی ڈالی تو آپ نے ہمیں اشارہ فرمایا: ”تم ایسا نہ کرو۔“ ہم نے سمجھا کا منع کرنا اس لیے ہے کہ بیمار کو دوا سے ناگواری ہوتی ہے، چنانچہ جب آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں دوائی ڈالنے سے روکا تھا؟“ ہم نے کہا: ہم یہ سمجھے تھے کہ دوا کی ناپسندیدگی کی وجہ سے آپ ایسا فرما رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کے منہ میں دوائی ڈالی جائے اور میں دیکھتا رہوں گا، البتہ عباس کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جائے کیونکہ وہ تمہارے ساتھ شامل نہیں تھے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6897]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے اگرچہ صاف طور پر قصاص ثابت نہیں ہوتا، تاہم یہ بات واضح ہے کہ ایک کام میں جو حضرات شریک تھے ان سب سے قصاص لیا گیا یا انھیں سزا دی گئی۔ بہرحال جب معمولی اشیاء میں قصاص ہے تو بڑے بڑے کاموں میں اگر کئی لوگ شریک ہو جائیں تو ان سے بطریق اولی قصاص لیا جائے گا، جیسے: قتل اور چوری وغیرہ میں تمام شرکاء کو قصاص میں شامل کیا جائے گا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6897