(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، حدثنا ابو سلمة، ان ابا هريرة رضي الله عنه، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن الوصال، فقال له رجال من المسلمين: فإنك يا رسول الله تواصل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ايكم مثلي، إني ابيت يطعمني ربي ويسقين، فلما ابوا ان ينتهوا عن الوصال، واصل بهم يوما، ثم يوما، ثم راوا الهلال، فقال: لو تاخر لزدتكم كالمنكل بهم، حين ابوا"، تابعه شعيب، ويحيى بن سعيد، ويونس، عن الزهري، وقال عبد الرحمن بن خالد، عن ابن شهاب، عن سعيد، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ الْوِصَالِ، فَقَالَ لَهُ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ: فَإِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُوَاصِلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّكُمْ مِثْلِي، إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِ، فَلَمَّا أَبَوْا أَنْ يَنْتَهُوا عَنِ الْوِصَالِ، وَاصَلَ بِهِمْ يَوْمًا، ثُمَّ يَوْمًا، ثُمَّ رَأَوْا الْهِلَالَ، فَقَالَ: لَوْ تَأَخَّرَ لَزِدْتُكُمْ كَالْمُنَكِّلِ بِهِمْ، حِينَ أَبَوْا"، تَابَعَهُ شُعَيْبٌ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَيُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال (مسلسل افطار کے بغیر کئی دن کے روزے رکھنے) سے منع فرمایا تو بعض صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ خود تو وصال کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کون مجھ جیسا ہے؟ میرا تو حال یہ ہے کہ مجھے میرا رب کھلاتا ہے اور پلاتا ہے لیکن وصال کرنے سے صحابہ نہیں رکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ایک دن کے بعد دوسرے دن کا وصال کیا پھر اس کے بعد لوگوں نے چاند دیکھ لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر (عید کا) چاند نہ دکھائی دیتا تو میں اور وصال کرتا۔ یہ آپ نے تنبیہاً فرمایا تھا کیونکہ وہ وصال کرنے پر مصر تھے۔ اس روایت کی متابعت شعیب، یحییٰ بن سعید اور یونس نے زہری سے کی ہے اور عبدالرحمٰن بن خالد فہمی نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle forbade Al-Wisal (fasting continuously for more than one day without taking any meals). A man from the Muslims said, "But you do Al-Wisal, O Allah's Apostle!" Allah's Apostle I said, "Who among you is similar to me? I sleep and my Lord makes me eat and drink." When the people refused to give up Al-Wisal, the Prophet fasted along with them for one day, and did not break his fast but continued his fast for another day, and when they saw the crescent, the Prophet said, "If the crescent had not appeared, I would have made you continue your fast (for a third day)," as if he wanted to punish them for they had refused to give up Al-Wisal.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 82, Number 834
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6851
حدیث حاشیہ: یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے کہ آپ نے ان کو سزا دینے کے طور پر ایک دن بھوکا رکھا پھر دوسرے دن بھوکا رکھا۔ اتفاق سے چاند ہو گیا ورنہ آپ اور روزے رکھے جاتے کہ دیکھیں کہاں تک یہ لوگ صبر کرتے ہیں۔ اس سے صحابہ پر حکم عدولی کا الزام ثابت ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کا حکم فرمانا بطور حکم کے نہ تھا ورنہ صحابہ اس کے خلاف ہرگز نہ کرتے بلکہ ان پر شفقت اور مہربانی کے طور پر تھا۔ جب انہوں نے یہ آسانی پسند نہ کی تو آپ نے فرمایا اچھا یوں ہی سہی اب دیکھیں کتنے دن تک تم وصال کر سکتے ہو۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ امام یا حاکم قول یا فعل سے یا جس طرح چاہے مجرم کو تعزیر دے سکتا ہے۔ اس طرح مالی نقصان دے کر یعنی جرمانہ وغیرہ کر کے۔ ہمارے امام ابن قیم نے اپنی کتاب القضا میں اس کی بہت سی دلیلیں بیان کی ہیں کہ تعزیر بالمال ہماری شریعت میں درست ہے مگر بعض لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے جو ان کی غلطی ہے۔ حضرت سعید بن مسیب قریشی مخزومی مدنی ہیں۔ خلافت فاروقی میں پیدا ہوئے، فقہ و حدیث کے امام زہر اور عبادت میں یکتائے روزگار ہیں۔ مکحول نے کہا کہ میں بہت سے شہروں میں گھوما مگر سعید سے بڑا عالم میں نے نہیں پایا عمر بھر میں چالیس بار حج کیا۔ سنہ 93ھ میں فوت ہوئے۔ رحمة اللہ علیه۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6851
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6851
حدیث حاشیہ: وصال کے معنی ہیں: دوروزوں کو اس طرح ملانا کہ ان کے درمیان کچھ کھایا پیا نہ جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ کے طور پر لوگوں کے ساتھ مذکورہ برتاؤ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بھوکا رکھنے سے بھی تنبیہ ہو سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی طرح سے تنبیہ فرمایا کرتے تھے جیسا کہ آپ نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”بے شک تم ایسے آدمی ہو جس میں ابھی تک جاہلیت کی خصلت موجود ہے۔ “(صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 30) مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرنے والے کے متعلق فرمایا: ”اللہ تجھے واپس نہ کرے۔ “(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1260(568) مسجد میں تجارت کرنے والے کے متعلق حکم ہے کہ اسے کہا جائے: ”اللہ تعالیٰ تیری تجارت کو نفع مند نہ کرے۔ “(جامع الترمذي، البیوع، حدیث: 1321) لیکن تنبیہ کے لیے طعن وتشنیع، گالی گلوچ اور فحش کلامی جائز نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6851