27. باب: جب کوئی شخص حد (والے گناہ) کا اقرار غیر واضح طور پر کرے تو کیا امام کو اس کی پردہ پوشی کرنی چاہئے۔
(27) Chapter. If a person confesses that he has committed a sin that is punishement with one of the legal punishement but does not specify what sin it has been, can the ruler screen it for him?
(مرفوع) حدثنا عبد القدوس بن محمد، حدثني عمرو بن عاصم الكلابي، حدثنا همام بن يحيى، حدثنا إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال:" كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم، فجاءه رجل، فقال: يا رسول الله، إني اصبت حدا فاقمه علي، قال: ولم يساله عنه، قال: وحضرت الصلاة فصلى مع النبي صلى الله عليه وسلم، فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة، قام إليه الرجل، فقال: يا رسول الله، إني اصبت حدا، فاقم في كتاب الله، قال: اليس قد صليت معنا؟ قال: نعم، قال: فإن الله قد غفر لك ذنبك او قال حدك".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلَابِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ، قَالَ: وَلَمْ يَسْأَلْهُ عَنْهُ، قَالَ: وَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، قَامَ إِلَيْهِ الرَّجُلُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا، فَأَقِمْ فِيَّ كِتَابَ اللَّهِ، قَالَ: أَلَيْسَ قَدْ صَلَّيْتَ مَعَنَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ ذَنْبَكَ أَوْ قَالَ حَدَّكَ".
مجھ سے عبدالقدوس بن محمد نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عاصم کلابی نے بیان کیا، ان سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ ایک صاحب کعب بن عمرو آئے اور کہا: یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے۔ آپ مجھ پر حد جاری کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ بیان کیا کہ پھر نماز کا وقت ہو گیا اور ان صاحب نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو وہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور کہا: یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے آپ کتاب اللہ کے حکم کے مطابق مجھ پر حد جاری کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ کیا تم نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اللہ نے تیرا گناہ معاف کر دیا یا فرمایا کہ تیری غلطی یا حد (معاف کر دی)۔
Narrated Anas bin Malik: While I was with the Prophet a man came and said, "O Allah's Apostle! I have committed a legally punishable sin; please inflict the legal punishment on me'.' The Prophet did not ask him what he had done. Then the time for the prayer became due and the man offered prayer along with the Prophet , and when the Prophet had finished his prayer, the man again got up and said, "O Allah's Apostle! I have committed a legally punishable sin; please inflict the punishment on me according to Allah's Laws." The Prophet said, "Haven't you prayed with us?' He said, "Yes." The Prophet said, "Allah has forgiven your sin." or said, "....your legally punishable sin."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 82, Number 812
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6823
حدیث حاشیہ: غیرواضح اقرار پر آپ نے اس کو یہ بشارت پیش فرمائی آج بھی یہ بشارت قائم ہے۔ اگر کوئی شخص امام کے سامنے گول مول بیان کرے کہ میں نے حدی جرم کیا ہے تو امام اس کی پردہ پوشی کر سکتا ہے۔ تشریح: بعضوں نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ اگر کوئی حدی گناہ کر کے توبہ کرتا ہوا امام یا حاکم کے سامنے آئے تو اس پر سے حد ساقط ہو جاتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6823
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6823
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ اس واقعے کے علاوہ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ آدمی نے کسی عورت سے بوس وکنار کیا تھا اور اس واقعے میں ہے کہ اس نے کوئی قابل حد عمل کیا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ دو واقعات ہیں اور انھوں نے ان واقعات سے دو الگ الگ حکم ثابت کیے ہیں۔ (2) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص مبہم طریقے سے حد کا اعتراف کرتا ہے تو قاضی کو چاہیے کہ اس پر پردہ ڈالے، اس کی کرید نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا تجسس ہے جس کے متعلق قرآن نے حکم امتناعی جاری کیا ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس واقعے کی مزید تفصیل ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم گھر سے نماز کے ارادے سے نکلے تھے تو تم نے اچھی طرح وضو کیا تھا، پھر تم نے ہمارے ساتھ نماز باجماعت ادا کی تو ان کاموں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے تمھاری حد یا تمھارے گناہ کو معاف کر دیا ہے۔ “(صحیح مسلم، التوبة، حدیث: 7007(2765) امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس حدیث کے متعلق لوگوں کے تین موقف لکھے ہیں: ٭جرم کے واضح اعتراف اور غیر مبہم تعین کے بعد واجب ہوتی ہے جبکہ اقرار کرنے والا بار بار اس کا اصرار بھی کرے۔ ٭مذکورہ واقعہ صرف اسی شخص کے ساتھ خاص ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعۂ وحی اس سے مطلع کیا گیا تھا۔ ٭حد کا عمل کرنے کے بعد (معاملہ عدالت میں جانے سے پہلے) اگر توبہ کرلی جائے تو اس کی بدولت حد ساقط ہو جاتی ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس آخری موقف کو ترجیح دی ہے۔ (فتح الباري: 165/12) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک اگر کوئی غیر واضح بیان دے کہ میں نے حد والا جرم کیا ہے تو امام اس کی پردہ پوشی کر سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف پردہ پوشی کی بلکہ گناہوں کی بخشش کی بشارت بھی دی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6823
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7006
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!میں نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے آپ مجھ پر حد قائم کریں اور نماز کا وقت ہو گیا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب اس نے نماز ادا کر لی کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!میں نے گناہ کیا ہے، مجھ پر اللہ کا قانون (حکم) جاری فرمائیں، آپ نے پوچھا،" کیا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:7006]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس پر علماء امت کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی انسان ایسے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، جس پر حد مقرر ہے اور وہ گناہ شہادت یا اقرار سے ثابت ہوتا ہے تو اس پر حد لگانا ضروری ہے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ اس گناہ کی پردہ پوشی فرماتا ہے اور گناہ گار بھی اس کا اعتراف نہیں کرتا تو وہ توبہ و استغفار سے معاف ہو جاتا ہے، بعض روایات میں زنا کرنے کا ذکر ہے تا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے زناکے محرکات و دواعی یا اس کی پیش خیمہ کو زنا سمجھ لیا یا اس کے أصبحت حدا، میں حد کو پہنچ گیا، کہنے سے راوی نے، زنا سمجھ لیا، کیونکہ اگر اس نے صراحتا زنا کا اقرارواعتراف کرلیا تھا تو پھر اس سے وضاحت طلب کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ اصل صورتحال کیا ہے، کیونکہ کبیرہ گناہ توبہ سے معاف ہو سکتا ہے، محض نماز پڑھنے سے معاف نہیں ہو سکتا، الایہ کہ نماز کی دعاؤں میں اللهم اغفرلی کو عام کر لیا جائے، اس کو توبہ پر مشتمل مان لیا جائے۔