(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا سلمة بن كهيل، قال: سمعت الشعبي يحدث، عن علي رضي الله عنه" حين رجم المراة يوم الجمعة، وقال: قد رجمتها بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" حِينَ رَجَمَ الْمَرْأَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَقَالَ: قَدْ رَجَمْتُهَا بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ جب انہوں نے جمعہ کے دن عورت کو رجم کیا تو کہا کہ میں نے اس کا رجم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کیا ہے۔
Narrated Ash-Shu`bi: from `Ali when the latter stoned a lady to death on a Friday. `Ali said, "I have stoned her according to the tradition of Allah's Apostle."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 82, Number 803
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6812
حدیث حاشیہ: (1) روایات میں اس واقعے کی تفصیل بیان ہوئی ہے کہ شراحہ ہمدانیہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور اس نے زنا کا اعتراف کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: شاید تجھے خواب آیا ہو، شاید تیرا خاوند تیرے پاس آیا ہو، شاید تجھے اس پر مجبور کیا گیا ہو۔ اس نے ہر بات کا انکار کیا، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے جمعرات کے دن سو کوڑے مارے، پھر جمعہ کے دن اسے رجم کیا۔ لوگوں نے کہا: آپ نے دو حدیں جمع کی ہیں تو انھوں نے فرمایا: ہاں، میں نے اللہ کی کتاب کے مطابق کوڑے لگائے ہیں اور سنت رسول کے مطابق سنگسار کیا ہے۔ (النساء4: 15) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شادی شدہ زانی کو کوڑے بھی مارے جائیں اور سنگسار بھی کیا جائے۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں زنا کے متعلق پہلے درج ذیل حکم نازل ہوا تھا: ”تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کریں تو ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو۔ اگر وہ گواہی دےدیں تو انھیں گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انھیں موت آجائے یا اللہ ان کے لیے کوئی اور راہ پیدا کردے۔ “(مسند أحمد: 141/1) پھر اللہ تعالیٰ نے جس دوسری راہ کا اشارہ فرمایا اس کے متعلق درج ذیل حدیث قابل غور ہے، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی، جب وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”مجھ سے احکام شریعت سیکھ لو۔ اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے راستہ تجویز کر دیا ہے کہ کنوارا لڑکا کنواری لڑکی سے زنا کرے تو اس کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور اگر شادی شدہ عورت کے ساتھ شادی شدہ مرد زنا کرے تو اس کی سزا کوڑے اور رجم ہے۔ “(صحیح مسلم، الحدود، حدیث: 4414(1690) پھر اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں زانی مرد اور عورت کے لیے سزا تجویز فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”زانی عورت ہو یا مرد،ان میں سے ہر ایک کو سو،سوکوڑے لگاؤ، اگر تم اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتے ہوتو اللہ کے دین کے معاملے میں تمھیں ان دونوں پر ترس نہیں آنا چاہیے،اور مسلمانوں میں سے ایک گروہ ان کی سزا کے وقت موجود ہونا چاہیے۔ “(النور24: 2) اس ایت کریمہ میں مذکور سزا صرف کنوارے مرد اور کنواری عورت کے لیے ہے جب وہ زنا کا ارتکاب کریں کیونکہ یہ واقعہ 6 ہجری میں پیش آیا جس کے نتیجے میں یہ سزا مقرر کی گئی اور ہمیں ایسے چند واقعات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کے نازل ہونے کے بعد زنا کے مرتکب شادی شدہ مرد اور عورتوں کو رجم کی سزا دی ہے، مثلاً: ٭شادی شدہ غامدیہ عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی سزا دی تھی۔ اس کی احادیث میں صراحت ہے۔ (صحیح مسلم، الحدود،حدیث: 4431(1695) حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے پتھر مارا جس سےخون کے چھینٹے ان پر پڑگئے تو انھوں نے اسے گالی دی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو تنبیہ فرمائی۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیانی عرصے میں اسلام لائے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غامدیہ کا واقعہ سورۂ نور کے نازل ہونے سے بہت بعد کا ہے۔ ٭مزدور لڑکے کا مشہور واقعہ ہے جس نے مالک کی بیوی سے زنا کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مالکہ کو رجم کردینے کا حکم دیا تھا۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6842، 6843) اس مقدمے کی پیشی کے وقت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وہاں موجود تھے اور وہ خود اس روایت کے راوی بھی ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 7 ہجری غزوۂ خیبر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے اور اس وقت مسلمان ہوئے تھے جبکہ سورۂ نور اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ ٭یہودی مرد اور عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا جب انھوں نے آپس میں بدکاری کی تھی۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6841) مسند بزار کے حوالے سے یہ روایت حضرت عبداللہ بن حارث سے بھی مروی ہے۔ (مسند البزار، حدیث: 3788، وفتح الباري: 12/ 207) حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ اپنے دادے کے ہمراہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھےاور بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے ان دونوں کو رجم کیا تھا۔ اس واقعے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ نور کی مذکورہ آیات کے بعد زانی مرد، عورتوں کو رجم کی سزا دی تھی۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رجم کے حق میں خطبہ دیا تھا۔ مسجد نبوی میں اس وقت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6830) صحابہ میں سے کسی نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بیان پر کوئی اعتراض نہیں کیا، پھر اس وقت سے لے کر آج تک یہ مسئلہ متفق علیہ چلا آ رہا ہے، جس کا منکرین حدیث کے علاوہ کسی دوسرے نے انکار نہیں کیا، نیز زنا اور بدکاری کا زیادہ خطرہ کنوارے مردوں اور کنواری عورتوں ہی سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے پاس شہوت کی تسکین کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا، لہٰذا قرآن نے ایسے لوگوں کے جرم کو اصل بنیاد قرار دیا ہے اور کوڑے مارنے کی سزا ان کے لیے مخصوص کی ہے، رہا شادی شدہ مرد اور عورت کا زنا تو یہ دو لحاظ سے شدید تر ہوتا ہے: ٭ایسے لوگ معاہدۂ نکاح کی عہد شکنی کرتے ہیں۔ ٭تکمیل خواہش کا ذریعہ موجود ہونے کے باوجود اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ چونکہ شادی شدہ جوڑے کا جرم اصل جرم سے شدید تر ہوتا ہے، اس لیے ایسے لوگوں کی سز ابھی شدید تر دی جاتی ہے، اور وہ ہے سنگسار کرنا جس کی ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں۔ (3) واضح رہے کہ حد رجم سے انکار سب سے پہلے اولین منکرین حدیث معتزلہ نے کیا، ان کے بعد بعض خوارج نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اس انکار کی وجہ خواہشات نفس کی پیری تھی، نیز ان کی عصبیت نے بھی جلتی پر تیل کا کام دکھایا، مگر دور حاضر کے منکرین رجم میں ایک اور وجہ بھی شامل ہوگئی ہے اور وہ یہ کہ اہل مغرب اسلام کی ایسی سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں سمجھتے ہیں، لہٰذا ہمارے مغربیت سے مرعوب حضرات نے بھی اس کے انکار میں ہی عافیت سمجھی ہے۔ یہ مرعوبیت پہلے بھی تھی اور آج بھی اس انکار میں کار فرما ہے۔ (4) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی تفصیلی روایت سے پتا چلتا ہے کہ شادی شدہ زانی یا زانیہ کی سزا سو کوڑے اور سنگسار دونوں ہیں، تاہم عہد نبوی اور خلفائے راشدین کے دور حکومت میں رجم پر ہی اکتفا کیا جاتا رہا ہے جیسا کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نے غامدیہ، یہودی مرد عورت کے واقعات اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے خطبے سے معلوم ہوتا ہے۔ ان احادیث اور واقعات کی بنا پر جمہور اہل علم، امام مالک، امام شافعی اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ شادی شدہ زانی کو صرف رجم کیا جائے گا کوڑے نہیں مارے جائیں گے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ واقعات میں صرف رجم ہی کا حکم دیا تھا۔ (5) امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی رجحان معلوم ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (باب رجم المحصن) ”شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا۔ “ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے صرف رجم کا ٹکراؤ ذکر کیا ہے، البتہ امام احمد، امام اسحاق اور داود ظاہری رحمہ اللہ اس چیز کے قائل ہیں کہ رجم سے پہلے کوڑے بھی لگائے جائیں۔ انھوں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے واقعے سے بھی انھوں نے اس موقف کو ثابت کیا ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق بہتر یہی ہے کہ شادی شدہ جوڑے کے لیے صرف رجم پر اکتفا کیا جائے جب وہ زنا کے مرتکب ہوں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6812