(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، اخبرنا إسحاق بن يوسف، اخبرنا الفضيل بن غزوان، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يزني العبد حين يزني وهو مؤمن، ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن، ولا يشرب حين يشرب وهو مؤمن، ولا يقتل وهو مؤمن"، قال عكرمة: قلت لابن عباس: كيف ينزع الإيمان منه؟ قال: هكذا: وشبك بين اصابعه ثم اخرجها، فإن تاب، عاد إليه هكذا: وشبك بين اصابعه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ غَزْوَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَزْنِي الْعَبْدُ حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَقْتُلُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ"، قَالَ عِكْرِمَةُ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: كَيْفَ يُنْزَعُ الْإِيمَانُ مِنْهُ؟ قَالَ: هَكَذَا: وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ ثُمَّ أَخْرَجَهَا، فَإِنْ تَابَ، عَادَ إِلَيْهِ هَكَذَا: وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو اسحاق بن یوسف نے خبر دی، کہا ہم کو فضیل بن غزوان نے خبر دی، انہیں عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بندہ جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ بندہ جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور بندہ جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور جب وہ قتل ناحق کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ عکرمہ نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ایمان اس سے کس طرح نکال لیا جاتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس طرح اور اس وقت آپ ان نے اپنی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر پھر الگ کر لیا پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو ایمان اس کے پاس لوٹ آتا ہے، اس طرح اور آپ نے اپنی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالا۔
Narrated 'Ikrima from Ibn 'Abbas: Allah's Apostles said, "When a slave (of Allah) commits illegal sexual intercourse, he is not a believer at the time of committing it; and if he steals, he is not a believer at the time of stealing; and if he drinks an alcoholic drink, when he is not a believer at the time of drinking it; and he is not a believer when he commits a murder," 'Ikrima said: I asked Ibn Abbas, "How is faith taken away from him?" He said, Like this," by clasping his hands and then separating them, and added, "But if he repents, faith returns to him like this, by clasping his hands again.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 82, Number 800
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 54
´ارتکاب کبائر کے وقت ایمان کا خروج` «. . . وَفِي رِوَايَة ابْن عَبَّاس: «وَلَا يَقْتُلُ حِينَ يَقْتُلُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ» . قَالَ عِكْرِمَةُ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: كَيْفَ يُنْزَعُ الْإِيمَانُ مِنْهُ؟ قَالَ: هَكَذَا وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ ثُمَّ أَخْرَجَهَا فَإِنْ تَابَ عَادَ إِلَيْهِ هَكَذَا وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ وَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: لَا يَكُونُ هَذَا مُؤْمِنًا تَامًّا وَلَا يَكُونُ لَهُ نُورُ الْإِيمَان. هَذَا لفظ البُخَارِيّ . . .» ”. . . اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ مومن کا قتل کرنے والا مومن کے قتل کے وقت مومن نہیں رہتا ہے۔ سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ جو کہ اس کے راوی ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ ایمان کس طرح لوگوں کے دلوں سے نکال لیا جاتا ہے؟ انہوں نے اشارہ کر کے فرمایا: اس طرح سے اور پنجوں میں پنجہ ملایا یعنی انگلیوں میں انگلیاں ڈال لی پھر اس کو نکال لیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگر ان باتوں سے توبہ کر لی تو ایمان واپس لوٹ آتا ہے۔ اس کو پنجے میں پنجہ ملا کر بتایا کہ اس طرح ایمان واپس آ جاتا ہے۔ ابوعبداللہ یعنی امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والا مومن نہیں یعنی پورا اور کامل مومن نہیں رہتا ہے اور کامل ایمان کی روشنی نہیں باقی رہتی ہے۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 54]
تخریج: [صحيح بخاري 6809]
فقہ الحدیث: ➊ معلوم ہوا کہ ایمان کے بہت سے درجے ہیں، ایمان زیادہ بھی ہوتا ہے اور کم بھی ہوتا ہے۔ چوری اور زنا وغیرہ کبیرہ گناہ کرنے والے کا ایمان، گناہ کی حالت میں اس کے جسم سے نکل کر اس کے سر پر چھتری کی طرح بلند ہو جاتا ہے۔ ایمان نکلنے کے باوجود یہ شخص کافر نہیں ہوتا، بلکہ گناہ گار مسلمان ہی رہتا ہے، بشرطیکہ نواقض اسلام کا ارتکاب نہ کرے۔ ➋ زنا، چوری اور مال غنیمت میں خیانت کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔
تنبیہ: جو لوگ مدرسوں، مساجد، تنظیموں، جماعتوں اور رفاہی کاموں کے بہانے سے چندے کا مال کھا جاتے ہیں وہ بھی اسی حکم میں ہیں۔ انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ایک دن علیم بذات الصدور کے سامنے پیش ہو کر ذرے ذرے کا حساب دینا ہے۔ ایک شخص نے مال غنیمت میں سے ایک چادر چرا لی تھی تو وہی چادر جہنم کی آگ بن کر اس کے جسم سے چمٹ گئی تھی۔ ➌ عالم کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو عام فہم مثالیں دے کر سمجھائے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4874
´چوری کی سنگینی کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص ایمان رکھتے ہوئے زنا نہیں کرتا، کوئی شخص ایمان رکھتے ہوئے چوری نہیں کرتا، کوئی شخص ایمان رکھتے ہوئے شراب نہیں پیتا اور نہ ہی وہ ایمان رکھتے ہوئے کوئی ایسی بڑی لوٹ کرتا ہے جس کی طرف لوگوں کی نظریں اٹھتی ہوں“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4874]
اردو حاشہ: تفصیل کے لیے دیکھیئے، سابقہ حدیث: 4873
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4874
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6782
6782. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور چور بھی جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6782]
حدیث حاشیہ: بعد میں سچی توبہ کرنے اور اسلامی حد قبول کرنے کے بعد اس میں ایمان لوٹ کر آجاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6782
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6782
6782. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور چور بھی جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6782]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت کے مطابق حضرت عکرمہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ ایمان کس طرح نکال لیا جاتا ہے تو انھوں نے اپنی انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا، پھر ان کو نکال کر دکھایا کہ اس طرح ایمان نکال لیا جاتا ہے اگر توبہ کر لے تو اس طرح لوٹ آتا ہے، پھر انھوں نے انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر دکھائیں۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6809) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جب انسان زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر چھتری کی طرح ہو جاتا ہے۔ اگر اس سے باز آجائے تو وہ اس میں لوٹ آتا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایمان نکل جانے کی وضاحت یوں بیان کی ہے کہ فراغت کے بعد مجرم کی یہ حالت نہیں رہتی بلکہ ایمان لوٹ آتا ہے۔ (المصنف لعبدالرزاق: 416/7، حدیث: 13685، وفتح الباري: 72/12) یہ بھی احتمال ہے کہ کلی طور پر اس سے پرہیز کرنا اس کی واپسی کا باعث ہو۔ اگر گناہ کے بعد اسے اصرار ہے تو وہ گویا مرتکب کی طرح ہے، اس سے ایمان خارج ہی رہتا ہے جیسا کہ حضرت عکرمہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت اس کی وضاحت کرتی ہے، البتہ ایک روایت میں ہے کہ اگر وہ فارغ ہو جائے تو ایمان لوٹ آتاہے۔ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4690) واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6782