(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، قال: حدثنا ابو الزناد، عن عبد الرحمن، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" كانت امراتان معهما ابناهما جاء الذئب فذهب بابن إحداهما، فقالت لصاحبتها: إنما ذهب بابنك، وقالت الاخرى إنما ذهب بابنك، فتحاكمتا إلى داود عليه السلام، فقضى به للكبرى، فخرجتا على سليمان بن داود عليهما السلام فاخبرتاه، فقال: ائتوني بالسكين اشقه بينهما، فقالت الصغرى: لا تفعل يرحمك الله هو ابنها، فقضى به للصغرى" قال ابو هريرة: والله إن سمعت بالسكين قط إلا يومئذ وما كنا نقول إلا المدية.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كَانَتْ امْرَأَتَانِ مَعَهُمَا ابْنَاهُمَا جَاءَ الذِّئْبُ فَذَهَبَ بِابْنِ إِحْدَاهُمَا، فَقَالَتْ لِصَاحِبَتِهَا: إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ، وَقَالَتِ الْأُخْرَى إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ، فَتَحَاكَمَتَا إِلَى دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَضَى بِهِ لِلْكُبْرَى، فَخَرَجَتَا عَلَى سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ عَلَيْهِمَا السَّلَام فَأَخْبَرَتَاهُ، فَقَالَ: ائْتُونِي بِالسِّكِّينِ أَشُقُّهُ بَيْنَهُمَا، فَقَالَتِ الصُّغْرَى: لَا تَفْعَلْ يَرْحَمُكَ اللَّهُ هُوَ ابْنُهَا، فَقَضَى بِهِ لِلصُّغْرَى" قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاللَّهِ إِنْ سَمِعْتُ بِالسِّكِّينِ قَطُّ إِلَّا يَوْمَئِذٍ وَمَا كُنَّا نَقُولُ إِلَّا الْمُدْيَةَ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دو عورتیں تھیں اور ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے، پھر بھیڑیا آیا اور ایک بچے کو اٹھا کر لے گیا اس نے اپنی ساتھی عورت سے کہا کہ بھیڑیا تیرے بچے کو لے گیا ہے، دوسری عورت نے کہا کہ وہ تو تیرا بچہ لے گیا ہے۔ وہ دونوں عورتیں اپنا مقدمہ داؤد علیہ السلام کے پاس لائیں تو آپ نے فیصلہ بڑی کے حق میں کر دیا۔ وہ دونوں نکل کر سلیمان بن داؤد علیہما السلام کے پاس گئیں اور انہیں واقعہ کی اطلاع دی۔ سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ چھری لاؤ میں لڑکے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کو ایک ایک دوں گا۔ اس پر چھوٹی عورت بول اٹھی کہ ایسا نہ کیجئے آپ پر اللہ رحم کرے، یہ بڑی ہی کا لڑکا ہے لیکن آپ علیہ السلام نے فیصلہ چھوٹی عورت کے حق میں کیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ! میں نے «سكين» چھری کا لفظ سب سے پہلی مرتبہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے) اس دن سنا تھا اور ہم اس کے لیے (اپنے قبیلہ میں) «مدية.» کا لفظ بولتے تھے۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "There were two women with whom there were their two sons. A wolf came and took away the son of one of them. That lady said to her companion, 'The wolf has taken your son.' The other said, 'But it has taken your son.' So both of them sought the judgment of (the Prophet) David who judged that the boy should be given to the older lady. Then both of them went to (the Prophet) Solomon, son of David and informed him of the case. Solomon said, 'Give me a knife so that I may cut the child into two portions and give one half to each of you.' The younger lady said, 'Do not do so; may Allah bless you ! He is her child.' On that, he gave the child to the younger lady." Abu Huraira added: By Allah! I had never heard the word 'Sakkin' as meaning knife, except on that day, for we used to call it "Mudya".
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 80, Number 760
امرأتان معهما ابناهما جاء الذئب فذهب بابن إحداهما فقالت لصاحبتها إنما ذهب بابنك وقالت الأخرى إنما ذهب بابنك فتحاكمتا إلى داود فقضى به للكبرى فخرجتا على سليمان بن داود عليهما السلام فأخبرتاه فقال ائتوني بالسكين أشقه بينهما
بينما امرأتان معهما ابناهما جاء الذئب فذهب بابن إحداهما فقالت هذه لصاحبتها إنما ذهب بابنك أنت وقالت الأخرى إنما ذهب بابنك فتحاكمتا إلى داود فقضى به للكبرى فخرجتا على سليمان بن داود عليهما السلام فأخبرتاه فقال ائتوني بالسكين أشقه بينكما فقالت الصغرى لا
بينما امرأتان معهما ابناهما جاء الذئب فذهب بابن إحداهما فقالت هذه لصاحبتها إنما ذهب بابنك وقالت الأخرى إنما ذهب بابنك فتحاكمتا إلى داود فقضى به للكبرى فخرجتا إلى سليمان بن داود فأخبرتاه فقال ائتوني بالسكين أشقه بينهما فقالت الصغرى لا تفعل
خرجت امرأتان معهما صبيان لهما فعدا الذئب على إحداهما فأخذ ولدها فأصبحتا تختصمان في الصبي الباقي إلى داود فقضى به للكبرى منهما فمرتا على سليمان فقال كيف أمركما فقصتا عليه فقال ائتوني بالسكين أشق الغلام بينهما فقالت الصغرى أتشقه قال نعم
خرجت امرأتان معهما ولداهما فأخذ الذئب أحدهما فاختصمتا في الولد إلى داود النبي فقضى به للكبرى منهما فمرتا على سليمان فقال كيف قضى بينكما قالت قضى به للكبرى قال سليمان أقطعه بنصفين لهذه نصف ولهذه نصف قالت الكبرى نعم اقطع
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6769
حدیث حاشیہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قبیلہ میں چھری کے لیے ''سکین'' کا لفظ استعمال نہیں ہوتا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا فیصلہ تقاضہ فطرت کے مطابق تھا۔ بچہ درحقیقت چھوٹی ہی کا تھا تب ہی اس کے خون نے جوش مارا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6769
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6769
حدیث حاشیہ: (1) حضرت سلیمان علیہ السلام نے عورت کے دعویٰ ہی سے بچہ اس کے حوالے نہیں کیا بلکہ آثار وقرائن دیکھ کر چھوٹی عورت کو دے دیا۔ انھوں نے چھوٹی عورت کی شفقت سے استدلال کیا کہ وہ اس کی ماں ہے، چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بڑی عورت سے کہا: اگر تیرا بیٹا ہوتا تو تو اسے دو لخت کرنے پر راضی نہ ہوتی۔ (2) اس حدیث سے یہ حکم ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی عورت جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو کسی غیر معروف نسب والے بچے کے متعلق دعویٰ کرے کہ یہ میرا بیٹا ہے اور کوئی دوسرا شخص اس دعوے کو مسترد نہ کرے تو اس کی بات اور دعویٰ تسلیم کیا جائے گا اور کسی ایک کے فوت ہونے پر دوسرا اس کا وارث ہوگا، نیز اس بچے کے مادری بھائی اس کے وارث ہوں گے۔ اگر اس کا شوہر زندہ ہو اور عورت اس کی موجودگی میں یہ دعویٰ کرے کہ فلاں بچہ اس کا بیٹا ہے لیکن شوہر اس کا انکار کرتا ہے تو عورت کا دعویٰ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ہاں، اگر وہ اس پر دو گواہ پیش کر دے تو اس کی بات مان لی جائے گی۔ واللہ أعلم (فتح الباري: 68/12) چھری کو مدية اس ليے کہا جاتا ہے کہ وہ حیوان کی زندگی کی مدت ختم کر دیتی ہے اور سکين اس لیے کہتے ہیں کہ یہ حیوان کی حرکت میں سکون پیدا کر دیتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6769
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5404
´حاکم اپنے علم اور تجربے سے فیصلہ کر سکتا ہے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو عورتیں تھیں ان دونوں کے ساتھ ان کا ایک ایک بچہ تھا، اتنے میں بھیڑیا آیا اور ایک کا بچہ اٹھا لے گیا، تو اس نے دوسری سے کہا: وہ تمہارا بچہ لے گیا، دوسری بولی: تمہارا بچہ لے گیا، پھر وہ دونوں مقدمہ لے کر داود علیہ السلام کے پاس گئیں تو آپ نے بڑی کے حق میں فیصلہ کیا۔ پھر وہ دونوں سلیمان علیہ السلام کے پاس گئیں اور ان سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: ایک چھری لاؤ، می۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5404]
اردو حاشہ: (1)”بڑی کے حق میں“ کیونکہ بچہ اس کے ہاتھ میں تھا۔ دلیل کسی کے پاس نہیں تھی۔ انہوں نے ظاہری قبضے کی رعایت سے فیصلہ کر دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکمت سے کام لیا اور حقیقت تک پہنچ گئے۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے کہ قاضی اپنی ذہانت سے بھی معاملے کی تہہ تک پہنچ کر حقیقت کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے، خواہ گوہ اور دلائل نہ ہوں مگر یہ تب ہے جب حاکم یا قاضی کے خلاف بدگمانی پیدا نہ ہوتی ہو، نیز فریق ثانی بھی چپ ہو جائے اور مان لے۔ (2)”یہ اسی کا ہے“ کیونکہ کاٹ دینے اور ٹکڑے کرنے سے کسی کا بھی نہیں رہے گا۔ اس کو دینے کی صورت میں بچہ نظر تو آئے گا اور ممتا کو کچھ نہ کچھ سکون تو ملتا رہے گا۔ اسی سے معلوم ہوا کہ بیٹا اس کا ہے تبھی تو اسے زیادہ تکلیف ہوئی۔ (3)”سکین“ عربی میں چھری کو سکین کہتے ہیں اور مدیہ بھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاقے میں صرف مدیہ کہتے ہوں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5404
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5406
´حاکم اپنے ہم منصب یا اس سے اوپر کے آدمی کے فیصلہ کو توڑ سکتا ہے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو عورتیں نکلیں، ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے، ان میں سے ایک پر بھیڑیئے نے حملہ کر دیا اور اس کے بچے کو اٹھا لے گیا، وہ اس بچے کے سلسلے میں جو باقی رہ گیا تھا جھگڑتی ہوئی داود علیہ السلام کے پاس آئیں، انہوں نے ان میں سے بڑی کے حق میں فیصلہ دیا، وہ سلیمان علیہ السلام کے پاس گئیں تو انہوں نے کہا: تم دونوں کے درمیان کیا فیصلہ کیا؟ (چھوٹی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5406]
اردو حاشہ: (1) مذکورہ مفہوم کی ان احادیث اور ان میں بیان کردہ واقع سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل و دانش اور فہم و فراست قطعی طور پر وہبی چیز ہے، اللہ تعالیٰ جسے چاہے عطا فرما دے۔ چھوٹی اور بڑی عمر یا امیری و فقیری اور اقتدار اختیار وغیرہ کا اس سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ (2) یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صحیح اور درست بات معلوم کرنے اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے حیلہ کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس حیلے کا مقصد احقاق حق یا ابطال باطل ہی ہو۔ باطل اور ناجائز کو درست اور جائز قرار دینے کے لیے حیلہ کرنا شرعاً مذموم اور حرام ہے۔ (3) اگر فریقین اپنے حق کے بارے میں دوبارہ کسی اور سے فیصلہ کرانے کے حق میں ہوں تو بڑی خوشی سے کرواسکتے ہیں، خواہ دوسرا قاضی پہلے کے برابر ہو یا اس سے کم مرتبہ ہو جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہے، خصوصاً جب کہ دوسرے کے فیصلے کے بعد کسی اور کی طرف رجوع کرنا بے ایمانی کی دلیل ہے۔ (4)”بچہ اسی کا ہے“ چونکہ اس قول کا مقصد صرف بچے کی جان بچانا تھا نہ کہ اقرار، اسی لیے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے اقراری کلام پر عمل نہیں فرمایا بلکہ بچہ اسی کو دے دیا کیونکہ ان کو حق معلوم ہو چکا تھا بلکہ ہر ایک کے لیے واضح ہو چکا تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5406
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5406
´حاکم اپنے ہم منصب یا اس سے اوپر کے آدمی کے فیصلہ کو توڑ سکتا ہے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو عورتیں نکلیں، ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے، ان میں سے ایک پر بھیڑیئے نے حملہ کر دیا اور اس کے بچے کو اٹھا لے گیا، وہ اس بچے کے سلسلے میں جو باقی رہ گیا تھا جھگڑتی ہوئی داود علیہ السلام کے پاس آئیں، انہوں نے ان میں سے بڑی کے حق میں فیصلہ دیا، وہ سلیمان علیہ السلام کے پاس گئیں تو انہوں نے کہا: تم دونوں کے درمیان کیا فیصلہ کیا؟ (چھوٹی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5406]
اردو حاشہ: (1) مذکورہ مفہوم کی ان احادیث اور ان میں بیان کردہ واقع سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل و دانش اور فہم و فراست قطعی طور پر وہبی چیز ہے، اللہ تعالیٰ جسے چاہے عطا فرما دے۔ چھوٹی اور بڑی عمر یا امیری و فقیری اور اقتدار اختیار وغیرہ کا اس سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ (2) یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صحیح اور درست بات معلوم کرنے اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے حیلہ کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس حیلے کا مقصد احقاق حق یا ابطال باطل ہی ہو۔ باطل اور ناجائز کو درست اور جائز قرار دینے کے لیے حیلہ کرنا شرعاً مذموم اور حرام ہے۔ (3) اگر فریقین اپنے حق کے بارے میں دوبارہ کسی اور سے فیصلہ کرانے کے حق میں ہوں تو بڑی خوشی سے کرواسکتے ہیں، خواہ دوسرا قاضی پہلے کے برابر ہو یا اس سے کم مرتبہ ہو جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہے، خصوصاً جب کہ دوسرے کے فیصلے کے بعد کسی اور کی طرف رجوع کرنا بے ایمانی کی دلیل ہے۔ (4)”بچہ اسی کا ہے“ چونکہ اس قول کا مقصد صرف بچے کی جان بچانا تھا نہ کہ اقرار، اسی لیے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے اقراری کلام پر عمل نہیں فرمایا بلکہ بچہ اسی کو دے دیا کیونکہ ان کو حق معلوم ہو چکا تھا بلکہ ہر ایک کے لیے واضح ہو چکا تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5406