43. بَابُ إِذَا دُعِيَ الإِمَامُ إِلَى الصَّلاَةِ وَبِيَدِهِ مَا يَأْكُلُ:
43. باب: جب امام کو نماز کے لیے بلایا جائے اور اس کے ہاتھ میں کھانے کی چیز ہو تو وہ کیا کرے؟
(43) Chapter. When the Imam is called for As-Salat (the prayer) while he has in his hands something to eat.
Narrated Ja`far bin `Amr bin Umaiya: My father said, "I saw Allah's Apostle eating a piece of meat from the shoulder of a sheep and he was called for the prayer. He stood up, put down the knife and prayed but did not perform ablution.''
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 643
● صحيح البخاري | 5408 | عمرو بن أمية | يحتز من كتف شاة في يده فدعي إلى الصلاة فألقاها والسكين التي يحتز بها ثم قام فصلى ولم يتوضأ |
● صحيح البخاري | 2923 | عمرو بن أمية | أكل من كتف يحتز منها ثم دعي إلى الصلاة فصلى ولم يتوضأ |
● صحيح البخاري | 5462 | عمرو بن أمية | يحتز من كتف شاة في يده فدعي إلى الصلاة فألقاها والسكين التي كان يحتز بها ثم قام فصلى ولم يتوضأ |
● صحيح البخاري | 675 | عمرو بن أمية | أكل ذراعا يحتز منها فدعي إلى الصلاة فقام فطرح السكين فصلى ولم يتوضأ |
● صحيح البخاري | 5422 | عمرو بن أمية | يحتز من كتف شاة فأكل منها فدعي إلى الصلاة فقام فطرح السكين فصلى ولم يتوضأ |
● صحيح البخاري | 208 | عمرو بن أمية | يحتز من كتف شاة فدعي إلى الصلاة فألقى السكين فصلى ولم يتوضأ |
● صحيح مسلم | 792 | عمرو بن أمية | أكل منها ثم صلى ولم يتوضأ |
● جامع الترمذي | 1836 | عمرو بن أمية | أكل منها ثم مضى إلى الصلاة ولم يتوضأ |
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 675
حدیث حاشیہ:
اس باب اور ا س کے تحت اس حدیث کے لانے سے حضرت امام بخاری ؒ کا یہ ثابت کرنا منظور ہے کہ پچھلی حدیث کا حکم استحباباً تھا وجوباً نہ تھا۔
ورنہ آنحضرت ﷺ کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے کیوں جاتے بعض کہتے ہیں کہ امام کا حکم علیحدہ ہے۔
اسے کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے جانا چاہئے۔
حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 675
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:675
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیم طعام کا حکم بطور استحباب ہے۔
بعض حضرات نے اس سلسلے میں اس طرح وضاحت کی ہے کہ تقدیم طعام کی اجازت اس شخص کے لیے ہے جس نے ابھی کھانا شروع نہیں کیا اور جس نے اقامت سے پہلے کھانا شروع کردیا تھا، پھر نماز کے لیے تکبیر ہوئی تو اسے نماز کے لیے اٹھ جانا چاہیے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
گویا امام بخاری ؒ کے نزدیک دونوں صورتوں کا حکم الگ الگ ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری کے نزدیک امام اور غیر امام کا حکم الگ الگ ہو، یعنی تقدیم طعام کا حکم عام لوگوں کےلیے ہے اور امام کے لیے یہ ہے کہ وہ پہلے نماز پڑھائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسی وقت کھانا چھوڑ دیا تھا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی اگر کھانے میں مشغول رہتا ہے تو اس کی وجہ سے لوگ پریشان ہوں گے اور انھیں بلاوجہ انتظار کی زحمت برداشت کرنا پڑے گی۔
(2)
علامہ سندھی لکھتے ہیں کہ تقدیم طعام اس صورت میں ہے جب بھوک شدید ہو اور کھانا چھوڑ کر نماز شروع کرنے میں خشوع کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ وہ کھانا کھا رہے تھے اور تنور میں گوشت بھونا جا رہا تھا، اتنے میں مؤذن نے تکبیر کہنے کا ارداہ کیا تو حضرت ابن عباس ؓ نے اسے فرمایا:
جلدی مت کرو! مبادا دوران نماز میں ہمارا خیال ادھر رہے۔
البتہ جب نمازی اپنی اس قدر حاجت پوری کرچکا ہو کہ خشوع کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو نماز کو مقدم رکھنا چاہیے۔
(حاشیة السندي: 123/1)
کھانا کھانے کی رخصت کو انتہائی مجبوری کی صورت پر محمول کرنا چاہیے، اسے عادت اور معمول نہیں بنانا چاہیے۔
اور بلاوجہ نماز باجماعت ترک نہیں کرنی چاہیے۔
انسان کو دنیا میں زیادہ سے زیادہ اعمال خیر ذخیرہ کرنے چاہئیں تاکہ قیامت کے دن کام آئیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ﴾ ”ہر شخص کو سوچنا چاہیے کہ اس نے کل آخرت کے لیے کیا ذخیرہ کیا ہے؟“
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 675
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 208
´بکری کا گوشت اور ستو کھا کر نیا وضو نہ کرنا ثابت ہے`
«. . . حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَعْفَرُ بْنُ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، " أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَزُّ مِنْ كَتِفِ شَاةٍ، فَدُعِيَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَأَلْقَى السِّكِّينَ، فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ " . . . .»
”. . . لیث نے عقیل سے خبر دی، وہ ابن شہاب سے روایت کرتے ہیں، انہیں جعفر بن عمرو بن امیہ نے اپنے باپ عمرو سے خبر دی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکری کے شانہ سے کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے بلائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری ڈال دی اور نماز پڑھی، نیا وضو نہیں کیا۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَنْ لَمْ يَتَوَضَّأْ مِنْ لَحْمِ الشَّاةِ وَالسَّوِيقِ:: 208]
تشریح:
کسی بھی جائز اور مباح چیز کے کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، جن روایات میں ایسے وضو کرنے کا ذکر آیا ہے وہاں لغوی وضو یعنی صرف ہاتھ منہ دھونا۔ کلی کرنا مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 208
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2923
2923. حضرت عمرو بن امیہ ضمری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کو شانے کا گوشت کاٹ کاٹ کرکھاتے دیکھا۔ اس دوران میں آپ کو نمازکے لیے بلایا گیا تو آپ نے نماز پڑھی لیکن وضو نہ کیا۔ ایک روایت میں امام زہری ؓ سے یہ اضافہ ہے کہ آپ نے چھری کو پھینک دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2923]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب الوضوء میں گزر چکی ہے اور یہاں امام بخاری ؒ اس کو اس لئے لائے کہ جب چھری کا استعمال درست ہوا تو جہاد میں بھی اس کو رکھ سکتے ہیں۔
یہ بھی ایک ہتھیار ہے۔
مجاہدین کو بہت سی ضروریات میں چھری بھی کام آسکتی ہے‘ اس لئے اس کا بھی سفر میں ساتھ رکھنا جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2923
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1836
´چھری سے گوشت کاٹنے کی رخصت کا بیان۔`
عمرو بن امیہ ضمری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے بکری کی دست کا گوشت چھری سے کاٹا، اور اس میں سے کھایا، پھر نماز کے لیے تشریف لے گئے اور وضو نہیں کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1836]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے معلوم ہواکہ چھری سے کاٹ کر گوشت کھایا جا سکتا ہے،
طبرانی اور ابوداؤد میں ہے کہ چھری سے گوشت کاٹ کر مت کھاؤ کیوں کہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے،
لیکن یہ روایتیں ضعیف ہیں،
ان سے استدلال درست نہیں،
نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آگ سے پکی چیز کھانے سے وضوء نہیں ٹوٹتا،
کیوں کہ آپ ﷺ نے گوشت کھاکر وضو نہیں کیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1836
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 792
جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری اپنے باپ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو دستی کا گوشت چھری سے کاٹ کر کھاتے ہوئے دیکھا، پھر آپﷺ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:792]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
يَحْتَزُّ:
وہ چھری سے کاٹ رہے تھے،
چھری کو سکین اس لیے کہتے ہیں کہ وہ مذبوح چیز کی حرکت کو ختم کر دیتی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 792
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:208
208. حضرت عمرو بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ بکری کے شانے سے گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں۔ آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ نے چھری رکھ دی، نماز پڑھی اور نیا وضو نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:208]
حدیث حاشیہ:
1۔
عنوان میں دو چیزیں ہیں بکری کا گوشت اور ستو، امام بخاری ؒ نے دو حدیثیں ذکر کی ہیں، لیکن کسی ایک میں بھی ستو کا ذکر نہیں۔
دراصل نصوص سے مسائل کا استنباط کئی ایک طریقوں سے ہوتا ہے۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ میں اس مسئلے میں واضح طور پر ذکر ہو۔
اسے عبارۃ النص کہا جاتا ہے۔
بکری کے گوشت کے استعمال کے بعد وضو نہ کرنا عبارۃ النص سے ثابت کیا ہے۔
بعض دفعہ الفاظ سے براہ راست نہیں بلکہ ان کی رہنمائی میں مسئلے کا استنباط کیا جاتا ہے۔
اسے دلالۃ النص کہا جاتا ہے۔
ستو استعمال کرنے کے بعد وضو نہ کرنا دلالۃ النص سے ثابت ہے۔
وہ اس طرح کہ گوشت میں چکناہٹ ہوتی ہے، جب آپ نے چکناہٹ والی چیز استعمال کرنے کے بعد وضو نہیں کیا تو ستو جن میں چکناہٹ نہیں ہوتی ان کے استعمال کے بعد بدرجہ اولیٰ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔
2۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چھری سے کاٹ کر گوشت کھانا جائز ہے۔
چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
(باب قطع اللحم بالسكين)
”گوشت کا چھری سے کاٹنا۔
“ (صحیح البخاري، الأطعمة، باب: 20)
لیکن حضرت عائشہ ؓ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چھری سے گوشت کھانے سے منع فرمایا۔
کیونکہ عجمی لوگ ایسا کرتے ہیں۔
(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3778)
اس کی تطبیق یہ ہے کہ منع کی یہ حدیث صحیح نہیں، بلکہ امام ابن جوزی ؓ نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے۔
حافظ ابن حجر ؓ نے لکھا ہے کہ ضرورت کے پیش نظر چھری وغیرہ کا استعمال درست ہے، لیکن بلاوجہ چھری سے کاٹ کاٹ کر کھانا یہ اعاجم اور عیش پسند لوگوں کے ساتھ تشبیہ ہے۔
جسے شریعت نے پسند نہیں کیا۔
(فتح الباري: 407/1)
چھری کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب گوشت اچھی طرح پکا ہوا نہ ہو، یعنی سخت ہو یا اس کے ٹکڑے بڑے بڑے ہوں، تو ایسے حالات میں گوشت کو چھری سے کاٹ کر کھایا جا سکتا ہے، البتہ ہمیشہ کے لیے عادت بنا لینا عجمیوں کا طریقہ ہے۔
قاضی عیاض، ملا علی قاری اور امام بیہقی ؒ نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔
3۔
حدیث میں ہے کہ جب رات کا کھانا سامنے آ جائے اور نماز کا وقت بھی ہو تو پہلے کھانا کھا لیا جائے۔
پھراطمینان سے نماز پڑھی جائے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ کھانے کے متعلق یہ ہدایت مقرر امام کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے ہے۔
مسجد کا مقرر امام اس سے مستثنیٰ ہے، کیونکہ اس کے کھانے میں مشغولیت کی وجہ سے مسجد کے تمام نمازیوں کو انتظار کی تکلیف اٹھانی پڑے گی اور نماز میں بھی تاخیر ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو حضرت بلال ؓ نے نماز کے لیے بلایا تو آپ کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے تشریف لے گئے۔
(فتح الباري: 407/1)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر امام راتب کے مستثنیٰ ہونے کا عنوان بھی قائم کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 675)
آگ پر پکی ہوئی چیز استعمال کرنے سے وضو کرنے یا نہ کرنے کی وضاحت کے بعد ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس مقام پر ان حضرات کا بھی ذکر کر دیا جائے جن کا وتیرہ تدبر حدیث کی آڑ میں احادیث سے مذاق کرنا ہے، چنانچہ:
”امام تدبر“ لکھتے ہیں:
”معلوم نہیں کہاں سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ گوشت یا ستو وغیرہ کھانے کے بعد وضو کرنا چاہیے، اس بارے میں ایک مذہب یہ ہے کہ وضو کا یہ حکم پہلے تھا، لیکن بعد میں منسوخ ہو گیا، یہ توجیہ کسی عقلی یا نقلی بنیاد پر نہیں ہے، عوامی باتیں اسی طرح کی ہوتی ہیں۔
“ (تدبر حدیث: 302/1)
اصلاحی صاحب نے احادیث نبویہ کو ”عوامی باتوں“ سے تعبیر کر کے ان کا استخفاف کیا ہے۔
گوشت کھانے کے بعد وضو کرنے کی نقلی بنیاد تو آپ معلوم کر چکے ہیں، اس کی عقلی بنیاد یہ ہے کہ حافظ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ آگ سے تیار ہونے والی چیزوں میں قوت ناریہ کے اثرات آجاتے ہیں جو شیطان کا مادہ ہے، یعنی وہ اس سے پیدا ہوا ہے اورآگ پانی سے بجھ جاتی ہے، اس بنا پر اس کے استعمال کے بعد وضو مناسب ہوا۔
اس کی نظیر غصے کے بعد وضو کا حکم ہے۔
حدیث میں ہے کہ غصہ شیطان کی طرف سے ہے جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہیے کہ وضو کرے۔
(زادالمعاد: 376/4)
4۔
امام بخاری ؒ نے اونٹ کے گوشت کھانے سے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا اور نہ پوری کتاب میں اس کے متعلق کوئی حدیث ہی بیان کی ہے۔
تاہم اونٹ کا گوشت کھانے سے نقض وضو کے قائل امام احمد ؒ، امام اسحاق ؒ، امام یحییٰ ؒ ابن منذر اور امام ابن خزیمہ ؒ وغیرہ ہیں۔
بعض حضرات کے نزدیک تو اونٹ کے گوشت کو محض ہاتھ لگانا ہی نقض وضو کا باعث ہے۔
چنانچہ امام ابو داود ؒ نے ان کی تردید کے لیے اپنی سنن میں ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 185)
امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں اس کی تفصیل لکھی ہے کہ اکثر حضرات کے نزدیک اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، ان میں خلفائے اربعہ عبد اللہ بن مسعود، ابی کعبؓ، ابن عباسؓ، ابو الدرداءؓ، ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابو اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمہور تابعین اور آئمہ ثلاثہ ہیں۔
(شرح صحیح مسلم للنووي: 65/4)
شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:
اس کے متعلق تقض وضو کا حکم ابتدائے اسلام میں تھا، پھر منسوخ ہو گیا۔
فقہائے صحابہ اور تابعین میں سے کوئی بھی اس سے نقض وضو کا قائل نہیں۔
لیکن محدثانہ نقطہ نظر سے اس کے منسوخ ہونے کا قطعی فیصلہ دشوار ہے، اس لیے احتیاط کا پہلو اختیار کرنا چاہیے۔
(حجة اللہ البالغة: 547/1)
ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ اونٹ کے گوشت میں چکناہٹ زیادہ ہوتی ہے، اس لیے اس کے کھانے کے بعد وضو کیا جائے۔
حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے بکری کا گوشت کھانے کے بعد وضو کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:
”اس کے بعد وضو نہیں ہے، لیکن اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد آپ نے وضو کرنے کا حکم دیا۔
“ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 184)
اس حدیث میں اونٹ کے گوشت سے وضو کرنے کی صراحت ہے، اس لیے اس سے لغوی وضو مراد لینا یا اس حکم کو استحباب پرمحمول کرنا جیسا کہ بعض علماء کہتے ہیں صحیح نہیں ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 208
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2923
2923. حضرت عمرو بن امیہ ضمری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کو شانے کا گوشت کاٹ کاٹ کرکھاتے دیکھا۔ اس دوران میں آپ کو نمازکے لیے بلایا گیا تو آپ نے نماز پڑھی لیکن وضو نہ کیا۔ ایک روایت میں امام زہری ؓ سے یہ اضافہ ہے کہ آپ نے چھری کو پھینک دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2923]
حدیث حاشیہ:
چھری سے گوشت کاٹ کاٹ کر کھانا سنت ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ گوشت سخت ہو۔
اس لیے چھری کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس سے کاٹ کر گوشت کھایا۔
چونکہ چھری آلات حرب سے ہے۔
اس لیے مجاہد اسے میدان جنگ میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے اور بوقت ضرورت اسے استعمال بھی کر سکتا ہے میدان جنگ کے علاوہ دوران سفر میں بھی بہت سی ضروریات میں چھری کام آسکتی ہے۔
اس لیے سفر میں اسے ساتھ رکھنا جائز ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2923
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5408
5408. سیدنا عمرو بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں بکری کا شانہ تھا جسے آپ چھری سے کاٹ کر کھا رہے تھے۔ پھر آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ نے وہ شانہ اور چھری جس سے گوشت کاٹ رہے تھے دونوں کو پھینک دیا، پھر کھڑے ہوئے نماز پڑھی اور (نیا) وضو نہ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5408]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھری سے گوشت کاٹ کر کھانا جائز ہے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”گوشت، چھری سے کاٹ کر نہ کھاؤ کیونکہ یہ عجمی لوگوں کی عادت ہے بلکہ اسے دانتوں سے نوچ کر کھاؤ۔
“ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3778)
امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند مضبوط نہیں ہے۔
اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو تطبیق کی یہ صورت ہو گی کہ چھری کانٹے سے کاٹ کر ہاتھ سے کھایا جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شانے کا گوشت کاٹ کر کھاتے تھے۔
یہ بھی احتمال ہے کہ ممانعت اس طرح کھانے سے ہو جیسے عجمی لوگ کھاتے ہیں کہ چھری کانٹے سے کھایا جائے لیکن ہاتھ سے نہ اٹھایا جائے۔
ہمارے رجحان کے مطابق چھری سے کاٹنے کی ممانعت صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5408
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5422
5422. سیدنا عمرو بن امیہ ضمری ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ بکری کے شانے سے گوشت کاٹ رہے تھے پھر آپ نے اسے کھایا۔ پھر آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ فوراً کھڑے ہو گئے اور چھری کو وہیں پھینک دیا چنانچہ آپ نے فرمایا نماز پڑھی لیکن نیا وضو نہ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5422]
حدیث حاشیہ:
دستی کا گوشت آپ کو بہت مرغوب تھا، اسے خوشی سے تناول فرماتے، اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں چانپ کا ذکر کیا ہے۔
گویا آپ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھنی ہوئی چانپ پیش کی۔
آپ نے اسے کھایا، پھر آپ نماز پڑھنے کے لیے چلے گئے اور وضو نہ کیا۔
(جامع الترمذي، الأطعمة، حدیث: 1829)
اسی طرح حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں مہمان ٹھہرا تو آپ نے چانپ بھوننے کا حکم دیا، پھر آپ چھری سے کاٹ کاٹ کر مجھے دیتے تھے۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 188)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5422
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5462
5462. سیدنا عمرو بن امیہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے بکری کے شانے کا چھری کے ساتھ گوشت کاٹ رہے تھے۔ اس دوران میں آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ نے شانہ اور اس چھری کو پھینک دیا جس کے ساتھ گوشت کاٹ رہے تھے۔ پھر آپ کھڑے ہوئے نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5462]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بکری کا شانہ چھری سے کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے۔
اس دوران میں آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ نے گوشت کھانے کے بجائے چھری اور شانے کو پھینک دیا اور نماز ادا فرمائی کیونکہ اس وقت کھانے کی شدید خواہش نہ تھی بلکہ بھوک کافی حد تک ختم ہو چکی تھی۔
(2)
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر فاقہ اور شدید بھوک نہ ہو تو کھانے میں مصروف رہنے کے بجائے نماز پڑھ لینا درست ہے اور اگر بھوک لگی ہو تو پہلے کھانا کھا لیا جائے، پھر نماز پڑھی جائے جیسا کہ آئندہ احادیث سے ثابت ہو گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5462