صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
74. بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ إِكْفَارَ مَنْ قَالَ ذَلِكَ مُتَأَوِّلاً أَوْ جَاهِلاً:
74. باب: اگر کسی نے کوئی وجہ معقول رکھ کر کسی کو کافر کہا یا نادانستہ تو وہ کافر (نہ) ہوگا۔
(74) Chapter. Whoever does not consider as Kafir the person who says that (i.e., O Kafir), if he thinks that what he says is true, or if he is ignorant of the seriousness of such saying.
حدیث نمبر: Q6106
Save to word اعراب English
وقال عمر لحاطب بن ابي بلتعة إنه منافق فقال النبي صلى الله عليه وسلم وما يدريك لعل الله قد اطلع إلى اهل بدر فقال قد غفرت لكم.وَقَالَ عُمَرُ لِحَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِنَّهُ مُنَافِقٌ فَقَال النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ قَدِ اطَّلَعَ إِلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ قَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ.
اور عمر رضی اللہ عنہ نے حاطب بن ابی بلتعہ کے متعلق کہا کہ وہ منافق ہے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر! تو کیا جانے اللہ تعالیٰ نے تو بدر والوں کو عرش پر سے دیکھا اور فرما دیا کہ میں نے تم کو بخش دیا۔

صحیح بخاری کی حدیث نمبر Q6106 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q6106  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: Q6106 باب: «بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ إِكْفَارَ مَنْ قَالَ ذَلِكَ مُتَأَوِّلاً أَوْ جَاهِلاً:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے پچھلے ابواب میں یہ ثابت فرمایا کہ بغیر تاویل کے تکفیر کرنا باعث کفر ہے، کیوں کہ کسی مسلمان کی بغیر تاویل تکفیر درست نہیں، لیکن اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتلانے کی کوشش فرما رہے ہیں کہ تاویل اور عدم واقفیت کی بنیاد پر تکفیر کرنے والا معذور ہے۔
تحت الباب جس حدیث کا امام بخاری رحمہ اللہ نے انتخاب فرمایا اس حدیث میں کئی ایک فوائد حاصل کیے گئے ہیں۔
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہوگی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عذر اور تاویل کی وجہ سے انہیں منافق کہا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دو وجوہات کی بناء پر معذور قرار دیا، پہلی وجہ جو کہ حدیث کے متن میں موجود ہے کہ وہ بدری صحابی تھے، اور دوسری وجہ یہ کہ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ اس فعل کی وجہ سے مسلمانوں کو کوئی ضرور نہیں پہنچے گا، بلکہ کافر ہی مغلوب اور ذلیل ہو گا، چنانچہ مسند احمد: 350/3 اور مسند ابی یعلی، رقم الحدیث: 2295 میں یہ الفاظ موجود ہیں:
«قد علمت أن الله مظهر رسوله ومتم له أمره.»
مجھے اس بات کا علم تھا کہ اللہ تعالی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور غلبہ دے گا اور اپنا حکم پورا کرے گا۔
چنانچہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ اور محدث عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ بھی اسی فعل کو متاول قرار دیتے ہیں، آپ لکھتے ہیں:
«و عزر حاطب ما ذكره فأنه صنع ذالك يتأولاً أن لا ضرر فيه.» (1)
سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ اپنے فعل میں متاول تھے، ان کا خیال تھا کہ اس مراسلات سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں ہو گا، اسی لیے اس عذر کو قبول کیا گیا۔
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے علامہ مہلب رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«معنى هذا الباب أن المتأول معزور غير مأثوم، ألا ترى أن عمر بن الخطاب قال لحاطب، لما كاتب المشركين بخبر النبى صلى الله عليه وسلم: انه منافق، فعزر النبى صلى الله عليه وسلم عمر لما نسبه إلى النفاق - و هو أسوأ الكفر - و لم يكفر عمر بذالك من أجل ما جناه حاطب، و كذالك عذر صلى الله عليه وسلم معاذًا حين قال للذي خفف الصلاة و قطعها خلفه، انه منافق لأنه كان متأولا، فلم يكفر معاذًا بذالك.» (1)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ عذر و تاویل کی وجہ سے کوئی کسی کو کافر کہہ رہا ہے تو وہ گناہ گار نہیں، جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو منافق کہا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معزور قرار دیا، کیوں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے خط لکھنے کے جرم کی وجہ سے انہیں منافق کہا تھا، اسی طرح سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے نماز سے پیچھے رہنے والے شخص کو منافق کہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی معزور قرار دیا، کیوں کہ وہ اپنی بات کی تاویل اور دلیل رکھتے تھے۔
بعین اسی طرح سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنی بات کی دلیل اور تاویل رکھتے تھے کیونکہ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ تو بدری صحابی تھے اور وہ مسلمانوں کے نقصان کے ہرگز خواہشمند نہ تھے، بلکہ وہ مسلمانوں کے خیر خواہ تھے، پس ان تأویلات کی بناء پر ان کے عذر کو قبول فرمایا گیا، اب اگر کوئی شخص کافروں کا ساتھ دے اور ان کی مدد کرے مسلمانوں کے خلاف اور وہ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش کرے تو وہ شخص حق پر نہیں ہو گا کیوں کہ نواقص اسلام میں یہ شامل ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا۔
مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے ایک اور مسئلے کی طرف توجہ دلائی، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
«و ما يخطر بالبال - والله أعلم بحقيقة الحال - أنهما مسألتان مختلفان، فالباب الأول كما قال الشراح فى حق من قال للآخر: يا كافر، بغير تأويل فى هذا القول، و أما الباب الثاني فمؤداه عندي مسألة أخرى.» (2)
یعنی سابقہ ترجمۃ الباب کا تو وہی مقصد ہے جو شارحین نے بیان کیا ہے کہ بغیر تاویل کے کسی کی تکفیر جائز نہیں اور موجب کفر ہے، البتہ اس ترجمۃ الباب سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود تاویل کی وجہ سے تکفیر کرنے والے کا حکم بیان کرنا نہیں، بلکہ اس شخص کے لیے گنجائش بیان کرنا مقصود ہے جس نے کسی تاویل یا جہالت کی بناء پر کوئی کافرانہ قول یا عمل اختیار کر لیا، تو پہلا باب قائل سے متعلق ہے جو دوسروں کو کافر کہے، اور یہ باب مقول فیہ سے تعلق رکھتا ہے، یعنی جس شخص کو کافر کہا گیا، اس کے بارے میں ہے کہ اگر اس نے کفر والا کام تاویل کی وجہ سے کیا تو وہ معذور ہے، جیسا کہ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے خط لکھنے کی تاویل بیان کی کہ مجھے معلوم تھا کہ مسلمانوں کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، البتہ مجھے یہ فائدہ ہو گا کہ میرے اہل و عیال محفوظ رہ جائیں گے۔
مولانا زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ یہ باب مقول فیہ سے تعلق رکھتا ہے، محل نظر ہے، کیوں کہ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کا اپنے بارے میں تاویل دینا دوسری جگہ ثابت ہے، بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس جگہ پر مقول فیہ کے ہی مسئلے کو حل فرمایا، امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری میں ہی باب قائم کرتے ہیں:
«باب ما جاء فى المتأولين.»
اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو متأول سمجھتے تھے۔ واللہ علم
لہذا ان گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے قول کو پیش کرنے میں تاویل پیش فرمائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر کسی قسم کی وعید نہیں سنائی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے مسئلے کی وضاحت فرما دی کہ وہ بدری صحابی ہیں اور ان کا مقصد مسلمانوں کو ضرر دینا ہرگز نہ تھا، لہذا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انہیں منافق کہنا وجہ معقول کے ساتھ تھا، اسی لیے ان پر کفر کا فتوی نہیں لوٹے گا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو معذور قرار دیا کہ وہ بدری صحابی ہیں۔ پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 190   

حدیث نمبر: 6106
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبادة، اخبرنا يزيد، اخبرنا سليم، حدثنا عمرو بن دينار، حدثنا جابر بن عبد الله، ان معاذ بن جبل رضي الله عنه، كان يصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم ياتي قومه فيصلي بهم الصلاة، فقرا بهم البقرة قال: فتجوز رجل فصلى صلاة خفيفة، فبلغ ذلك معاذا، فقال: إنه منافق، فبلغ ذلك الرجل، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إنا قوم نعمل بايدينا ونسقي بنواضحنا، وإن معاذا صلى بنا البارحة فقرا البقرة فتجوزت، فزعم اني منافق، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا معاذ، افتان انت ثلاثا، اقرا والشمس وضحاها و سبح اسم ربك الاعلى ونحوها".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَادَةَ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا سَلِيمٌ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَانَ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَأْتِي قَوْمَهُ فَيُصَلِّي بِهِمُ الصَّلَاةَ، فَقَرَأَ بِهِمُ الْبَقَرَةَ قَالَ: فَتَجَوَّزَ رَجُلٌ فَصَلَّى صَلَاةً خَفِيفَةً، فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاذًا، فَقَالَ: إِنَّهُ مُنَافِقٌ، فَبَلَغَ ذَلِكَ الرَّجُلَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا قَوْمٌ نَعْمَلُ بِأَيْدِينَا وَنَسْقِي بِنَوَاضِحِنَا، وَإِنَّ مُعَاذًا صَلَّى بِنَا الْبَارِحَةَ فَقَرَأَ الْبَقَرَةَ فَتَجَوَّزْتُ، فَزَعَمَ أَنِّي مُنَافِقٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا مُعَاذُ، أَفَتَّانٌ أَنْتَ ثَلَاثًا، اقْرَأْ وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى وَنَحْوَهَا".
ہم سے محمد بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید نے خبر دی، کہا ہم کو سلیم نے خبر دی، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر اپنی قوم میں آتے اور انہیں نماز پڑھاتے۔ انہوں نے (ایک مرتبہ) نماز میں سورۃ البقرہ پڑھی۔ اس پر ایک صاحب جماعت سے الگ ہو گئے اور ہلکی نماز پڑھی۔ جب اس کے متعلق معاذ کو معلوم ہوا تو کہا وہ منافق ہے۔ معاذ کی یہ بات جب ان کو معلوم ہوئی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم لوگ محنت کا کام کرتے ہیں اور اپنی اونٹنیوں کو خود پانی پلاتے ہیں معاذ نے کل رات ہمیں نماز پڑھائی اور سورۃ البقرہ پڑھنی شروع کر دی۔ اس لیے میں نماز توڑ کر الگ ہو گیا، اس پر وہ کہتے ہیں کہ میں منافق ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معاذ! تم لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرتے ہو، تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا (جب امام ہو تو) سورۃ «والشمس وضحاها‏» اور «سبح اسم ربك الأعلى‏» جیسی سورتیں پڑھا کرو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jabir bin `Abdullah: Mu`adh bin Jabal used to pray with the Prophet and then go to lead his people in prayer. Once he led the people in prayer and recited Surat-al-Baqara. A man left (the row of the praying people) and offered (light) prayer (separately) and went away. When Mu`adh came to know about it, he said. "He (that man) is a hypocrite." Later that man heard what Mu`adh said about him, so he came to the Prophet and said, "O Allah's Apostle! We are people who work with our own hands and irrigate (our farms) with our camels. Last night Mu`adh led us in the (night) prayer and he recited Sura-al-Baqara, so I offered my prayer separately, and because of that, he accused me of being a hypocrite." The Prophet called Mu`adh and said thrice, "O Mu`adh! You are putting the people to trials? Recite 'Washshamsi wad-uhaha' (91) or'Sabbih isma Rabbi ka-l-A'la' (87) or the like."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 127


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري6106جابر بن عبد اللهأفتان أنت ثلاثا اقرأ والشمس وضحاها و سبح اسم ربك الأعلى ونحوها
   صحيح البخاري705جابر بن عبد اللهأفتان أنت فلولا صليت بسبح اسم ربك والشمس وضحاها والليل إذا يغشى فإنه يصلي وراءك الكبير والضعيف وذو الحاجة
   صحيح مسلم1041جابر بن عبد اللهأتريد أن تكون فتانا يا معاذ إذا أممت الناس فاقرأ ب الشمس وضحاها وسبح اسم ربك الأعلى واقرأ باسم ربك والليل إذا يغشى
   صحيح مسلم1040جابر بن عبد اللهأفتان أنت اقرأ بكذا واقرأ بكذا
   سنن أبي داود790جابر بن عبد اللهأفتان أنت أفتان أنت اقرأ بكذا اقرأ بكذا
   سنن النسائى الصغرى985جابر بن عبد اللهأفتان يا معاذ ألا قرأت سبح اسم ربك الأعلى و الشمس وضحاها ونحوهما
   سنن النسائى الصغرى998جابر بن عبد اللهأفتان يا معاذ أين كنت عن سبح اسم ربك الأعلى و الضحى و إذا السماء انفطرت
   سنن النسائى الصغرى999جابر بن عبد اللهأتريد أن تكون فتانا يا معاذ إذا أممت الناس فاقرأ ب الشمس وضحاها و سبح اسم ربك الأعلى و الليل إذا يغشى و اقرأ باسم ربك
   سنن النسائى الصغرى836جابر بن عبد اللهأفتان أنت اقرأ بسورة كذا وسورة كذا
   سنن النسائى الصغرى832جابر بن عبد اللهأفتان يا معاذ
   سنن ابن ماجه836جابر بن عبد اللهاقرأ ب الشمس وضحاها و سبح اسم ربك الأعلى و الليل إذا يغشى و اقرأ باسم ربك
   سنن ابن ماجه986جابر بن عبد اللهأتريد أن تكون فتانا يا معاذ إذا صليت بالناس فاقرأ ب الشمس وضحاها و سبح اسم ربك الأعلى و الليل إذا يغشى و اقرأ باسم ربك

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6106 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6106  
حدیث حاشیہ:
امامان مساجد کو یہ حدیث پیش نظر رکھنی چاہیے۔
اللہ توفیق دے آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6106   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6106  
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ شخص کو منافق کہا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تکفیر کرنے کے بجائے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یہ کلمہ کہنے میں معذور خیال کیا کیونکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اسے منافق کہنے کی ایک معقول وجہ رکھتے تھے کہ جماعت کا تارک منافق ہوتا ہے اور مذکورہ شخص نے جماعت چھوڑ دی تھی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو سمجھایا اور سمجھاتے وقت ذرا سخت رویہ اختیار کیا اور آپ کا مقصد یہ تھا کہ اس آدمی کو منافق نہیں کہنا چاہیے تھا، اگرچہ اس بات میں یہ تاویل کی جائے کہ تارک جماعت منافق ہے۔
(2)
امام کو چاہیے کہ وہ مقتدی حضرات کا خیال رکھے کیونکہ ان میں کمزور، ناتواں، ضرورت مند اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں، جماعت کراتے وقت چھوٹی چھوٹی سورتوں کا انتخاب کیا جائے۔
لمبی سورتیں پڑھ کر لوگوں کو فتنے میں مبتلا نہ کیا جائے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی کو منافق کہنے میں کوئی معقول تاویل پیش نظر ہے تو کہنے والا منافق نہیں ہو گا بلکہ اسے تاویل کی وجہ سے معذور تصور کیا جائے گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6106   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 790  
´نماز ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر لوٹتے تو ہماری امامت کرتے تھے - ایک روایت میں ہے: پھر وہ لوٹتے تو اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز دیر سے پڑھائی اور ایک روایت میں ہے: عشاء دیر سے پڑھائی، چنانچہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پھر گھر واپس آ کر اپنی قوم کی امامت کی اور سورۃ البقرہ کی قرآت شروع کر دی تو ان کی قوم میں سے ایک شخص نے جماعت سے الگ ہو کر اکیلے نماز پڑھ لی، لوگ کہنے لگے: اے فلاں! تم نے منافقت کی ہے؟ اس نے کہا: میں نے منافقت نہیں کی ہے، پھر وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! معاذ آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر یہاں سے واپس جا کر ہماری امامت کرتے ہیں، ہم لوگ دن بھر اونٹوں سے کھیتوں کی سینچائی کرنے والے لوگ ہیں، اور اپنے ہاتھوں سے محنت اور مزدوری کا کام کرتے ہیں (اس لیے تھکے ماندے رہتے ہیں) معاذ نے آ کر ہماری امامت کی اور سورۃ البقرہ کی قرآت شروع کر دی (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے! کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے؟ فلاں اور فلاں سورۃ پڑھا کرو۔‏‏‏‏ ابوزبیر نے کہا کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا): تم «سبح اسم ربك الأعلى»، «والليل إذا يغشى» پڑھا کرو، ہم نے عمرو بن دینار سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میرا بھی خیال ہے کہ آپ نے اسی کا ذکر کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 790]
790۔ اردو حاشیہ:
➊ امام کو اپنے مقتدیوں کا لحاظ رکھتے ہوئے نماز مختصر پڑھانی چاہیے۔
➋ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نماز اور جماعت سے پیچھے رہنے کو نفاق سے تعبیر کیا کرتے تھے۔
➌ امام، مفتی اور داعی کو کسی عمل خیر میں اس نکتے کو نہیں بھولنا چاہیے کہ عام مسلمانوں پر اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ ایسی صورت نہ ہو کہ لوگ دین ہی سے بدک جائیں۔ مردہ سنتوں کے احیاء کے لئے ضروری ہے کہ پہلے لوگوں کی فکری تربیت کی جائے اور ان میں سنت کی محبت بھر دی جائے اور دلائل محکمہ سے انہیں مطمئین کیا جائے۔ پھر عمل شروع کیا جائے۔ بعض اوقات ایک شخص کا ارادہ تو نیکی کا ہوتا ہے، مگر اس سے فتنہ پیدا ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنی عافیت میں رکھے۔ آئمہ اور داعی حضرات کی ذمہ دای انتہائی اہم اور حساس ہے۔
➍ پیچھے یہ گزر چکا ہے کے کسی بھی مشروع سبب سے نماز کو دہرانا اور نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض ادا کرنا جائز ہے۔ دیکھیے: [حديث 599]
کیونکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ جو اپنی قوم کو پڑھایا کرتے تھے، وہ ان کی نفل نماز ہوتی تھی۔
ملحوظہ۔ اس روایت میں صرف مسافر کا ذکر صحیح نہیں ہے۔ [شيخ الباني]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 790   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 832  
´مقتدی کا امام کی نماز سے نکل جانے اور جا کر مسجد کے ایک گوشے میں اپنی نماز پڑھ لینے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار کا ایک شخص آیا اور نماز کھڑی ہو چکی تھی تو وہ مسجد میں داخل ہوا، اور جا کر معاذ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنے لگا، انہوں نے رکعت لمبی کر دی، تو وہ شخص (نماز توڑ کر) الگ ہو گیا، اور مسجد کے ایک گوشے میں جا کر (تنہا) نماز پڑھ لی، پھر چلا گیا، جب معاذ رضی اللہ عنہ نے نماز پوری کر لی تو ان سے کہا گیا کہ فلاں شخص نے ایسا ایسا کیا ہے، تو معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں نے صبح کر لی تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور بیان کروں گا ؛ چنانچہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بلا بھیجا، وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہیں کس چیز نے ایسا کرنے پر ابھارا؟ تو اس نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں نے دن بھر (کھیت کی) سینچائی کی تھی، میں آیا، تو جماعت کھڑی ہو چکی تھی، تو میں مسجد میں داخل ہوا، اور ان کے ساتھ نماز میں شامل ہو گیا، انہوں نے فلاں فلاں سورت پڑھنی شروع کر دی، اور (قرآت) لمبی کر دی، تو میں نے نماز توڑ کر جا کر الگ ایک کونے میں نماز پڑھ لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 832]
832 ۔ اردو حاشیہ:
➊ امام نسائی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ اب بھی اگر کوئی معقول وجہ بن جائے تو آدمی نماز باجماعت سے نکل کر اپنی الگ نماز پڑھ سکتا ہے مثلاً: جماعت کھڑی ہے کہ ٹرین آگئی۔ امام صاحب لمبی قرأت کر رہے ہیں تو ٹرین کا مسافر اپنی نماز الگ سے پڑھ لے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی خیال ہے۔ اس قسم کی کوئی اور معقول وجہ بھی عذر بن سکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ یہ عشاء کی نماز کا واقعہ ہے۔ اس انصاری کو ادائیگی نماز کی داد دیجیے کہ سارا دن کام کرنے بلکہ رات کا ایک حصہ بھی گزر جانے کے باوجود اس نے کھانے اور آرام کرنے کی بجائے نماز کو ترجیح دی۔
➌ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو تنبیہ کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم «وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَالضُّحَى، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَي» اور «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأعْلَى» جیسی سورتیں پڑھا کرو۔ دیکھیے: [صحیح البخاري الأذان حدیث: 705 و صحیح مسلم الصلاة حدیث: 465]
➍ عصر اور مغرب کی نماز میں قرآن مجید کی آخری چھوٹی سورتیں ظہر اور عشاء میں آخری درمیانی سورتیں اور صبح کی نماز میں آخری بڑی سورتیں مسنون ہیں۔ ویسے مقتدیوں کے لحاظ سے کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 832   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 836  
´امام اور مقتدی کی نیت کے اختلاف کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر اپنی قوم میں واپس جا کر ان کی امامت کرتے، ایک رات انہوں نے نماز لمبی کر دی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انہوں نے نماز پڑھی، پھر وہ اپنی قوم کے پاس آ کر ان کی امامت کرنے لگے، تو انہوں نے سورۃ البقرہ کی قرآت شروع کر دی، جب مقتدیوں میں سے ایک شخص نے قرآت سنی تو نماز توڑ کر پیچھے جا کر الگ سے نماز پڑھ لی، پھر وہ (مسجد سے) نکل گیا، تو لوگوں نے پوچھا، فلاں! تو منافق ہو گیا ہے؟ تو اس نے کہا: اللہ کی قسم میں نے منافقت نہیں کی ہے، اور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا، اور آپ کو اس سے باخبر کروں گا ؛ چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! معاذ آپ کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، پھر ہمارے پاس آتے ہیں، اور ہماری امامت کرتے ہیں، پچھلی رات انہوں نے نماز بڑی لمبی کر دی، انہوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر واپس آ کر انہوں نے ہماری امامت کی، تو سورۃ البقرہ پڑھنا شروع کر دی، جب میں نے ان کی قرآت سنی تو پیچھے جا کر میں نے (تنہا) نماز پڑھ لی، ہم پانی ڈھونے والے لوگ ہیں، دن بھر اپنے ہاتھوں سے کام کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو تم (نماز میں) فلاں، فلاں سورت پڑھا کرو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 836]
836 ۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھتے اور وہی نماز جاکر اپنی قوم کو پڑھاتے۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتے اور اپنی قوم کو عشاء کی نماز پڑھاتے تھے البتہ جس دن یہ واقعہ ہوا اس دن انہوں نے بالاتفاق عشاء کی نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی تھی۔
➋ ظاہر ہے آپ کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز فرض ہوتی تھی اور جو اپنی قوم کو پڑھاتے تھے وہ ان (معاذ رضی اللہ عنہ) کے لیے نفل ہوتی تھی اور مقتدیوں کے لیے فرض۔ اور یہی امام نسائی رحمہ اللہ کا استدلال ہے کہ امام نفل کی نیت سے پڑھ رہا ہو اور مقتدی فرض کی نیت سے تو کوئی حرج نہیں۔ محدثین اسے جائز سمجھتے ہیں مگر احناف کے نزدیک نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض نہیں پڑھے جاسکتے۔ اس حدیث کو وہ منسوخ سمجھتے ہیں مگر نسخ ثابت نہیں لہٰذا حدیث میں مذکورہ صورت جائز ہے یعنی امام نماز پہلے پڑھ چکا ہو وہ نفل نماز کی نیت کے ساتھ ہو جب کہ مقتدیوں کی نیت فرض کی ہو تو یہ صورت بالکل صحیح ہے اور حدیث معاذ اس کی واضح دلیل ہے۔ واللہ آعلم۔ مزید وضاحت کے لیے دیکھیے حدیث نمبر: 832۔
➌ امام اور مقتدی کے اختلاف نیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امام مثلاً: عصر کی نماز پڑھا رہا ہو تو کوئی شخص اس کے پیچھے ظہر کی نماز پڑھ سکتا ہے جس کی نماز ظہر رہ گئی ہو اور نماز عصر وہ بعد میں اکیلا پڑھ لے۔ اور جن کے نزدیک ترتیب کے بغیر بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے ان کے نزدیک مذکورہ صورت میں یہ بھی جائز ہے کہ وہ امام کے ساتھ نماز عصر ہی ادا کرے اور سلام پھیرنے کے بعد وہ ظہر کی قضا پڑھ لے۔ دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔ واللہ آعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 836   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 985  
´مغرب میں «سبح اسم ربک الاعلی» پڑھنے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: انصار کا ایک شخص دو اونٹوں کے ساتھ جن پر سنچائی کے لیے پانی ڈھویا جاتا ہے معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا، اور وہ مغرب ۱؎ پڑھ رہے تھے، تو انہوں نے سورۃ البقرہ شروع کر دی، تو اس شخص نے (الگ جا کر) نماز پڑھی، پھر وہ چلا گیا تو یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاذ! کیا تم فتنہ پرداز ہو؟ معاذ کیا تم فتنہ پرداز ہو؟ «‏سبح اسم ربك الأعلى» اور «‏والشمس وضحاها» اور اس طرح کی سورتیں کیوں نہیں پڑھتے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 985]
985 ۔ اردو حاشیہ:
➊ صحیح بخاری (حدیث: 701) میں عشاء کی نماز کا ذکر ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یا تو اسے تعدد واقعات پر محمول کیا جائے گا، یعنی مغرب اور عشاء دونوں نمازوں میں یہ واقعہ ہوا، یا عشاء کی نماز کے لیے مغرب کا لفظ مجاراً بول دیا گیا (کیونکہ یہ دونوں رات کی نمازیں ہیں جیسے احادیث میں عشاء اولی اور عشاء آخرہ کے لفظ ملتے ہیں)۔ ورنہ جو صحیح بخاری میں ہے، وہی زیادہ صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔ دیکھیے: [فتح الباري: 251/2، تحت حدیث: 701]
➋ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مفترض (فرض پڑھنے والا) متنفل (نفل پڑھنے والا) کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے، یعنی امام متنفل ہو اور مقتدی مفترض کیونکہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ کر آتے تھے، پھر اپنی قوم کو آکر پڑھاتے تھے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی نماز نفل ہوتی تھی۔
➌ کسی عذر کی بنا پر مقتدی نماز سے نکل سکتا ہے۔
➍ مقتدیوں کا خیال رکھتے ہوئے نماز ہلکی پڑھانا مستحب ہے۔
➎ جب مسجد میں جماعت ہو رہی ہو تو کسی شرعی عذر کی وجہ سے کوئی آدمی اکیلا نماز پڑھ لے تو جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 985   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث836  
´عشاء میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی نماز پڑھائی اور نماز لمبی کر دی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ سورتیں پڑھا کرو: «والشمس وضحاها»، «سبح اسم ربك الأعلى»، «والليل إذا يغشى» اور «اقرأ بسم ربك» ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 836]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشاء کی نماز نبی اکرمﷺ کی اقتداء میں ادا کرنے کے بعد اپنے محلے کی مسجد میں جا کر نماز کی امامت کیا کرتے تھے۔
ایسی صورت میں جب کہ ان کی نماز مسجد نبوی ﷺ کی نماز سے بھی لیٹ ادا ہوتی تھی۔
طویل قراءت لوگوں کےلئے مزید مشقت اور گرانی کا باعث ہوتی حتیٰ کہ بعض لوگوں نے آ کر نبی ﷺ سے ان کی شکایت بھی کی۔
جس پر آپﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنبیہ فرمائی۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، باب القراءۃ فی العشاء، حدیث: 465)

(2)
اس موقع پر شکایت کرنے والے صاحب کو ایک اور وجہ سے بھی مشقت ہوئی۔
وہ محنت مشقت سے روزی کمانے والے آدمی تھے۔
مزدوری سے فارغ ہوکر آئے۔
دو اونٹ ساتھ تھے۔
دیکھا مسجد میں جماعت کھڑی ہے۔
تو نماز میں شامل ہوگئے۔
کچھ دن بھر کی تھکاوٹ کچھ اونٹوں کا فکر کچھ جلدی گھر پہنچ کرکھانے پینے اور آرام کی خواہش۔
ادھر حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ بقرہ شروع کردی۔
اب معلوم نہیں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت سے لطف وانداز ہوتے ہوئے کہاں تک پڑھتے چلے جایئں۔
چنانچہ اس صحابی نے جماعت سے الگ ہوکر اپنی نماز پڑھی اور چلے گئے۔
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے نامناسب خیال کیا۔
اور تنقید کے طور پرکچھ ارشاد فرمایا۔
انھیں خبر ملی تو رسول اللہ ﷺ سے جا شکایت کی۔
تب آپﷺ نے یہ بات فرمائی۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، الأذان، باب من شکا إمامه اذا طوّل، حدیث: 705)

(3)
امام کو نماز میں کمزور اور ضرورت مند مقتدیوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔

(4)
اگرکسی سے شکایت ہوتو اس کے متعلق کسی اعلیٰ شخصیت کو بتانا غیبت میں شامل نہیں۔
کیونکہ اس سے غلطی کی تلافی اور اس کی اصلاح مقصود ہے۔

(5)
عشاء کی نماز میں قراءت مختصر ہونی چاہیے۔
اس میں مذکورہ بالاسورتیں یا اس مقدار میں تلاوت کرنا مسنون ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 836   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث986  
´جو شخص امامت کرے وہ نماز ہلکی پڑھائے۔`
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی نماز پڑھائی اور نماز لمبی کر دی، ہم میں سے ایک آدمی چلا گیا اور اکیلے نماز پڑھ لی، معاذ رضی اللہ عنہ کو اس شخص کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے کہا: یہ منافق ہے، جب اس شخص کو معاذ رضی اللہ عنہ کی بات پہنچی، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو معاذ رضی اللہ عنہ کی بات بتائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاذ! کیا تم فتنہ پرداز ہونا چاہتے ہو؟ جب لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو «والشمس وضحاها»، «سبح اسم ربك الأعلى» «والليل إذا يغشى» اور «‏‏‏‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 986]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کی نظر میں نماز باجماعت کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔
اس لئے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس قدر شدید ردعمل کا اظہار فرمایا۔

(2)
جس کی شکایت کی گئی ہو۔
اس کا موقف بھی معلوم کرنا چاہیے۔
تاکہ فریقین کی بات سن کر صحیح نتیجے تک پہنچا جا سکے۔

(3)
عشاء کی نماز میں قراءت مختصر ہونی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 986   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1040  
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ (عشاء) کی نماز پڑھا کرتے تھے، پھر آ کر اپنے قبیلہ کی مسجد میں امامت کرواتے تھے، ایک رات انہوں نے عشاء کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھی، پھر اپنی قوم کے پاس آئے اور ان کی امامت کی اور (سورہٴ فاتحہ کے بعد) سورہٴ بقرہ پڑھنی شروع کر دی، ایک شخص نماز سے سلام پھیر کر الگ ہو گیا، پھر اکیلا نماز پڑھ کر چلا گیا، (اس کے بلا جماعت، اکیلے نماز پڑھنے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1040]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
فَتَّانٌ:
فتنہ پرور،
ابتلاء وآزمائش میں ڈالنے والا،
یعنی یہ چیز لوگوں کے لیے نماز سے پیچھے رہنے کا سبب بن سکتی ہے،
حالانکہ جماعت کا اہتمام ضروری ہے (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے الگ نماز پڑھنے والے کو منافق کہا)
۔
فوائد ومسائل:

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز ہو سکتی ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ حضرت معاذ مسجد نبوی میں جہاں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں سے زیادہ ہے۔
اورآپﷺ کی اقتداء میں جہاں نماز پڑھنے میں خشوع وخضوع اور طمانیت وتسکین زیادہ ہے فرض نماز ہی پڑھتے تھے کیونکہ پہلے انہوں نے نماز نہیں پڑھی ہوئی ہوتی کہ یہ نماز نفلی ہو جاتی۔
مزید برآں بعض روایات میں یہ تصریح موجود ہے،
کہ ان کی نماز قوم کے ساتھ نفلی ہوتی تھی۔
(هِيَ لَهُ تَطُوَّع وَهِيَ لَهُمْ فَرِيْضَة)
یہ نماز معاذ کی نفل اور قوم کی فرض ہوتی تھی۔
اس لیے احناف اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا یہ نظریہ درست نہیں ہے کہ متنفل کے پیچھے مفرض کی نماز نہیں ہوتی۔

امام کو چاہیے کہ وہ نماز اتنی طویل نہ پڑھے،
جو مقتدیوں کے لیے مشقت کا باعث ہو،
خاص کر جبکہ اس کے مقتدی،
ضعیف،
بوڑھے اور محنت پیشہ لوگ ہوں۔

ایک واضح اور کھلی بات کی مخالفت کرنے والوں کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی جا سکتی ہے۔
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھ کر جاتےتھے۔
اس طرح انہیں آپﷺ کی قراءت کا پتہ چلتا رہتا تھا،
اس کے باجود انہوں نے اس کو نظر انداز کیا،
اور اپنے پیچھے محنت ومشقت کرنے والے نمازیوں کا خیال نہ رکھا تو آپﷺ نے سخت الفاظ میں تنبیہ فرمائی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1040   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 705  
705. حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک شخص آبپاشی کے دو اونٹ لے کر آیا جبکہ رات کافی گزر چکی تھی، اتفاقا حضرت معاذ ؓ نماز پڑھا رہے تھے۔ اس نے اپنے اونٹ بٹھائے اور حضرت معاذ ؓ کی طرف نماز کے لیے چلا آیا۔ انہوں نے سورہ بقرۃ یا سورۃ نساء پڑھنی شروع کر دی، چنانچہ وہ شخص وہاں سے چلا گیا اور اسے معلوم ہوا کہ حضرت معاذ نے اس کے متعلق کوئی تکلیف دہ بات کہی ہے۔ وہ شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے حضرت معاذ ؓ کی شکایت کی تو آپ نے تین مرتبہ فرمایا: اے معاذ! کیا تو فتنہ پرور یا فتنہ انگیز ہے؟ تو نے ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ ، ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١﴾ اور ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھائی جبکہ تیرے پیچھے عمر رسیدہ، ناتواں اور ضرورت مند لوگ نماز پڑھتے ہیں۔ (شعبہ کہتے ہیں کہ) میرے گمان کے مطابق آخری جملہ بھی حدیث کا حصہ ہے۔ (امام بخاری ؓ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بیان کرنے میں) سعید۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:705]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے ایک نہایت اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کیا کسی ایسے کام کے بارے میں جو خیر محض ہو شکایت کی جاسکتی ہے یا نہیں۔
نماز ہر طرح خیر ہی خیر ہے، کسی برائی کا اس میں کوئی پہلو نہیں۔
اس کے باوجود اس سلسلے میں ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے شکایت کی اور آنحضور ﷺ نے اسے سنا اور شکایت کی طر ف بھی توجہ فرمائی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں بھی شکایت بشرطیکہ معقول اور مناسب ہو جائز ہے۔
(تفہیم البخاری)
دوسری روایت میں ہے کہ سورۃ الطارق اور ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١﴾ یا ﴿سبح اسم﴾ یا ﴿اقتربت الساعة﴾ پڑھنے کا حکم فرمایا۔
مفصل قرآن کی ساتویں منزل کا نام ہے۔
یعنی سورۃ ق سے آخر قرآن تک۔
پھر ان میں تین ٹکڑے ہیں۔
طوال یعنی ق سے سورۃ عم تک۔
اور اوساط یعنی بیچ کی عم سے والضحیٰ تک۔
قصار یعنی چھوٹی والضحیٰ سے آخر تک۔
ائمہ کو ان ہدایات کا مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 705   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:705  
705. حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک شخص آبپاشی کے دو اونٹ لے کر آیا جبکہ رات کافی گزر چکی تھی، اتفاقا حضرت معاذ ؓ نماز پڑھا رہے تھے۔ اس نے اپنے اونٹ بٹھائے اور حضرت معاذ ؓ کی طرف نماز کے لیے چلا آیا۔ انہوں نے سورہ بقرۃ یا سورۃ نساء پڑھنی شروع کر دی، چنانچہ وہ شخص وہاں سے چلا گیا اور اسے معلوم ہوا کہ حضرت معاذ نے اس کے متعلق کوئی تکلیف دہ بات کہی ہے۔ وہ شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے حضرت معاذ ؓ کی شکایت کی تو آپ نے تین مرتبہ فرمایا: اے معاذ! کیا تو فتنہ پرور یا فتنہ انگیز ہے؟ تو نے ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ ، ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١﴾ اور ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھائی جبکہ تیرے پیچھے عمر رسیدہ، ناتواں اور ضرورت مند لوگ نماز پڑھتے ہیں۔ (شعبہ کہتے ہیں کہ) میرے گمان کے مطابق آخری جملہ بھی حدیث کا حصہ ہے۔ (امام بخاری ؓ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بیان کرنے میں) سعید۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:705]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت معاذ بن جبل ؓ اور حضرت ابو مسعود انصاری ؓ کی روایت میں بیان شدہ واقعہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر مختلف ہے:
٭ واقعۂ معاذ میں نماز عشاء کا ذکر ہے جبکہ حضرت ابو مسعود کی روایت نماز صبح سے متعلق ہے۔
٭حضرت معاذ ؓ کے واقعہ میں وہ خود امام تھے جبکہ ابو مسعود ؓ کی روایت میں حضرت ابی بن کعب ؓ کی امامت کا ذکر ہے۔
٭حضرت معاذ ؓ اپنی قوم بنو سلمہ کے امام تھے جبکہ ابو مسعود ؓ کی روایت میں مسجد قباء کی امامت کا ذکر ہے۔
٭ حضرت معاذ ؓ سے اختلاف کرنے والاکوئی ایک انصاری نوجوان ہے۔
(فتح الباري: 256/2) (2)
حضرت جابر ؓ کی روایت کے آخر میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان:
نماز میں بوڑھوں،عمر رسیدہ اور ضرورت مند حضرات کا خیال رکھنا چاہیے۔
یہ کسی راوی کا سہو ہے کیونکہ یہ ارشاد نبوی حضرت ابو مسعود ؓ کی روایت کا حصہ ہے، اس لیے اس اضافے کو محارب سے شعبہ کے علاوہ اور کوئی بیان نہیں کرتا، اسی طرح حضرت جابر ؓ سے بیان کرنے والا کوئی دوسرا راوی ان الفاظ کا ذکر نہیں کرتا۔
(3)
حدیث میں مذکور الفاظ (أحسب في هذا الحديث)
مختلف فیہ ہیں۔
فتح الباری اور صحیح بخاری کے دیگر نسخوں میں یہ الفاظ (أحسب في هذا الحديث)
یا (أحسب في الحديث)
منقول ہیں، البتہ مفہوم کے اعتبار سے (أحسب في هذا الحديث)
ہی درست معلوم ہوتے ہیں۔
اس سے مراد یہ ہے کہ هذا کا مشار الیہ آخری جملہ (فانه يصلي وراءك۔
۔
۔
الحاجة)

ہے۔
شعبہ کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق یہ جملہ بھی حدیث کا جز اور حصہ ہے۔
(4)
واضح رہے کہ جماعت کے دوران میں مندرجہ ذیل حضرات کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
جیسا کہ متعدد دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے:
ضعیف وناتواں، بیمار، نوعمر بچہ، عمر رسیدہ، حاملہ عورت، دودھ پلانے والی، مسافر اور ضرورت مند حضرات۔
(فتح الباري: 260/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 705   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.