Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
74. بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ إِكْفَارَ مَنْ قَالَ ذَلِكَ مُتَأَوِّلاً أَوْ جَاهِلاً:
باب: اگر کسی نے کوئی وجہ معقول رکھ کر کسی کو کافر کہا یا نادانستہ تو وہ کافر (نہ) ہوگا۔
وَقَالَ عُمَرُ لِحَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِنَّهُ مُنَافِقٌ فَقَال النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ قَدِ اطَّلَعَ إِلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ قَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ.
اور عمر رضی اللہ عنہ نے حاطب بن ابی بلتعہ کے متعلق کہا کہ وہ منافق ہے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر! تو کیا جانے اللہ تعالیٰ نے تو بدر والوں کو عرش پر سے دیکھا اور فرما دیا کہ میں نے تم کو بخش دیا۔

صحیح بخاری کی حدیث نمبر Q6106 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q6106  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: Q6106 باب: «بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ إِكْفَارَ مَنْ قَالَ ذَلِكَ مُتَأَوِّلاً أَوْ جَاهِلاً:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے پچھلے ابواب میں یہ ثابت فرمایا کہ بغیر تاویل کے تکفیر کرنا باعث کفر ہے، کیوں کہ کسی مسلمان کی بغیر تاویل تکفیر درست نہیں، لیکن اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتلانے کی کوشش فرما رہے ہیں کہ تاویل اور عدم واقفیت کی بنیاد پر تکفیر کرنے والا معذور ہے۔
تحت الباب جس حدیث کا امام بخاری رحمہ اللہ نے انتخاب فرمایا اس حدیث میں کئی ایک فوائد حاصل کیے گئے ہیں۔
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہوگی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عذر اور تاویل کی وجہ سے انہیں منافق کہا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دو وجوہات کی بناء پر معذور قرار دیا، پہلی وجہ جو کہ حدیث کے متن میں موجود ہے کہ وہ بدری صحابی تھے، اور دوسری وجہ یہ کہ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ اس فعل کی وجہ سے مسلمانوں کو کوئی ضرور نہیں پہنچے گا، بلکہ کافر ہی مغلوب اور ذلیل ہو گا، چنانچہ مسند احمد: 350/3 اور مسند ابی یعلی، رقم الحدیث: 2295 میں یہ الفاظ موجود ہیں:
«قد علمت أن الله مظهر رسوله ومتم له أمره.»
مجھے اس بات کا علم تھا کہ اللہ تعالی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور غلبہ دے گا اور اپنا حکم پورا کرے گا۔
چنانچہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ اور محدث عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ بھی اسی فعل کو متاول قرار دیتے ہیں، آپ لکھتے ہیں:
«و عزر حاطب ما ذكره فأنه صنع ذالك يتأولاً أن لا ضرر فيه.» (1)
سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ اپنے فعل میں متاول تھے، ان کا خیال تھا کہ اس مراسلات سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں ہو گا، اسی لیے اس عذر کو قبول کیا گیا۔
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے علامہ مہلب رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«معنى هذا الباب أن المتأول معزور غير مأثوم، ألا ترى أن عمر بن الخطاب قال لحاطب، لما كاتب المشركين بخبر النبى صلى الله عليه وسلم: انه منافق، فعزر النبى صلى الله عليه وسلم عمر لما نسبه إلى النفاق - و هو أسوأ الكفر - و لم يكفر عمر بذالك من أجل ما جناه حاطب، و كذالك عذر صلى الله عليه وسلم معاذًا حين قال للذي خفف الصلاة و قطعها خلفه، انه منافق لأنه كان متأولا، فلم يكفر معاذًا بذالك.» (1)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ عذر و تاویل کی وجہ سے کوئی کسی کو کافر کہہ رہا ہے تو وہ گناہ گار نہیں، جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو منافق کہا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معزور قرار دیا، کیوں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے خط لکھنے کے جرم کی وجہ سے انہیں منافق کہا تھا، اسی طرح سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے نماز سے پیچھے رہنے والے شخص کو منافق کہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی معزور قرار دیا، کیوں کہ وہ اپنی بات کی تاویل اور دلیل رکھتے تھے۔
بعین اسی طرح سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنی بات کی دلیل اور تاویل رکھتے تھے کیونکہ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ تو بدری صحابی تھے اور وہ مسلمانوں کے نقصان کے ہرگز خواہشمند نہ تھے، بلکہ وہ مسلمانوں کے خیر خواہ تھے، پس ان تأویلات کی بناء پر ان کے عذر کو قبول فرمایا گیا، اب اگر کوئی شخص کافروں کا ساتھ دے اور ان کی مدد کرے مسلمانوں کے خلاف اور وہ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش کرے تو وہ شخص حق پر نہیں ہو گا کیوں کہ نواقص اسلام میں یہ شامل ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا۔
مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے ایک اور مسئلے کی طرف توجہ دلائی، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
«و ما يخطر بالبال - والله أعلم بحقيقة الحال - أنهما مسألتان مختلفان، فالباب الأول كما قال الشراح فى حق من قال للآخر: يا كافر، بغير تأويل فى هذا القول، و أما الباب الثاني فمؤداه عندي مسألة أخرى.» (2)
یعنی سابقہ ترجمۃ الباب کا تو وہی مقصد ہے جو شارحین نے بیان کیا ہے کہ بغیر تاویل کے کسی کی تکفیر جائز نہیں اور موجب کفر ہے، البتہ اس ترجمۃ الباب سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود تاویل کی وجہ سے تکفیر کرنے والے کا حکم بیان کرنا نہیں، بلکہ اس شخص کے لیے گنجائش بیان کرنا مقصود ہے جس نے کسی تاویل یا جہالت کی بناء پر کوئی کافرانہ قول یا عمل اختیار کر لیا، تو پہلا باب قائل سے متعلق ہے جو دوسروں کو کافر کہے، اور یہ باب مقول فیہ سے تعلق رکھتا ہے، یعنی جس شخص کو کافر کہا گیا، اس کے بارے میں ہے کہ اگر اس نے کفر والا کام تاویل کی وجہ سے کیا تو وہ معذور ہے، جیسا کہ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے خط لکھنے کی تاویل بیان کی کہ مجھے معلوم تھا کہ مسلمانوں کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، البتہ مجھے یہ فائدہ ہو گا کہ میرے اہل و عیال محفوظ رہ جائیں گے۔
مولانا زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ یہ باب مقول فیہ سے تعلق رکھتا ہے، محل نظر ہے، کیوں کہ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کا اپنے بارے میں تاویل دینا دوسری جگہ ثابت ہے، بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس جگہ پر مقول فیہ کے ہی مسئلے کو حل فرمایا، امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری میں ہی باب قائم کرتے ہیں:
«باب ما جاء فى المتأولين.»
اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو متأول سمجھتے تھے۔ واللہ علم
لہذا ان گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے قول کو پیش کرنے میں تاویل پیش فرمائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر کسی قسم کی وعید نہیں سنائی، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے مسئلے کی وضاحت فرما دی کہ وہ بدری صحابی ہیں اور ان کا مقصد مسلمانوں کو ضرر دینا ہرگز نہ تھا، لہذا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انہیں منافق کہنا وجہ معقول کے ساتھ تھا، اسی لیے ان پر کفر کا فتوی نہیں لوٹے گا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو معذور قرار دیا کہ وہ بدری صحابی ہیں۔ پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 190