ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ انصاری سے خبر دی، پھر عبدالرحمٰن مازنی اپنے والد عبداللہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں خبر دی کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ صحابی نے ان سے بیان کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے۔ اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو۔ کیونکہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
Narrated `Abdur-Rahman: Abu Sa`id Al-Khudri told my father, "I see you liking sheep and the wilderness. So whenever you are with your sheep or in the wilderness and you want to pronounce Adhan for the prayer raise your voice in doing so, for whoever hears the Adhan, whether a human being, a jinn or any other creature, will be a witness for you on the Day of Resurrection." Abu Sa`id added, "I heard it (this narration) from Allah's Apostle."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 583
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 609
حدیث حاشیہ: حضرت خلیفۃ المسلمین عمربن عبدالعزیز ؒ کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالاہے۔ اس مؤذن نے تال اور سرکے ساتھ گانے کی طرح اذان دی تھی، جس پر اس کویہ سرزنش کی گئی۔ پس اذان میں ایسی بلندآواز اچھی نہیں جس میں تال اورسرپیدا ہو۔ بلکہ سادی طرح بلندآواز سے مستحب ہے۔ حدیث سے جنگلوں، بیابانوں میں اذان کی آواز بلند کرنے کی فضیلت ثابت ہوئی تو وہ گڈریے اورمسلمان چرواہے بڑے ہی خوش نصیب ہیں جو اس پر عمل کریں سچ ہے دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 609
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 609
فوائد:
➊ اذان کا اصل مقصود زیادہ سے زیادہ دور تک اسلام کا شعار اور نماز کی دعوت پہنچانا ہے اور ظاہر ہے کہ تصنع اور سُر کے ساتھ اذان کہنے میں توجہ آواز کی بلندی کی بجائے زیادہ تر نغمے اور لہجے کی طرف رہتی ہے۔ ویسے بھی تصنع اور تکلف شریعت میں مذموم ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: «قُلْ مَا اسْتَلَكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ»[ص: 86]”کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں۔“[مصنف ابن ابي شيبه 2072، ح: 2375] میں ہے کہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے ایک مؤذن نے اذان میں سُر لگائی تو انھوں نے کہا: ”سادہ اذان کہو، ورنہ ہم سے الگ ہو جاؤ۔“
➋ «غنم» کا لفظ بھیڑ بکریوں دونوں پر بولا جاتا ہے اور «بَادِيَةٌ» کا معنی صحرا ہے جس میں آبادی نہ ہو (اس کا ترجمہ جنگل نہیں ہے)۔ [فتح الباري]
➌ عبداللہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ یتیم تھے، ابو سعید رضی اللہ عنہ کی گود میں پلے، کیونکہ ان کی والدہ نے ان سے نکاح کر لیا تھا۔ [فتح الباري]
➍ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی بات سے معلوم ہوا کہ شہر میں ہو یا صحرا میں نماز کے وقت اذان تو کہنی ہی کہنی ہے، اس لیے انھوں نے اذان کہنے کی نہیں بلکہ اذان کہتے وقت اونچی آواز کے ساتھ کہنے کی تاکید کی اور اس کی فضیلت کی حدیث بیان فرمائی۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الصَّلَاةُ فِي جَمَاعَةٍ تَعْدِلُ خَمْسًا وَ عِشْرِيْنَ صَلَاةٌ، فَإِذَا صَلَّاهَا فِيْ فَلَاةٍ فَأَتَمَّ رُكُوْعَهَا وَسُجُوْدَهَا بَلَغَتْ خَمْسِيْنَ صَلَاةٌ»[أبو داود: 560، صحيح]”جماعت میں نماز پچیسں نمازوں کے برابر ہے، پھر جب اسے کسی بیابان میں پڑھے اور اس کا رکوع و سجود پورا کرے تو پچاس نمازوں کو پہنچ جاتی ہے۔“ سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جو شخص بیابان میں نماز پڑھے اس کے دائیں طرف ایک فرشتہ اور بائیں طرف ایک فرشتہ نماز پڑھتا ہے، پھر جب اذان کہے اور اقامت کہے تو اس کے پیچھے پہاڑوں کی طرح فرشتے نماز پڑھتے ہیں۔ [الموطأ: 240، باب النداء فى السفر] مگر یہ تابعی کا قول ہے، اس سے کوئی مسئلہ یا فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔ ہو سکتا ہے دو فرشتوں سے ان کی مراد کراماً کاتبین ہوں، مگر ان کا ساتھ نماز پڑھنا پھر بھی دلیل کا محتاج ہے۔
➎ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحرا میں اکیلے آدمی کا اذان کہنا مستحب (ثواب کا کام) ہے، خواہ وہاں کسی آدمی کے آ کر ساتھ ملنے کی امید نہ ہو، کیونکہ اگر نمازی نہ بھی آسکے تو ان تمام چیزوں کی شہادت تو ضرور حاصل ہو گی جن تک اس کی آواز پہنچے گی۔ [فتح الباري]
➏ ”جن یا انسان یا کوئی چیز“ کے الفاظ میں تمام جمادات، نباتات اور حیوانات شامل ہیں، چنانچہ ابن خزیمہ کی روایت میں ہے۔: «لا يَسْمَعُ صَوْتَهُ شَجَرٌ وَلَا مَدَرُ وَلَا حَجَرٌ وَلَا جِنَّ وَلَا إِنَّسُ إِلَّا شَهِدَ لَهُ»[صحيح ابن خزيمة: 389]”اس کی آواز جو بھی درخت یا اینٹ روڑا یا پتھر یا جن یا انسان سنے گا وہ اس کے لیے گواہی دے گا۔“ اور ابو داؤد اور نسائی میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کے الفاظ یہ ہیں: «الْمُؤَذِّنُ يُغْفَرُ لَهُ مَدَى صَوْتِهِ وَيَشْهَدُ لَهُ كُلُّ رَطْبٍ وَيَابِسِ»[ابو داؤد: 515، نسائي: 645]”مؤذن کو اس کی آواز کی انتہا تک بخش دیا جاتا ہے اور ہر تر اور خشک چیز اس کے لیے شہادت دیتی ہے۔ [فتح الباري] ہر خشک و تر کی شہادت کی بات اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ملتی جلتی ہے: «وَإِنْ مِّن شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ»[بني إسرائيل: 44]”اور جو بھی چیز ہے وہ اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتی ہے، لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔“ کیونکہ ان سب میں ادراک موجود ہے، یہ صرف زبانِ حال کی بات نہیں، کیونکہ یہ سمجھنا تو کچھ مشکل نہیں۔ [صحيح مسلم 2277] میں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس پتھر کو اب بھی پہچانتا ہوں جو مجھے مکہ میں بعثت سے قبل سلام کہا کرتا تھا۔“[فتح الباري] اور قیامت کے دن زمین وہ سب کچھ بتائے گی جو اس پر کیا گیا۔ سورہ زلزال میں فرمایا: «يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا»[الزلزال: 4]”اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی۔“
➐ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بھیڑ بکریوں اور صحرا بیابان سے محبت اور خصوصاً فتنے کے ایام میں وہاں چلے جانا سلف صالحین کا عمل ہے، بشرطیکہ علم سے غافل نہ رہے اور بادیہ نشینوں کی سختی طبع سے بچے، ورنہ شہر میں رہنا بہت بڑی نعمت ہے، جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین اور بھائیوں کے شہر میں آنے کو اللہ کا احسان قرار دیا: «وَقَدْ أَحْسَنَ بي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السَّجْنِ وجَاءَ بِكُمْ مِنَ البَدْهِ»[يوسف: 100]”اللہ نے مجھ پر احسان فرمایا جب اس نے مجھے قید سے نکالا اور تمھیں بادیہ سے لے آیا۔“ اور تمام انبیاء علیہم السلام شہروں اور بستیوں ہی میں پیدا ہوئے اور وہیں دعوت کا کام کرتے رہے۔ [ديكهيے يوسف: 109 - القصص: 59] یاد رہے کہ فتنے کے ایام میں صحرا اور بادیہ میں بھیڑ بکریاں چرا کر زندگی گزارنے کو رہبانیت سے کوئی نسبت نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَرَهْبَانِيَةَ إِبْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنَهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ»[الحديد: 27]”اور دنیا سے کنارہ کشی تو انھوں نے خود ہی ایجاد کر لی، ہم نے اسے ان پر نہیں لکھا تھا مگر اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے (انھوں نے یہ کام کیا)۔“
➑ اس حدیث سے لاؤڈ سپیکر کے استعمال کا مستحب ہونا بھی ثابت ہوا، کیونکہ آواز جتنی دور جائے گی مسلمانوں اور موذن کے حق میں مفید اور شیطان کے لیے باعث تکلیف ہے۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 609
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:609
حدیث حاشیہ: (1) اذان بآواز بلند کہنا اپنے اندر بڑی فضیلت رکھتا ہے۔ یہ حکم جنگل کی اذان میں بھی وارد ہے۔ اگر وہاں انسان نہ ہوں، تب بھی وہاں جہاں تک آواز پہنچے گی اس کو سننے والے قیامت کے دن گواہی دیں گے، لیکن اس بلند آواز میں نغمہ سرائی کا پہلو بالکل نہیں ہونا چاہیے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اکیلا آدمی اذان دے سکتا ہے۔ سعید بن مسیب ؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص جنگل میں نماز پڑھے تو اس کے دائیں بائیں فرشتے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں اور اگر اذان اور اقامت کہہ کر نماز پڑھے تو اس کے پیچھے پہاڑوں کے برابر کثیر تعداد میں فرشتے جمع ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ (موطأ إمام مالك، باب النداء في السفر، حدیث: 164)(2) ایک حدیث میں ہے کہ نماز باجماعت کا ثواب پچیس گنا ہے اور اگر جنگل میں رکوع وسجود اچھی طرح کرکے پڑھے تو اسے پچاس گنا ثواب ملے گا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 560) لیکن یہ اجرو ثواب کسی اتفاقی صورت کے لیے ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بلا وجہ آبادی کی مساجد کو چھوڑ کر زیادہ ثواب لینے کی نیت سے کسی جنگل کا رخ کرے اور وہاں نمازیں شروع کردے۔ اگر ایسا کرنا صحیح ہوتا تو اسلاف سے ضرور منقول ہوتا۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 609