وقال عاصم، عن ابي بردة، قال: قلت لعلي: ما القسية؟ قال:" ثياب اتتنا من الشام او من مصر مضلعة فيها حرير، وفيها امثال الاترنج والميثرة، كانت النساء تصنعه لبعولتهن مثل القطائف يصفرنها" وقال جرير، عن يزيد، في حديثه القسية" ثياب مضلعة يجاء بها من مصر فيها الحرير والميثرة جلود السباع" قال ابو عبد الله: عاصم اكثر واصح في الميثرة.وَقَالَ عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَلِيٍّ: مَا الْقَسِّيَّةُ؟ قَالَ:" ثِيَابٌ أَتَتْنَا مِنَ الشَّأْمِ أَوْ مِنْ مِصْرَ مُضَلَّعَةٌ فِيهَا حَرِيرٌ، وَفِيهَا أَمْثَالُ الْأُتْرُنْجِ وَالْمِيثَرَةُ، كَانَتِ النِّسَاءُ تَصْنَعُهُ لِبُعُولَتِهِنَّ مِثْلَ الْقَطَائِفِ يُصَفِّرْنَهَا" وَقَالَ جَرِيرٌ، عَنْ يَزِيدَ، فِي حَدِيثِهِ الْقَسِّيَّةُ" ثِيَابٌ مُضَلَّعَةٌ يُجَاءُ بِهَا مِنْ مِصْرَ فِيهَا الْحَرِيرُ وَالْمِيثَرَةُ جُلُودُ السِّبَاعِ" قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: عَاصِمٌ أَكْثَرُ وَأَصَحُّ فِي الْمِيثَرَةِ.
عاصم ابن کلیب نے بیان کیا کہ ان سے ابوبردہ نے بیان کیا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا «قسي» کیا چیز ہے؟ بتلایا کہ یہ کپڑا تھا جو ہمارے یہاں (حجاز میں) شام یا مصر سے آتا تھا اس پر چوڑی ریشمی دھاریاں پڑی ہوتی تھیں اور اس پر ترنج جیسے نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور «ميثرة» زین پوش وہ کپڑا کہلاتا تھا جسے عورتیں ریشم سے اپنے شوہروں کے لیے بناتی تھیں۔ یہ جھالر دار چادر کی طرح ہوتی تھی وہ اسے زرد رنگ سے رنگ دیتی تھیں جیسے اوڑھنے کے رومال ہوتے ہیں اور جریر نے بیان کیا کہ ان سے زید نے بیان کیا کہ «قسية» وہ چوخانے کپڑے ہوتے تھے جو مصر سے منگوائے جاتے تھے اور اس میں ریشم ملا ہوا ہوتا تھا اور «ميثرة» درندوں کے چمڑے کے زین پوش۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ «ميثرة» کی تفسیر میں عاصم کی روایت کثرت طرق اور صحت کے اعتبار سے بڑھی ہوئی ہے۔
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو سفیان نے خبر دی، انہیں اشعث بن ابی شعثاء نے، ان سے معاویہ بن سوید بن مقرن نے بیان کیا اور ان سے ابن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سرخ «ميثرة» اور «قسي» کے پہننے سے منع فرمایا ہے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5838
حدیث حاشیہ: قسطلانی نے کہاکہ اکثر علماءکے نزدیک زین پوش وہی منع ہے جس میں خالص ریشم ہو یا ریشم زیادہ ہو سوت کم ہو۔ اگر دونوں آدھے آدھے ہوں تو ایسے کپڑوں کا استعمال درست رکھا ہے کیونکہ اسے حریر نہیں کہہ سکتے آج کل ٹسر وغیرہ کا یہی حال ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5838
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5838
حدیث حاشیہ: (1) سرخ میثرہ سے مراد وہ دیباج یا ریشم کی گدی ہے جو عجمی لوگ اپنی سواریوں پر بچھاتے تھے۔ اگر خالص ریشم کی ہوں تو اس کے ناجائز ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اگر اس میں ملاوٹ ہے تو دیکھا جائے اگر کپڑا ریشم ہے تو بھی منع ہے کیونکہ حکم کا دارومدار اکثریت پر ہوتا ہے اور اگر ریشم کم ہے اور روئی وغیرہ زیادہ ہے تو جمہور اہل علم اسے جائز کہتے ہیں۔ (فتح الباري: 363/10)(2) ہمارے ہاں ٹسر (کچے ریشم) سے کپڑے بھی تیار کیے جاتے ہیں، ہمارے رجحان کے مطابق ان میں بہت کم ریشم ہوتا ہے، لہذا ان کا استعمال بھی جائز ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5838