مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عثمان بن عمر نے، کہا کہ ہم سے یونس بن یزید ایلی نے، ان سے سالم نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”امراض میں چھوت چھات کی اور بدشگونی کی کوئی اصل نہیں اور اگر نحوست ہوتی تو یہ صرف تین چیزوں میں ہوتی عورت میں، گھر میں اور گھوڑے میں۔“
Narrated `Abdullah bin `Umar: Allah's Apostle said, "There is neither 'Adha (no contagious disease is conveyed to others without Allah's permission) nor Tiyara, but an evil omen may be in three a woman, a house or an animal."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 71, Number 649
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5753
حدیث حاشیہ: بد شگونی کے لغو ہونے پر سب عقلاء کا اتفاق ہے مگر چھوت کے معاملہ میں بعض اطباء اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض امراض متعدی ہوتے ہیں مثلاً جذام اور طاعون وغیرہ۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ تمہارا وہم ہے اگر وہ در حقیقت متعدی ہوتے تو ایک گھر کے یا ایک شہر کے سب لوگ مبتلا ہو جاتے مگر ایسا نہیں ہوتا بلکہ ایک گھر میں ہی کچھ لوگ بیمار ہوتے اور کچھ تندرست رہ جاتے ہیں جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5753
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5753
حدیث حاشیہ: (1) بدشگونی کے لغو ہونے پر تمام عقلاء متفق ہیں۔ حدیث میں مذکور تین چیزوں کے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بدشگونی اگر ہو بھی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہو سکتی ہے۔ “(سنن ابن ماجة، الطب، حدیث: 3921) اس کا مطلب یہ ہے کہ بدشگونی اگر ہو تو بھی ان مذکورہ تین چیزوں میں ممکن ہے لیکن یہ کوئی یقینی نہیں۔ سواری، بیوی اور گھر اگر دین و دنیا میں مفید نہ ہوں تو ان کے بدل لینے میں کوئی حرج نہیں۔ سواری کی نحوست یہ ہے کہ وہ اڑیل ہو اور مقصد پورا کرنے کے قابل نہ ہو۔ بیوی کی نحوست یہ ہے کہ وہ ترش مزاج اور جھگڑالو ہو۔ اور گھر کی نحوست یہ ہے کہ وہ تنگ و تاریک ہو یا اس کے ہمسائے اچھے نہ ہوں۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور جاہلیت کی بدشگونی کو شرک قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: ”ہم میں سے کوئی نہ کوئی کسی وہم میں مبتلا ہو ہی جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ توکل کی برکت سے اسے زائل کر دیتا ہے۔ “(سنن ابن ماجة، الطب، حدیث: 3538) بہرحال بدشگونی اور نحوست کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5753
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث86
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں چھوا چھوت کی بیماری، بدفالی اور الو سے بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے“، ایک دیہاتی شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اونٹ کو (کھجلی) ہوتی ہے، اور پھر اس سے تمام اونٹوں کو کھجلی ہو جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی تقدیر ہے، اگر ایسا نہیں تو پہلے اونٹ کو کس نے اس میں مبتلا کیا؟“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 86]
اردو حاشہ: (1) عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ اگر کسی بیمار کے پاس کوئی تندرست آدمی اٹھتا بیٹھتا ہے یا اس کے ساتھ کھاتا پیتا ہے یا اس کا لباس استعمال کرتا ہے تو اسے بھی وہی بیماری لگ جاتی ہے جو مریض کو تھی۔ عرف عام میں ایسی بیماریوں کو متعدی بیماریاں کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیماری اس طرح ایک سے دوسرے کو نہیں لگتی، البتہ ایسا ہو سکتا ہے کہ جس وجہ سے پہلے آدمی کے جسم میں مرض پیدا ہوا ہے، وہی وجہ کسی اور شخص میں بھی پائی جائے اور وہ بھی بیمار ہو جائے۔ جدید طب میں جراثیم کا نظریہ بہت مقبول ہے لیکن یہ جراثیم بھی بحکم الہی اثر انداز ہوتے ہیں، گویا دوسرے مریض کے بیمار ہونے کی اصل وجہ حکم باری تعالیٰ ہے نہ کہ مریض کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا۔ اس کے علاوہ ہومیو پیتھک نظریہ علاج جراثیم کو امراض کا سبب ہی تسلیم نہیں کرتا، اس لیے اس نظریے کے مطابق بھی مریض کا ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہونا ایک غلط تصور ہے۔
(2) عرب لوگ پرندوںاور جنگلی جانوروں کے گزرنے سے شگون لیتے تھے۔ کوئی شخص کوئی کام کرنا چاہتا تو کسی بیٹھے ہوئے پرندے یا ہرن وغیرہ کو پتھر مار کر بھگاتا، اگر وہ دائیں جانب جاتا تو سمجھا جاتا کہ کام صحیح ہو جائے گا، اگر بائیں طرف جاتا تو سمجھا جاتا کہ کامیابی نہیں ہو گی۔ اس طرح کے کام محض توہم پرستی کا مظہر ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ آج کل بھی اس طرح کے توہمات پائے جاتے ہیں، مثلا: کسی لنگڑے یا یک چشم انسان سے ملاقات ہو جائے تو اسے نحوست کا باعث قرار دینا۔ کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو سمجھنا کہ کام نہیں ہو گا یا کسی خاص عدد (مثلا تیرہ کا عدد) یا کسی خاص دن (مثلا منگل) یا کسی خاص مہینہ (مثلا ماہ صفر یا شوال) کو نامبارک قرار دینا بھی اسی میں شامل ہے۔ کوئی نقش بنا کر اس کے خانوں میں انگلی رکھنا یا اس قسم کے فال ناموں سے قسمت معلوم کرنے کی کوشش کرنا سب ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔
(3) مشرکین عرب میں ایک غلط تصور یہ بھی پایا جاتا تھا کہ اگر متقول کا بدلہ نہ لیا جائے تو اس کی روح اُلو کی شکل اختیار کر کے بٹھکتی اور چیختی پھرتی ہے اور انتقام کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس غلط تصور کی وجہ سے ان لوگوں میں نسل در نسل انتقام اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہتا تھا، حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی، اسی طرح اُلو کو منحوس تصور کرنا غلط ہے۔ وہ بھی دوسری مخلوقات کی طرح اللہ کی ایک مخلوق ہے جس کا انسانوں کی قسمت سے کوئی تعلق نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 86
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3540
´نیک فال لینا اچھا ہے اور بدفالی مکروہ۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھوت چھات، بدشگونی اور الو دیکھنے کی کوئی حقیقت نہیں، ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب اٹھ کر بولا: اللہ کے رسول! ایک اونٹ کو جب کھجلی ہوتی ہے تو دوسرے اونٹ کو بھی اس کی وجہ سے کھجلی ہو جاتی ہے ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی تو تقدیر ہے، آخر پہلے اونٹ کو کس نے کھجلی والا بنایا“۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3540]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل: اگر ایک اونٹ کو دوسرے سے خارش لگی اوردوسرے کوتیسرے سے تو کوئی اونٹ تو ایسا ہوگا جس کو دوسرے سے نہیں لگی ہوگی۔ تو جس سبب سے وہ بیمار ہوا۔ اسی سبب سے بعد والے بیمار ہوسکتے ہیں۔ خواہ انھیں کوئی بیمار لگے یا نہ لگے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3540
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5772
5772. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چھوت لگ جانے اور بد شگونی کی کوئی حقیقت نہیں۔ (اگر نحوست ممکن ہوتی تو) نحوست تین چیزوں میں ہوتی گھوڑے میں عورت میں اور گھر میں (مگر درحقیقت ان میں بھی نہیں ہے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5772]
حدیث حاشیہ: مگر درحقیقت ان میں بھی نہیں ہے۔ إلا أن یشآءاللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5772
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2099
2099. حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ یہاں نواس نامی ایک شخص تھا، اس کے پاس ایسے اونٹ تھے جن کی پیاس نہ ختم ہوتی تھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لے گئے اور اس کے شریک سے وہ اونٹ خرید لائے، پھر اس کے پاس وہ شریک آیا اور کہنے لگا کہ ہم نے وہ اونٹ فروخت کردیے ہیں۔ اس نے کہا: کس کے ہاتھ فروخت کیے ہیں؟اس نے جواب دیا کہ فلاں بزرگ کو فروخت کیے ہیں جن کی شکل و صورت کچھ ایسی ایسی تھی۔ اس نے کہا: تیرے لیےخرابی ہو، اللہ کی قسم!وہ تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ پھر وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور آپ سے عرض کرنے لگا: میرے شریک نے آپ کے ہاتھ پیاس والے اونٹ فروخت کر دیے ہیں اور اس نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اپنے اونٹ ہانک کر لےجاؤ۔ جب وہ ہانکنے لگا تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2099]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ بیوپاریوں کا فرض ہے کہ خریداروں کو جانوروں کا حسن و قبح پورا پورا بتلا کر مول تول کریں۔ دھوکہ بازی ہرگز نہ کریں۔ اگر ایسا کیا گیا اور خریدار کو بعد میں معلوم ہو گیا تو معلوم ہونے پر وہ مختار ہے کہ اسے واپس کرکے اپنا روپیہ واپس لے لے۔ اور اس سودے کو فسخ کردے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی سوداگر بھول چوک سے ایسا مال بیچ دے تو اس کے لیے لازم ہے کہ بعد میں گاہک کے پاس جاکر معذرت خواہی کرے اور گاہک کی مرضی پر معاملہ کو چھوڑ دے۔ یہ بیوپاری کی شرافت نفس کی دلیل ہوگی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ گاہک در گزر سے کام لے۔ اور جو غلطی اس کے ساتھ کی گئی ہے حتی الامکان اسے معاف کردے اور طے شدہ معاملہ کو بحال رہنے دے کہ یہ فراخدلی اس کے لیے باعث برکت کثیر ہو سکتی ہے لاعدوی کی مزید تفصیل دوسرے مقام پر آئے گی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2099
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2099
2099. حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ یہاں نواس نامی ایک شخص تھا، اس کے پاس ایسے اونٹ تھے جن کی پیاس نہ ختم ہوتی تھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لے گئے اور اس کے شریک سے وہ اونٹ خرید لائے، پھر اس کے پاس وہ شریک آیا اور کہنے لگا کہ ہم نے وہ اونٹ فروخت کردیے ہیں۔ اس نے کہا: کس کے ہاتھ فروخت کیے ہیں؟اس نے جواب دیا کہ فلاں بزرگ کو فروخت کیے ہیں جن کی شکل و صورت کچھ ایسی ایسی تھی۔ اس نے کہا: تیرے لیےخرابی ہو، اللہ کی قسم!وہ تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ پھر وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور آپ سے عرض کرنے لگا: میرے شریک نے آپ کے ہاتھ پیاس والے اونٹ فروخت کر دیے ہیں اور اس نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اپنے اونٹ ہانک کر لےجاؤ۔ جب وہ ہانکنے لگا تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2099]
حدیث حاشیہ: (1) بیوپاریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خریداروں کو اپنے جانوروں کے عیوب بتادیں، اس سلسلے میں ہر گز دھوکا بازی نہ کی جائے،نیز عیب دار چیز کی خریدوفروخت کا بھی ثبوت ملتا ہے بشرطیکہ بیچنے والا اس کی وضاحت کر دے اور لینے والا اسے قبول کرلے۔ اگر وضاحت معاملہ طے کرنے کے بعد کی جائے تو خریدار کو اختیار ہے اسے رکھ لے یا واپس کردے۔ (2) اگر کوئی سودا گر بھول چوک سے عیب دار مال فروخت کردے تو ضروری ہے کہ اس کے بعد گاہک کے پاس جاکر اس کی معذرت کرے اور اس کی مرضی پر معاملہ چھوڑ دے۔ یہ اس کی شرافت ودیانت کی دلیل ہوگی۔ گاہک کا درگزر کرنا،اسے معاف کر دینا اور معاملہ برقرار رکھنا اس کی فراخ دلی کی علامت ہے۔ ایسا کرنا باعث خیروبرکت ہوسکتا ہے۔ (3) کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا،اس کے متعلق ہم اپنی گزارشات کتاب الطب میں پیش کریں گے۔ باذن الله تعاليٰ.واضح رہے کہ مسند حمیدی میں سفیان نے تحدیث کی تصریح کی ہے۔ (مسند الحمیدی: 2/42،دار الکتب العلمیۃ،الطبعۃ الاولیٰ،وفتح الباری: 4/407)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2099