اور ہشام بن عمار نے بیان کیا کہ ان سے صدقہ بن خالد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نے، ان سے عطیہ بن قیس کلابی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن غنم اشعری نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ابوعامر رضی اللہ عنہ یا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: اللہ کی قسم! انہوں نے جھوٹ نہیں بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو زناکاری، ریشم کا پہننا، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنا لیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر (اپنے بنگلوں میں رہائش کرنے کے لیے) چلے جائیں گے۔ چرواہے ان کے مویشی صبح و شام لائیں گے اور لے جائیں گے۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لیے اس سے کہیں گے کہ کل آنا لیکن اللہ تعالیٰ رات کو ان کو (ان کی سرکشی کی وجہ سے) ہلاک کر دے گا پہاڑ کو (ان پر) گرا دے گا اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندر اور سور کی صورتوں میں مسخ کر دے گا۔
Narrated Abu 'Amir or Abu Malik Al-Ash'ari: that he heard the Prophet saying, "From among my followers there will be some people who will consider illegal sexual intercourse, the wearing of silk, the drinking of alcoholic drinks and the use of musical instruments, as lawful. And there will be some people who will stay near the side of a mountain and in the evening their shepherd will come to them with their sheep and ask them for something, but they will say to him, 'Return to us tomorrow.' Allah will destroy them during the night and will let the mountain fall on them, and He will transform the rest of them into monkeys and pigs and they will remain so till the Day of Resurrection."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 69, Number 494
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5590
حدیث حاشیہ: یہ ساری برائیاں آج عام ہو رہی ہیں گانا بجانا، ریڈیو نے گھر گھر عام کر دیا ہے۔ شراب نوشی عام ہے، زنا کاری کی حکومتیں سرپرستی کرتی ہیں۔ ان کے نتیجہ میں وادی سوات پاکستان میں زلزلہ اور ہماچل پردیش کا زلزلہ ہندوستان میں عبرت کے لیے کافی ہے۔ لڑکوں کا لڑکیوں کی شکل میں تبدیل ہونا اور لڑکیوں کا لڑکوں جیسا حلیہ بنانا بھی عام ہو رہا ہے۔ اسی لیے صورتیں مسخ ہوتی جا رہی ہیں اور عذاب مختلف صورتوں میں بدل کر ہم پر نازل ہو رہا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5590
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5590
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5590 کا باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِيمَنْ يَسْتَحِلُّ الْخَمْرَ وَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں شربت اور شہد کا ذکر فرمایا ہے اور تحت الباب دو آثار اور ایک حدیث ذکر فرمائی۔ پہلا اثر امام زہری رحمہ اللہ سے منقول ہے، اور دوسرا اثر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں: «ترجم على شيئى وأعقبه بضده وبضدها تتبين الاشياء ثم عاد وما يطابق الترجمة نصباً.»[فتح الباري لابن حجر: 99/11] ”یعنی بول اور خمر دونوں ہی حرام ہیں اور حلوہ اور عسل دونوں حلال ہیں اور طیب ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے حلوہ اور عسل کے بعد حرام کا ذکر فرمایا، کیونکہ «وبضدها تتبين الاشياء»
بعض حضرات ترجمة الباب اور آثار میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ”امام زہری رحمہ اللہ کے قول سے قرآن کریم کی آیت مبارکہ «احل لكم الطيبات» کی طرف اشارہ مقصود ہے اور ظاہر ہے کہ «حل» اور «عسل» طیبات میں سے ہیں۔“[فتح الباري لابن حجر: 67/99] امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جو حدیث ام المؤمنین سے نقل فرمائی ہے اس کی مناسبت واضح ہے اور اس میں حلوا سے مراد ہر میٹھی چیز ہے۔
لہٰذا ترجمة الباب اور تحت الباب آثار میں مناسبت یہ ہو گی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں حلال اشیاء کے ذکر کے بعد تحت الباب «بضدها تبتين الاشياء» کا ذکر کرتے ہیں، تاکہ واضح ہو جائے کہ کون سی اشیاء حلال ہیں اور کون سی اشیا حرام، یہ بھی یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں حلوہ کا ذکر فرمایا ہے اس سے مراد وہ حلوہ ہے جو مائع نہ ہو بلکہ اسے پیا جائے، چنانچہ محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «والأوجه عندي: أن المراد فى الترجمة بشراب الحلواء والعسل الماء المخلوط بشيئى خلو الذى يقال فى الهندية ”شربت“ و ”شربت العسل“ معروف فى ديارنا.»[الابواب و التراجم: 99/6] ”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں جو حلوہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے، اس سے شربت مراد ہے، یعنی ہر وہ پانی جس میں کوئی میٹھی چیز ملا دی جائے، ہندوستان میں شربت اور ”شربت عسل“ کے نام سے شربت مشہور ہیں۔“
لہٰذا حلوہ ہمارے عرف میں پینے کی چیز نہیں ہے بلکہ اسے کھایا جاتا ہے کیوں کہ وہ مانع نہیں ہوتا، لہٰذا ترجمۃ الباب میں حلوہ مائع مراد ہے جو پیا جاتا ہے جیسے نقیع تمر، نقیع زبیب اور شربت عسل وغیرہ۔ [ارشاد الساري: 58/9]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5590
حدیث حاشیہ: (1) حرام چیز کا نام بدل دینے سے اس کا حکم تبدیل نہیں ہو جاتا جیسا کہ سود کا نام منافع یا مارک اپ رکھ دیا جائے تو اس کی حقیقت نہیں بدلتی، اسی طرح شراب کو مشروب یا شربت کہنے سے یا اور کوئی نام رکھ لینے سے وہ حلال نہیں ہو جاتی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں واضح الفاظ میں پیش گوئی فرمائی ہے، آپ نے فرمایا: ”رات دن کا نظام ختم نہیں ہو گا حتی کہ میری امت کے کچھ لوگ شراب نوشی کریں گے لیکن اسے اس کے نام کے سوا دوسرے نام سے پکاریں گے۔ “(سنن ابن ماجة، الأشربة، حدیث: 3384) اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے مگر اس کا نام کچھ اور رکھ لیں گے۔ “(سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3688)(2) افسوس کہ حدیث میں مذکور تمام برائیاں آج عام ہو رہی ہیں۔ گانا بجانا اور شراب نوشی عام ہے، زنا کاری کے اڈے تو حکومتی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے محفوظ رکھے۔ آمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5590