ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے حنظلہ نے، ان سے سالم نے، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ وہ چہرے پر نشان لگانے کو ناپسند کرتے تھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے سے منع کیا ہے۔ عبیداللہ بن موسیٰ کے ساتھ اس حدیث کو قتیبہ بن سعید نے بھی روایت کیا، کہا ہم کو عمرو بن محمد عنقزی نے خبر دی، انہوں نے حنظلہ سے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5541
حدیث حاشیہ: اس روایت میں صراحت ہے کہ منہ پر مارنے سے منع فرمایا، بعض جاہل معلموں کی عادت ہے کہ بچوں کے منہ پر مارا کرتے ہیں۔ ان کو اس حدیث سے نصیحت لینی چاہیئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5541
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5541
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے موقوف روایت بیان کی ہے اس کے بعد مرفوع روایت کو ذکر کیا ہے۔ یہ مرفوع روایت، موقوف کے لیے بطور دلیل ہے کہ جب چہرے پر مارنا منع ہے تو اس پر نشان لگانا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے عنوان میں اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہو جو اس کے متعلق صریح ہے، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور چہرے پر نشان لگانے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم، اللباس و الزینة، حدیث: 5550 (2116) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایسا گدھا گزرا جس کے چہرے پر نشان لگایا گیا تھا تو آپ نے فرمایا: ”اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جس نے یہ داغ لگایا ہے۔ “(صحیح مسلم، اللباس و الزینة، حدیث: 5552 (2117)(2) چہرے کے علاوہ جسم کے کسی دوسرے حصے پر بطور علامت داغ لگانا جائز ہے۔ اس کی وضاحت آئندہ ہو گی۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5541